گاؤں سے شہر تک

یوں لگتا ہے جیسے میں لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں الفاظ سے پروئے گئے


Abdul Qadir Hassan March 10, 2016
[email protected]

یوں لگتا ہے جیسے میں لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں الفاظ سے پروئے گئے جملے اور بنائے گئے فقرے یہ سب اخباروں کے ورقوں کی دنیا میں کھو گئے اور باقی رہ گئی وہ پنسل جسے اب بال پوائنٹ کہا جاتا ہے جو پہلے سرکنڈے سے تراشی جاتی تھی پھر اسی کی نسل کی ایک اور سخت لکڑی سے، جس سے قلم بنانا ہماری جماعت کے چند لڑکوں کو آتا تھا اور جن کے پاس یہ ہنر تھا وہ اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے اور اگر آپ کی دی ہوئی لکڑی سے وہ قلم تیار کرنے پر آمادہ ہو جاتے تو اکثر کہا کرتے کہ گھر لے جاتا ہوں کل پرسوں قلم بنا کر لے آؤں گا۔ یہ مہربانی ہر لڑکے پر نہیں ہوتی تھی۔

میں بھی ان لڑکوں میں شامل تھا جن کے قلم تراشے جاتے تھے۔ اس سے پہلے فاؤنٹین پن ہوتے تھے جو لڑکوں سے اکثر خراب ہو جاتے تھے۔ کبھی سیاہی گر جاتی تھی اور کبھی نب ٹوٹ جاتی تھی اسی طرح اس قلم کے کچھ دوسرے اعضاء بھی خاصے کمزور ہوتے تھے اور یہ قلم اکثر خراب ہو جاتا تھا اور قلم دوات بیچنے والے دکاندار کے پاس جانا پڑتا تھا۔ گھر سے والدہ کی آنکھ بچا کر گندم کے سیر آدھ سیر دانے اپنی قمیض کے اگلے حصے میں بھر لیتے جسے دکاندار کے پاس جا کر الٹ دیا جاتا وہاں اس کی قیمت لگتی اور اس قیمت سے قلم کو پھر سے زندہ کیا جاتا۔ یہ سلسلہ تعلیم کے ساتھ ساتھ چلتا ہی رہتا۔

فرش پر ٹاٹ اور ہاتھ میں سرکنڈے کی قلم اور سامنے کتاب جو بے حد حفاظت سے رکھی جاتی تھی مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں سے پھٹ جاتی تھی۔ ٹوٹا ہوا قلم پھٹی ہوئی کتاب اور میلا کچیلا ٹاٹ یہ تھے ہماری تعلیم کے سامان اور استاد محترم جو اپنا ہر وہ کام جسے ان کے شاگرد کر سکتے تھے ان چھوٹے چھوٹے شاگردوں کے سپرد ہوتا اور وہ ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر جماعت کا ڈسپلن قائم رکھتے۔ کیا مجال جو کوئی بچہ ان کی جماعت میں غیر ضروری شرارت کر جائے۔ مناسب شرارت پر درگزر کر دیا جاتا تھا۔ تعلیم کے ان ابتدائی دنوں کی یادیں بہت طویل ہیں، گاؤں کا یہ اسکول پرائمری جماعت تک تھا۔

اس مرحلے کو طے کر کے مڈل اسکول میں داخلہ مل سکتا تھا۔ آٹھویں جماعت تک کے اس اسکول کے بعد میٹرک کی جماعتیں شروع ہوتیں اور قسمت والے دس جماعتیں پاس کر لیتے۔ یہ میٹرک اسکول گاؤں سے باہر کسی دوسرے گاؤں میں ہوتا تھا جہاں ہر روز پیدل چل کر جاتے اور واپس آتے موسم کی ساری سختیاں بستے اٹھاتے ہوئے ان بچوں پر گزر جاتیں۔ صبح سویرے اور شام اندھیرے کی یہ آمدورفت میٹرک کے سالانہ امتحان تک جاری رہتی اور کئی ہم جماعت گھر کے کاموں کی وجہ سے میٹرک میں داخلہ نہ لے سکتے وہ صرف دوسرے بچوں کو تعلیم میں مصروف دیکھ سکتے تھے۔

حسرت بھری نظروں کے ساتھ ان کے غریب گھر والے ان کی مزید تعلیم کا خرچ برداشت نہ کر سکتے۔ یہ بچے بڑے ہو کر فوج یا پولیس میں بھرتی ہو جاتے اور استری شدہ وردی پہن کر گاؤں میں آیا کرتے۔ وہ اپنی گاؤں کی ابتدائی تعلیم سے بھی محروم رہنے کا صدمہ بھول چکے ہوتے اور نئی زندگی میں بہت خوش دکھائی دیتے۔ آج میں کبھی پڑھتا ہوں کہ کسی بڑے افسر نے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہے تو مجھے کچھ تعجب نہیں ہوتا۔ ہمارے کئی ہم جماعت اچھے محکموں میں بھرتی ہو گئے تھے یا انھوں نے بڑے امتحان پاس کر لیے تھے اور حکمران بن گئے تھے۔ ایک بات اکثر دیکھی کہ جب ان افسروں کے پاس ان کا کوئی ہم جماعت کسی کام کے لیے جاتا تو وہ نہ صرف اس کا کام کر دیتے بلکہ اس کی عزت افزائی بھی کرتے اور اپنے ماتحتوں کو بتاتے کہ ہم پرائمری اسکول کے ہم جماعت ہیں۔ ٹاٹ والے اسکول کے۔

یہ اتفاق ہے یا گاؤں کے سادہ ماحول کی برکت ہے کہ یہاں کے پڑھے ہوئے بالعموم دیانت دار افسر رہے اور چھوٹے لوگوں پر بہت مہربان کہ انھوں نے ان چھوٹوں کے ساتھ زندگی کا یاد گار حصہ گزارا تھا۔ ان بڑوں کے ہم جماعت اگر اب بھی غریب ہوتے تو وہ اپنے کسی ملازم کو بھیج کر چپکے سے ان کی واپسی کا ٹکٹ منگوا دیتے اور بچوں کے لیے کچھ بھجوا دیتے۔ زندگی کا یہ حسن ایک مدت تک ہمارے معاشرے پر سایہ فگن رہا۔ اس دور میں امیر غریب دونوں انسان ضرور تھے اور ان کے درمیان اگر کوئی فرق تھا تو وہ خاندانی تعلق کا۔ میں ایک بڑے اخبار میں کام کرتا تھا کہ ایک دن اس کے مالک ایڈیٹر کو ملنے کچھ لوگ آئے۔

وہ اپنی کرسی سے فوراً اٹھ کر ان کے پاس بیٹھے اور شکوہ کرتے رہے کہ انھوں نے انھیں بلایا کیوں نہیں اور خود کیوں آ گئے۔ بڑی خوشی ہوتی اگر آپ ملنے کے لیے مجھے بلا لیتے۔ بہر حال جب یہ میاں بیوی چلے گئے تو انھوں نے اپنے اسٹاف ہی سے کسی کے پوچھنے پر بتایا کہ بچپن میں میری ماں ان کے ہاں کام کرنے جاتی تھی اور میں ان کے صحن میں کھیلتا رہتا تھا۔ مجھے کچھ کھانے کو بھی دیا جاتا۔ آج میں ان کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ جن اخباروں میں کام کرتا رہا ان میں کچھ ایسے بزرگ بھی کام کرتے تھے جن کے بیٹے بڑی ہی اعلیٰ ملازمتوں پر تھے۔

وہ جب ان سے ملنے کبھی دفتر میں آ جاتے تو ان کے والد ان کو حکماً اپنے ساتھیوں سے ملواتے اور ہدایت دیتے کہ ان کا نام لے کر بھی کوئی تمہارے پاس آئے تو تم نہ صرف اس کا کام کر دو بلکہ اس کی عزت افزائی بھی کرو۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے مجھے ہمیشہ سہارا دیا اور ہم لوگ ترقی کرتے رہے۔ آج اگر مجھے کبھی کام پڑے اور معلوم ہو کہ متعلقہ افسر ہمارا بھتیجا ہے تو اس کے سامنے عرضی پیش نہیں کرتے صرف بتاتے ہیں کہ کام کیا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے اسے کیا نصیحت کی ہو گی۔یہ پرانے زمانے کے باپ اور بیٹے تھے جو وضعداری کی زندگی بسر کرتے تھے اور باعزت تھے۔

یہ بیٹے بھی یہی نصیحت اپنے آنے والوں کو کر گئے۔ میں ایک دکان سے سامان خرید رہا تھا کہ سیلز مین نے میرے سامان کا پیکٹ بنا کر کسی اور کو تھما دیا اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ایک آواز آئی کہ سر آپ چلیں میں گاڑی تک چھوڑ آتا ہوں۔ یہ صاحب لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور ہمارے ایک کارکن ساتھی کے بیٹے۔ جب تک زندگی ان لوگوں کے آس پاس گزرتی رہی اور جس حد تک اب گزر رہی ہے تو وہ زندگی کام کی ہے جس سے اکتاہٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی بے زار ہوتے ہیں، وجہ مالی وسائل اور خوشحالی نہیں ہے بلکہ یہ لوگ ہیں جو آپ کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں آپ کے اندر حالات کے مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ زندگی کو اطمینان کے ساتھ بسر کر رہے ہیں اور ہر قسم کی تھکاوٹ بھی دور ہو جاتی ہے۔

مقبول خبریں