مسلمانوں کی اصل طاقت

ملک بھر میں بارش ہو رہی تھی مگر لاہور خشک تھا۔ اس ہفتہ کی صبح کو بتایا گیا کہ باہر بارش ہو رہی ہے۔


Abdul Qadir Hassan March 13, 2016
[email protected]

WARSAW: ملک بھر میں بارش ہو رہی تھی مگر لاہور خشک تھا۔ اس ہفتہ کی صبح کو بتایا گیا کہ باہر بارش ہو رہی ہے۔ رات بھر سے جاری ہے اور مسلسل برستے چلی جا رہی ہے۔ قدرت کی اس مہربانی پر وادیٔ سون کے دو شہری اور باشندے خوش تھے۔ ایک میں اور ایک میری پہاڑی یا پہاڑ محرم دیو۔ پہاڑوں میں گھرے ہوئے میرے گاؤں یا اس وادی کا سب سے اونچا پہاڑ سکیسر ہے اور دوسرا کم اونچائی والا محرم دیو ہے جو میرے گاؤں کے اوپر کھڑا ہر وقت اسے جھانکتا رہتا ہے اور گاؤں کے چرواہے جب اسے سرسبز اور ہرا بھرا دیکھتے ہیں تو وہ بھی محرم دیو جتنے بلند ہو جاتے ہیں اور جب بارش ہو رہی ہو تو قسمت والے ہی محرم دیو کی بلندی کا نظارہ کرتے ہیں۔

بارش میں محرم دیو کی چوٹی دھند میں غائب ہو جاتی ہے اور اس کی سرسبز رونق بھی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ بھی گم ہو جاتی ہے۔ معلوم نہیں اس پہاڑ کا نام 'محرم دیو'' کس نے رکھا تھا۔ دیو کے معنی تو بھاری بھرکم وجود کے ہیں جو اس پہاڑ سے ہی ظاہر ہے یا پھر کسی حیران کن ہیولے کے جو پہاڑوں کے اس سلسلے کے ادھر سے ادھر تک پھیلا ہوا ہے لیکن محرم کے کیا معنی۔ ویسے میرے گاؤں کے لوگ اسے مارم دیو کہتے ہیں۔ ممکن ہے 'مارم' کے کچھ معنی ہوں۔

ہمارے ہاں سنسکرت کے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ خود سکیسر بھی اسی زبان کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔ سکیسر پہاڑ کے قدموں میں وادی کی سب سے بڑی جھیل اوچھالی ہے۔ پانی کے ذخیرے کو ساکی بھی کہا جاتا ہے اور یہ پہاڑ جھیل اوچھالی کے اوپر سایہ فگن ہے اور جیسے نیچے پانی کے ذخیرے کے یہ اس کا سر ہے۔ ساکی سر اور پھر سکیسر ہے جو بھی ہے یہ وادی بہت پرانے زمانوں سے آباد ہے۔ یہاں کسی زمانے کی قبریں بھی ملتی ہیں جو مستطیل شکل کی ہیں پھر کسی پہاڑی کے اوپر چوٹی پر ایک گاؤں کے آثار ملتے ہیں جس کی طرف جانے کا راستہ اس پہاڑی کی بلندی کی طرف بھاری پتھروں کی بنی سیڑھیوں کا راستہ ہوتا ہے۔

پہاڑی کی چوٹی پر کبھی آباد گاؤں کی تعمیر کا سامان ان ہی بلند سیڑھیوں سے گزرتا ہو گا جو گاؤں کے غیر معمولی طاقت والے باشندوں کا پتہ دیتا ہے۔ ان کی خوشی غم کی سب مجلسیں اسی بلند گاؤں پر ہوتی تھیں اور زندگی ایک مشکل زندگی، کھانے پینے کا سامان نیچے سے اوپر آتا ہو گا اب جب میں ایک ایسے ہی بلند گاؤں ''تلا جھا' کی چوٹی پر بیٹھا ہوں تو اس فکر میں غلطاں ہوں کہ مجھے یہاں سے واپس نیچے کون لے جائے گا اور بحفاظت واپسی کی ضمانت پوری ہو گی یا نہیں۔ میں جو آج تک محرم دیو کی چوٹی پر نہیں گیا آج اس سے ذرا کم بلندی پر کیسے پہنچ گیا ہوں جب کہ یہاں کوئی سیڑھی وغیرہ نہیں ہے بس سیدھا سادا پہاڑ ہے اگر اس پر پہنچ کر آپ بچ جائیں تو کوئی مارتا نہیں اور مر جائیں تو کوئی بچاتا نہیں۔ یہاں زندگی اپنے بل بوتے پر گزارنی ہوتی ہے۔

کوئی چوہدری پرویز الٰہی نہیں جس کا ریسکیو محکمہ آپ کو بچا سکے۔ یہ محکمہ بھی پاکستان کی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے کیونکہ ایسے کسی عوامی خیرخواہ محکمے کا تصور موجود نہیں ہے اور ہم حکومت کی کسی قسم کی مدد کے بغیر ہی کسی اچانک حادثے سے گزر جاتے ہیں۔ میں نے جب پہلی بار اس محکمے کا ذکر کیا تو ایک حیرت زدہ انسان کی طرح کیا کہ ہمارے گھر کے ایک لاچار مریض کو مدد کی ضرورت پڑ گئی تو اس نئے محکمے کو فون کیا کہ چلیے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن جو دیکھا وہ حیرت کا ایک سمندر تھا۔ پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔

چند ہی منٹ بعد ایک گاڑی ہمارے گھر پہنچ گئی۔ اس کے اوپر اس کے محکمے کا فون نمبر جلی حروف میں لکھا تھا اور اس میں ایک تربیت یافتہ محکمے کے کارکن تھے۔ مریض دوسری منزل پر تھا انھوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں وہ آناً فاناً اسٹریچر سمیت دوسری منزل پر پہنچ گئے اور مریض کو بحفاظت آرام کے ساتھ اتار کر نیچے کھڑی گاڑی میں لے آئے اور اس سے قبل کہ ہم متعلقہ اسپتال پہنچتے وہ پہنچ چکے تھے اور مریض کو اسپتال والوں کے حوالے کر چکے تھے۔

انھوں نے کوئی مزدوری اور کرایہ وغیرہ لینے سے انکار کر دیا اور فوراً واپس چلے گئے۔ ہم سب ایک سرکاری پاکستانی ادارے کی اس خاموش خدمت پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ایسا تجربہ میرے کئی ملنے والوں کا بھی رہا ہے اور میں جب بھی سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو دیکھتا ہوں تو دل سے اٹھنے والی ایک دعا کے ساتھ۔ اس خدمت کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ بعد میں ایک صاحب نے بتایا کہ رات کو ہائی وے پولیس کا کارنامہ بھی ان کا ہے اور لوگ بے فکر ہو کر رات کو سفر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں پرویز الٰہی ایک کارکن وزیراعلیٰ تھے اور یہ سب ایسے کام ہیں جو کسی بدلے کے لیے نہیں ہیں۔ ان کے ووٹر تو نہ جانے کہاں رہتے ہوں گے جنھیں شاید کبھی کسی سرکاری مدد کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

پاکستان اسلام کے نام بر بنا تھا تو ایسے محکمے اس کی تشکیل کی فطرت میں تھے۔ خدمت خلق اسلام کا بنیادی مقصد ہے اور کسی مسلمان کی خدمت کرنا اتنا بڑا ثواب ہے کہ قرآن و حدیث دونوں کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ اسلام تو دشمن کے خلاف جنگ میں بھی سرسبز درخت تک کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا، بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کی حفاظت کی ذمے داری ہوتی ہے اور پاکستان میں ریسکیو کا محکمے اسلام کی تعلیمات کا مکمل نمونہ ہے۔

کسی انسان کو سب سے پہلے کسی کی ہمدردی متاثر کرتی ہے باقی حسن سلوک بعد کی بات ہے۔ اسلام کا فروغ اپنی تعلیمات کی وجہ سے تھا اور اب جب اسلام ایک محکوم قبیلے والوں کا نام ہے امریکا کی سپرپاور کے انتخابی امیدوار مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں جو امریکا میں ان کی پناہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اسلام انسان کے اندر ایک ایسا زندہ جذبہ بھر دیتا ہے جو اسے نیکی اور حق گوئی سے باز نہیں رکھ سکتا۔

مقبول خبریں