پرویز مشرف…خواتین بل

معلوم نہیں کون سے آئین اور قانون کے مطابق ایک بڑے ملزم کو آزادی دے دی گئی۔


Abdul Qadir Hassan March 19, 2016
[email protected]

KARACHI: قوم ان دنوں بیک وقت دو ہنگاموں سے گزر رہی ہے۔ ایک تو نہ جانے کس کے اشارے یا حکم پر یہ خواتین کی حفاظت کا بل منظور کیا گیا دوسرے ہمارے سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور اس عہدے کے اعتبار سے ملک کے صدر جناب پرویز مشرف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت مل گئی بلکہ وہ فوراً ہی چلے بھی گئے۔

جناب پرویز مشرف فوج کے سربراہ تھے جس کی طاقت سے انھوں نے ایک سویلین حکومت برطرف کر دی اور اس کی جگہ مارشل لاء لگا دیا اور اپنے لیے صدر کا عہدہ پسند کیا اور ملک کے صدر بن گئے۔ اس سے قبل بھی ایک سے زیادہ بار ایسا ہو چکا ہے سب سے پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان تھے جو خودی میں فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔

ان کی فیلڈ کوئی جنگ کا محاذ نہیں جس کے وہ مارشل بنتے بدقسمت پاکستان تھا اس کے بعد جس کمانڈر انچیف کا بھی جی چاہا وہ ملک پر مارشل لگا کر اس کا صدر بن گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا قیام پاکستان کی تحریک پر جو سراسر جمہوری اور سیاسی تھی۔ اس کے لیڈر بے پناہ جمہوریت پسند تھے جو مارشل کو گالی سمجھتے تھے بلکہ اس زمانے میں تو یہ مکروہ لفظ کسی زبان سے بھی نہیں سنا گیا۔

محمد علی جناح جیسے شخص کے لیے فوجی حکومت کا کوئی تصور نہ تھا جناب جنرل پرویز مشرف ہمارے تازہ ترین فوجی صدر تھے اور صدارت سے الگ ہونے کے باوجود اس قدر مضبوط اور حاکم تھے کہ انھیں عدالت میں کھڑے کرنے کی جرات دکھانے پر کوئی بھی تیار نہیں تھا۔

معلوم نہیں کون تھا جو اپنے سابق صدر کے تحفظ پر تلا ہوا تھا ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ فوج یہ نہیں دیکھ سکتی تھی کہ اس کا سربراہ کچہریوں میں دھکے کھاتا پھرے چنانچہ سول حکومت پر یہ واضح کر دیا کہ فوج کا ردعمل کیا ہے اور اس ردعمل کو برداشت کرنا آسان نہ تھا اگر کوئی حقیقی جمہوری نمایندہ ہوتا تو عوام کا خوف ہوتا جو ایک صحیح جمہوری ردعمل ہے اور آئین توڑنے والے کو آئین کے مطابق سزا ملتی مگر یہاں تو کپکپی طاری تھی اور سابق صدر کا ملک سے باہر چلے جانا ایک خوش نصیبی ہے جو ہماری حکومت کو حاصل ہو گئی ہے۔

معلوم نہیں کون سے آئین اور قانون کے مطابق ایک بڑے ملزم کو آزادی دے دی گئی۔ ہماری انتظامیہ تو کسی جیب کترے کو بھی معاف نہیں کرتی۔ کجا کہ ایک صریحاً آئین کے خلاف جانے والے کو معاف کر دے اس سے تو وہ پرانا محاورہ یاد آتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس یہ لاٹھی تو ہماری تین چار بار آزمائی ہوئی تھی اور اس کی چوٹ حساس جسموں کو یاد تھی جس کو جتنا درد تھا اور جتنا احساس تھا وہ اس کے مطابق ٹکور کر رہا تھا۔ ہمارے غیرجانبدار عوام سے میں نے بار بار سنا کہ ملک میں کسی کو بادشاہ بنا لیں۔

یہ سب اس آئے دن کی مار کٹائی سے بے زار تھے۔ عام آدمی چین کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے وہ محنت کرتا ہے اور بمشکل دو وقت کی روٹی کھاتا ہے۔ اسے ایک رواں دواں ایسی حکومت درکار ہے جو اس کو پریشان نہ کرے اور تبدیلی کا خطرہ جس کے سر پر منڈلاتا نہ رہے۔ جناب پرویز مشرف نے بتا دیا کہ ملک میں برتر اور بڑا کون ہے جس کا حکم بلکہ اشارہ بھی چلتا ہے۔

یہ معلوم نہیں کہ کس نے حکومت کو اکسایا اور اس نے ایک بل خواتین کے تحفظ کے لیے منظور کر لیا جب کہ پاکستان میں عورتیں زیادہ محفوظ ہیں شوہروں اور بیویوں کے گھریلو جھگڑے دنیا بھر میں عام ہیں۔ ہمارے ہاں عورت کو گھر کی مالکہ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ گھر کا انتظام عورت کے پاس ہوتا ہے۔ گھر کے اندر بیوی کی نافرمانی کون کر سکتا ہے۔ ایک مسلمان معاشرے میں اگر گھر کی چار دیواری کا احترام نہ ہو تو پاکستان میں گھریلو زندگی ایک عذاب بن جائے۔

جو خواتین اپنے پردے اور چار دیواری کا احترام نہیں کرتیں وہ پاکستان کے معاشرے میں کچھ اور کہلاتی ہے۔ کچھ بیگمات اس بل پر خوش ہیں ہمارا مسلم معاشرہ جتنا بھی گیا گزرا ہو وہ عورت کو بے عزت نہیں ہونے دیتا۔ عورت کی عزت ہماری فطرت میں ہے۔ کوئی کسی خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے تو وہ جواب میں کہتی ہے کہ تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے۔

یہ سن کر ایک آوارہ نوجوان بھی بھاگ جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ اور ان کے صحابہ کی زندگی جو حرف بہ حرف ریکارڈ پر ہے اور جس کی کسی دوسرے مذہب میں مثال نہیں ملتی اگر کوئی پڑھ لے تو اسے کسی مسلمان معاشرے میں ایسے بل کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ مسلمانوں نے اپنے اعمال سے اور زبان سے عورت کی عزت کا بے حد احترام کیا ہے اسے نہ صرف جائداد سے حصہ دیا ہے بلکہ اسے خود مالک بھی بنایا ہے مرد عورت کے تعلقات میں عورت کی مرضی کو مقدم سمجھا گیا ہے۔

حضرت عمرؓ نے ایک خاتون کو پروپوز کیا تو وہ اپنی بڑی بہن حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ عمرؓ کی زندگی بڑی سخت ہے میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور اس خاتون سے شادی کرنے سے منع کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے سر جھکا کر حکم کی تعمیل کا اقرار کیا۔ ایک عورت نے سب سے طاقت ور شہری کو اس کی بات ماننے پر مجبور کر دیا۔ عورت اور اسلام کی تعلیمات کا ایک طویل سلسلہ ہے اور ایسے قانون اسلام سے نابلد لوگ ہی پیش کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی معاشرتی روایات کو پامال نہیں کرنا چاہیے ورنہ ہم بالکل بکھر جائیں گے۔

مقبول خبریں