آٹو پالیسی سے گاڑیوں کے درآمدکنندگان اور ڈیلرز بھی ناخوش

بزنس رپورٹر  منگل 22 مارچ 2016
 استعمال شدہ گاڑیوں میں 80فیصد 660سی سی طاقت کی گاڑیاں ہیں جو مقامی سطح پر تیار نہیں کی جاتیں،  آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن۔  فوٹو: اے پی پی/فائل

استعمال شدہ گاڑیوں میں 80فیصد 660سی سی طاقت کی گاڑیاں ہیں جو مقامی سطح پر تیار نہیں کی جاتیں، آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

 کراچی:  حکومت کی آٹو پالیسی سے پرزہ جات بنانے والی مقامی کمپنیوں کے ساتھ گاڑیوں کے درآمدکنندگان اور ڈیلرز بھی ناخوش ہیں۔

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پالیسی پر جاری ردعمل میں کہا گیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا جبکہ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو نظرانداز کرتے ہوئے مقامی اسمبلرز کے لیے ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔

ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق گاڑیوں کے ڈیلرز نے پالیسی میں کوئی بڑی مراعات طلب نہیں کیں صرف استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت کا مطالبہ کیا تھا، جس طرح مقامی اسمبلرز مکمل تیار گاڑیاں درآمد کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی حلقوں کی طرح ایسوسی ایشن بھی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے گفٹ، بیگیج اور رہائش کی منتقلی کی اسکیموں کے غلط استعمال کی مخالف ہے اور تمام امپورٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی حامی ہے،وزارت خزانہ، وزارت صنعت و پیداوار اور انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں ایسوسی ایشن کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ان تجاویز کو آٹو پالیسی میں شامل کیا جائے گا جو نہیں کیا گیا تاہم اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ تجاویز آئندہ بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں میں 80فیصد 660سی سی طاقت کی گاڑیاں ہیں جو مقامی سطح پر تیار نہیں کی جاتیں اور نہ ہی ان گاڑیوں کے لیے سی این جی کی ضرورت ہے اس لیے استعمال شدہ گاڑیوں کو مقامی صنعت کے لیے خطرہ یا معیشت پر بوجھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار سے اپیل کی ہے کہ صارفین کی سہولت کے پیش نظر استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی اجازت دی جائے تاکہ صارفین کو اعلیٰ معیار کی محفوظ گاڑیاں مناسب قیمت پر مہیا کی جاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔