سیاست کی نئی نسل
ہم پاکستانی یا زیادہ تر پاکستانی ان دنوں اپنے سیاست دانوں کی دوسری نسل کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہم پاکستانی یا زیادہ تر پاکستانی ان دنوں اپنے سیاست دانوں کی دوسری نسل کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ نئی نسل اپنے بزرگوں کی جگہ لے رہی ہے اور اپنی سیاست اور سیاسی وقار کی اس تبدیلی یا اپنی دوسری نسل کو منتقلی پر خوش اور مطمئن ہیں جیسے ان کی جائیداد ان کی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ بزرگ سیاست دان اپنے نوجوانوں کی نگرانی اور رہنمائی کر رہے ہیں اور انھیں سیاسی گر سکھا رہے ہیں۔ اس امید پر کہ وہ ان سے بھی آگے نکل جائیں گے اور سیاست میں زیادہ کامیاب رہیں گے۔
میں بھی کچھ وقت سے اس نئی سیاسی نسل کو دیکھ رہا ہوں اور ان کے بزرگوں کو بھی۔ جو نوجوان سیاست دان پرانے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ پرانی روایات ان کے مزاج کا حصہ ہیں وہ اندر سے کچھ بھی ہوں، بول چال، برتاؤ اور میل جول میں اچھے ہیں اور سیاست میں شائستگی کے قائل ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ اب وہ جن لوگوں میں سیاست کر رہے ہیں وہ صرف مناسب حد تک ہی کسی کا رعب داب برداشت کرتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ ادب آداب والا سلوک کرنا ہو گا اور کسی فرد کا استحصال کسی منصوبے اور حکمت کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔
پرانے زمانے کے موروثی رعب داب سے اب کام نہیں چلتا۔ پرانے سیاسی خاندانوں کی عوام میں عزت تو ہے مگر حکمرانی نہیں رہی ہے اس لیے ان کی نئی نسل کے ساتھ بڑی حد تک برادرانہ سلوک ہی کامیاب رہتا ہے۔ بڑے لوگوں کی یہ نئی نسل آسان لوگوں کی نسل ہے ہے جو میل جول میں حیا بھی کرتی ہے اور بزرگوں کے تعلقات کا احترام بھی کر رہی ہے لیکن نئے سیاست دان خاندانوں کی اولاد بہت مشکل نوجوانوں کی نسل ہے جن کا سیاسی ورثہ ان کے باپ تک محدود ہے اس سے اوپر نہیں جاتا اور جن کی سیاسی روایات بہت محدود وقتی اور کھوکھلی ہیں۔ آپ سیاست دانوں کی اس نئی نسل کو سیاسی ''نودولتیے'' کہہ سکتے ہیں۔
سیاسی جلسوں میں ان کو بدتمیزی کرتے میں نے دیکھا ہے اور ان لوگوں کی کسی حد تک بے عزتی بھی جن کی ان کے ہاں عوام میں عزت کی جاتی ہے۔ ان دنوں ہر بڑی جماعت میں آپ کو اس نئی نسل کے نمائندے دکھائی دیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو ان کے بزرگ اپنا جانشین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ سیاست میں آ چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو حالات سازگار دیکھ کر سیاست میں داخل ہو گئے ہیں۔
کافی دن ہو گئے کہ ایک جہاندیدہ صحافی نے مجھے ان نودولتیے سیاست دانوں کے ساتھ دیکھا تو بعد میں مجھے نصیحت کی اور بتایا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان سے بچ کر رہنے میں ہی عزت کی سلامتی ہے۔ ان کے بزرگوں کے زمانے گئے۔ میرے پاس اس نوجوان نسل کے برتاؤ کی کئی مثالیں موجود ہیں مگر ان کا ذکر بے سود ہے۔ صحافی ہوں یا سیاسی کارکن، ان لوگوں سے میری گزارش ہے کہ وہ بہت محتاط رہیں اور ان نئے سیاست دانوں کو ان کے بزرگوں پر قیاس نہ کریں بہت فرق ہے۔ ایک نسل کا زمانہ گزر گیا۔
اپنی شاندار سیاسی روایات بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا اور جو بچ گئیں ان کو ان کی نئی نسل نے اپنا خاص رنگ دے دیا۔ جس میں باہمی تعلقات ماضی سے نہیں حال سے شروع ہوتے ہیں اور فوراً ہی ہاں یا نہیں تک پہنچ جاتے ہیں، بن جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں اس لیے وہ زمانے گئے جب انسانی رابطے پیدا ہو جاتے تھے تو آسانی کے ساتھ مرتے نہیں تھے زندہ رہتے تھے اور زندگی در زندگی چلتے تھے۔ والد صاحب جب فوت ہو گئے تو میرے کتنے ہی چچا خاص طور پر یہ کہنے آئے کہ ہم زندہ ہیں۔ میں تو چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے وہ میرے بڑے بھائیوں سے ملے اور جاتے ہوئے مجھے بہت پیار کیا۔
میں ماضی کی یہ باتیں کیوں کر رہا ہوں جب کہ یہ سب اب کتابوں میں بھی موجود نہیں ہیں اور لوگ نئی دنیا کی نئی زندگی کے پاپڑ بیلنے شروع ہو چکے ہیں اور یہ نئی زندگی صیغۂ ماضی سے نہیں صیغۂ مستقبل قریب سے شروع ہو تی ہے۔ جیسے روزی اب ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مل جاتی ہے۔ وہ زمانے گئے جب سال بہ سال نئی فصل کی صورت میں ملا کرتی تھی۔ کبھی کم کبھی زیادہ اور اسی پر قناعت کرنی پڑتی تھی۔ یہ تنخواہ نہیں سال بہ سال کی فصل ہوتی تھی جو مزارع اور مالک کے درمیان تقسیم ہو جاتی تھی۔ تنخواہ کی طرح لگی بندھی نہیں ہوتی تھی۔
سراسر قدرت کی مہربانی ہوتی تھی۔ اچھا موسم اور بروقت بارش اور فصل زیادہ ورنہ چھٹی۔ کوئی چند برس ہوئے کہ ایک سال بارشیں بروقت نہ ہوئیں اور ہمارا بارانی علاقہ ہمیں سال بھر کی روٹی بھی نہ دے سکا۔ میں نے برسوں بعد گندم لاہور کے بازار سے خریدی کیونکہ میرے کھیت خشک ہو گئے تھے۔ اس بازاری گندم کا ذائقہ مختلف تھا۔ کھانے میں الجھن ہوتی تھی۔ یہ لاہوری ذائقہ مجھے یاد رہے گا۔ ہماری گندم کھاد کے بغیر اور کسی قسم کی کھاد کی مدد کے بھی بغیر ایک خالص گندم ہوا کرتی ہے جس کو کھانے والے کسی قسم کی وٹامن کے محتاج نہیں ہوتے۔
مہربان قدرت ان کے کھیتوں میں وٹامن پیدا کر دیتی ہے مگر یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب تو ہم سب لاہور کی گندم منڈی پر زندہ رہتے ہیں کیونکہ گاؤں سے لاہور تک کون سال بھر کی گندم اٹھائے پھرے۔ اب تو زندگی لاہور کی زندگی ہے اور سیاست بھی لاہور کی سیاست البتہ اس کا آٹا دانہ دیہات سے آتا ہے۔ یوں سیاست کی حد تک لاہور اور گاؤں برابر ہیں۔ دونوں کی سیاست ایک دوسرے کی محتاج ہے اور خدا کرے یہ محتاجی ختم نہ ہو۔ دیہات اور شہر کا واحد رابطہ جو نئی نسل تک چلے گا کہ ان کی سیاست کا مال پانی دیہات سے آتا ہے۔