ہم فقط زیب حکایت تھے فسانہ تُو تھا

کسی سیانے کا قول ہے کہ عورت سے باتیں کرتے وقت وہ سنو جو اس کی آنکھیں کہتی ہیں


قدسیہ ممتاز April 30, 2016
[email protected]

کسی سیانے کا قول ہے کہ عورت سے باتیں کرتے وقت وہ سنو جو اس کی آنکھیں کہتی ہیں۔میڈیا نے یہ فن غالبا عورت سے سیکھا ہے اور ٹی وی اور سینیما کی چمکتی دمکتی اسکرینیں میڈیا کی وہ آنکھیں ہیں جن سے وہ وہی کام لیتا ہے جو عورت اپنی آنکھوں سے لیتی ہے۔ جدید ابلاغ کی زبان میں اسے غیر لفظی ابلاغ کہا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لفظی ابلاغ کو نظر انداز کردیا جائے۔ میڈیا تو شاید بخش دے عورت آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

فارن ہائیٹ نائن الیون امریکا کی مشہور ترین ڈاکیومینٹری ہے ۔ یہ دستاویزی فلم 2004 میں فلمساز اور سیاسی مبصر مائیکل مور نے بنائی۔اسے کینیس فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پہلی بار پیش کیا گیا ۔اس فلم کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ جہاں اس کا موضوع تھا وہیں اس کا موثر ابلاغ بھی تھا۔یہ فلم نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش کے عراق پہ حملے کے فیصلے کے خلاف تنقیدی زاویہ سے بنائی گئی۔فلم میں امریکی میڈیا کے سفاک رویے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب عراق پہ حملہ ہوا تو کس طرح امریکی میڈیا چیئر لیڈرز کا کردار ادا کر رہا تھا۔

یہ تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ چیئر لیڈرز اسپورٹس کی دنیا میں وہ کم سن لیکن بھرپور عفیفائیں ہوتی ہیں جو اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے تن من کی بازی لگا دیتی ہیں۔ ٹیم بھلے جیتے یا ہارے دیکھنے والوں کا ٹکٹ وصول ہوجاتا ہے۔ امید ہے اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ ذہین مائیکل مور نے امریکی میڈیا کے لیے یہ اصطلاح کیوں استعمال کی تھی۔اس کے علاوہ اس فلم کا نام بھی بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا۔

یہ نام امریکی ناول نگار Raymond Bradbury کے1953 میں شایع ہونے والے ایک علامتی ناول Fahrenheit 451 سے اخذ کیا گیا۔یہ ناول تاریخ میں جارح فاتحین کے ہاتھوں مغلوب اقوام کے علمی ذخیروں کو نذر آتش کرنے کی روایت سے متاثر ہے اور امریکی معاشرے کو آنے والے وقت میں اسی تناظر میں دیکھتا ہے جب ایک دن اور کیا ہی برا ہوگا وہ دن، جب امریکا میں کتاب خلاف قانون قرار دے دی جائے گی اور کتب سوزی پہ مامور سرکاری اہلکار اسے جہاں پائیں گے تیلی دکھا دیں گے۔

Fahrenheit 451 دراصل وہ درجہ حرارت ہے جس پہ کاغذ خود بخود آگ پکڑ لیتا ہے۔ اسے آپ کاغذ کا نقطہ اشتعال کہہ سکتے ہیں۔ حکومتوں کے بھی اپنے اپنے نقطہ ہائے اشتعال ہوتے ہیں کچھ کسی بھی بات پہ اور کچھ بات بات پہ بھڑک اٹھتی ہیں۔بہرحال فارن ہائیٹ نائن الیون سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں جارج بش کو مزاحیہ انداز میں ایک ایسے صدر کے طور پہ دکھایا گیا جس کو جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو وہ چھٹی پہ چلا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ان کے والد بش سینئر کے اسامہ بن لادن کے خاندان کے ساتھ قریبی روابط کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا اور یہ کہ کس طرح نائن الیون کے بعد بن لادن خاندان کے چوبیس افراد کوامریکا سے بحفاظت نکل جانے دیا گیا۔

ایک منظر جو خاص طور پہ ناظرین کی دلچسپی کا محور رہا وہ تھا جب صدر بش کو ایک ایلیمنٹری اسکول میں جونیئر طلبا کے ساتھ وقت گذارتے دکھایا گیا۔انھیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ پہلے حملے کی اطلاع راستے میں دے دی گئی تھی۔وہ بچوں کو کتاب "My Pet Dog" پڑھ کر سنا رہے تھے جب انھیں ٹریڈ سینٹر پہ دوسرے حملے کی اطلاع کان میں دی گئی اور بتایا گیا کہ جناب عالی جس عظیم قوم کے آپ صدر ہونے کا اعزاز و اتفاق رکھتے ہیں وہ حالت جنگ میں ہے۔ بش کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے لیکن وہ سر جھٹک کر"My Pet Dog" کی بآواز بلند پڑھائی جاری رکھتے ہیں۔

کتاب یقینا بہت دلچسپ ہوگی۔یاد رہے کہ یہ ایک دستاویزی فلم ہے جس کے تمام مناظر حقیقی ہیں۔فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عراقی عوام جنگ سے پہلے بہترین زندگی گزار رہے تھے اور جنگ کے بعد ان کے لیے تباہی اور خانماں بربادی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اس میں اس امریکی فوجی Michael Pedersen کی ماں کو بھی دکھایا گیا جس کا بیٹا کربلا میں مارا گیا۔ شدت غم سے نڈھال امریکی ماں نے حکومت سے سوال کیا کہ یہ کیسی جنگ ہے اور آخر ہے ہی کیوں؟اس میں یہ بھی دکھایا گیا کہ امریکا میں صرف نچلا طبقہ ہی فوج میں شمولیت اختیار کرتا ہے جس کو ہم خواہ مخواہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔

اس فلم کو تین ایوارڈ ملے۔ اس کی ریٹینگ انتہائی شاندار رہی اور کسی بھی ناقد نے اسے امریکا یا ریاست کے خلاف سازش قرار نہیں دیا۔اسے صرف بش انتطامیہ کے غلط فیصلوں کے خلاف ایک احتجاج قرار دیا گیا۔ہاں کویت میں اس پہ فوری پابندی عائد کردی گئی ۔انھوں نے کہا کہ ہم دوستوں کے خلاف نہ برا کہتے ہیں نہ برا سنتے ہیں ہمیں اس غیبت میں شامل کرکے گناہ گار نہ کرو۔ روز قیامت اللہ کے علاوہ بش سینئر کو بھی منہ دکھانا ہے۔سعودی عرب نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا البتہ ایران اور کیوبا میں ڈنکے کی چوٹ پہ دیکھی اور دکھائی گئی۔

اس فلم نے دیکھنے والوں پہ کتنا اور کیسا اثر ڈالا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی نفسیات دان Dr Kelton Rhoads نے اس کے غیر لفظی ابلاغ پہ باقاعدہ ریسرچ کی۔ان کی ریسرچ کے مطابق مائیکل مور نے اس فلم میں ناظرین کی نفسیات پہ اثر انداز ہونے کے لیے چند حربے استعمال کیے۔ اس نے پوری فلم میں کہیں ٹوئن ٹاور سے جہازوں کے ٹکرانے کی ہولناک فوٹیج نہیں دکھائی بلکہ اس کے بعد لوگوں پہ گذرنے والے رنج و الم کو فوکس کیا۔ اس طرح اس نے اس منظر سے پیدا ہونے والے غصہ کو، جس کی بنیاد پہ افغانستان پہ حملہ کیا گیا، کی بجائے غم کے احساس کو اجاگر کیا۔پھر اس نے الم ناک مناظر کے فورا بعد بش کو مسکراتے دکھایا حالانکہ ظاہر ہے ان حالات میں وہ مسکرا نہیں سکتے تھے۔

بش کی فیملی کو بن لادن فیملی کے ساتھ ہنستے بولتے دکھایا گیا یعنی گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ بش کو اسکول میں اطمینان سے کہانی سناتے دکھایا گیاجب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بری طرح سٹپٹائے ہوئے تھے اور امریکی صدر کی نقل و حرکت مکمل طور پہ سیکیوریٹی کی محتاج ہوتی ہے لہذا وہ چاہتے بھی تو اٹھ کے جائے وقوعہ کی طرف بھاگ کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔یہ ان کی خود غرضی نہیں مجبوری تھی۔ صدر بش کے قوم سے خطاب سے پہلے انھیں اور ان کی ساری ٹیم بشمول کونڈولیزا رائس ، آئینہ دیکھ کے بال سنوارتے اور میک اپ کرتے دکھایا ہے۔

مقصود امریکی قوم کو یہ دکھانا تھا کہ یہ ہیں تمہارے لیڈر جنھیں کنگھی چوٹی سے ہی فرصت نہیں جب کہ کربلا میں ہلاک ہونے والے فوجی کی غم زدہ ماں جسے پہلے افغانستان پہ حملے کی حامی اور بعد ازاں مخالف دکھایا ہے، دراصل الگور کی ووٹر تھی جس نے کہا تھا کہ بش نے صدارت جیتی نہیں چرائی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نکات ہیں جنھیں نفسیات کی مخصوص اصطلاحات کے تحت زیر بحث لایا گیا ہے۔جیسے طالبان کو ٹیکساس میں گھومتے پھرتے دکھانا جیسے انھیں بش نے دعوت دی ہو۔فلم کے شروع میں الیکشن سے متعلق اعداد وشمار کا استعمال کیونکہ لوگ اعداد وشمار سے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں سے کم ہی ان کی تصدیق کی زحمت گورا کرتے ہیں۔یہ وہ بلا واسطہ غیر لفظی ابلاغیات تھی جسے ہر ذہین ہدایتکار اپنے ناظرکی نفسیات پہ اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

یہی کام ہمارے ذہین ہدایتکار نے بھی کیا۔اس نے کچھ غلط نہیں دکھایا۔ کیا ہمارے سیاستدان کرپٹ نہیں ہیں؟ کیا رات دن میڈیا پہ ان کا تماشہ نہیں لگایا جاتا؟کیا ہمارا عدالتی نظام مظلوم کو انصاف دیتا ہے؟ پھر طبع نازک پہ کیا گراں گذرا؟کیا یہ کہ ایک محافظ ہی جانتا ہے کہ وہ کس کردار کے لوگوں کی حفاظت پہ مامور ہے۔

یہ احساس اس کی نیندیں اڑا دیتا ہے اور ایک دن وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر دل کی آگ ٹھنڈی کر لیتا ہے؟ تب آپ کو خوف ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ چل نکلا تو کہاں تک پہنچے گا؟ یا یہ کہ جب پاکستان میں کسی عام آدمی پہ ظلم ہوتا ہے اور وہ قانون کا سہارا لے کے مزید ذلیل و خوار ہو کر تھک ہار کے بیٹھ جاتا ہے تو ایسے میں وہ جو کہیں دور کسی محاذ پہ وقت کی سپر پاور کو شکست دے رہا ہوتا ہے اور جو کبھی آپ کی آنکھ کا تارا تھا، جس پہ ہالی ووڈ نے Charlie Wilson's War جیسی فلمیں بنائیں،اسی ظلم کا بدلہ طاقت سے لیتا ہے؟تب آپ پابندی لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہدایتکار نے تو مجاہد کو ہیرو بنا دیا۔بیچارے ہدایتکار کو کیا معلوم کہ اوپر بیٹھے ہدایتکاروں کے ہیرو اور ولن بدل چکے ہیں۔

مقبول خبریں