نئی گندم… جی آیاں نوں

ہم چھوٹے بڑے کاشتکاروں کی سال بھر کی روزی کھیتوں میں پڑی ہے


Abdul Qadir Hassan May 01, 2016
[email protected]

ہم چھوٹے بڑے کاشتکاروں کی سال بھر کی روزی کھیتوں میں پڑی ہے، شاید ہی کوئی ایسا کاشتکار ہو جس کے کھیت کی گندم پک گئی ہو اور کٹ کر یا کٹنے کے بعد کھیت میں نہ پڑی ہو۔ دیہی زندگی کے یہ دن سال بھر میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ کٹائی کا موسم ہر کاشتکار کے گھر کے بچوں سمیت دن رات کی مصروفیت کا وقت ہے۔ بچے گندم سے جھولیاں بھر کر دکانوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ ریوڑیاں اور ٹافیاں خریدتے ہیں۔ سال بھر میں یہی دن ہوتے ہیں جو بچوں تک کی عیاشی کے دن ہوتے ہیں۔

گھر کی عورتیں جنھیں خواتین کہنا مشکل ہے کہ وہ مزدور عورتوں کی طرح جھاڑپھونک میں خود گرد و غبار سے بنی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، موبائل ٹیلی فون نے زندگی کے فاصلے سمیٹ دیے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ فلاں کی شادی کی تاریخ طے ہوئی ہے یا نہیں۔ جواب ملا کہ دلہن گرد و غبار کے اس موسم میں اپنی قربانی دینے پر تیار نہیں ہے۔ فصل گھروں میں محفوظ کر لی جائے گی۔

اس سے اٹھنے والا گرد و غبار بیٹھ جائے گا اور دلہن اور اس کی سہیلیوں کا بناؤ سنگھار اس بے رحم موسم سے بچ جائے گا تو پھر کسی بھی دن باجے بجیں گے اور دلہا دلہن نئی ان دیکھی امنگوں بھری زندگی کے لیے تیار ہوں گے۔ نئی فصل ان کے گھروں میں مہک رہی ہو گی۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب سال بھر کی روٹی گھر میں محفوظ ہوتی ہے اور دشمن اپنے بدلے لینے کا سوچتے ہیں۔ میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب مقدمے کا خرچ وکیل کی فیس سمیت اس فصل سے نکل آتا تھا۔ اب تو مقدموں پر زمین بک جاتی ہے۔ اس فصل کی کیا حقیقت۔

میں کبھی کبھار اپنے پرامن گاؤں کا حال پوچھتا ہوں تو اکثر جواب ملتا ہے ہم عقلمند اور حقیقت پسند ہو گئے ہیں اور لڑائی جھگڑوں کو تھانے تک ہی ختم کر لیتے ہیں، اس کو کچہری تک بڑھنے نہیں دیتے۔ چند دن ہوئے کہ میرے ایک ایسے ہی فون پر گھر کی خاتون خانہ نے جواب دیا کہ آپ کی خواہش اور مشورے پر دونوں بچے کالج میں پڑھتے ہیں، ان کی فیس نکل آئے اور ہم خواتین کے زیور بچ جائیں تو اس میں گھر بھر کی عزت ہے۔ آپ بھی خوش ہوں گے، ہم نے مقدمے بہت دیکھ لیے ہیں، زمین کے جگر کے برابر پیارے اور قیمتی ٹکڑے بک گئے ہیں پھر بھی بچوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے اور اب ان نیم خواندہ نوجوانوں کو قابو رکھنے کا مسئلہ ایک خاندانی مشکل بن گئی ہے جس سے نپٹنا ایک مستقل مسئلہ ہے۔

تھوڑی بہت زمینداری جس کا آپ کو علم ہے ان نوجوانوں کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ کم تعلیم کی وجہ سے نہ یہ کسی نوکری کے اہل ہیں اور اسی نیم خواندگی کی وجہ سے یہ اپنے کھیتوں پر بھی توجہ نہیں دیتے کہ یہ کام ان کا نہیں مزارعوں کا ہے۔ میں یہ سب باتیں آپ کو اپنے دیہات کی وہ الجھنوں بھری زندگی سے روشناس کرانے کے لیے لکھ رہا ہوں۔

ہماری حکومت اپنے دیہات کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی۔ دیہات کی زمینوں کی آبادی کے لیے اب پرانے زمانے کے ہل بیل نہیں چلتے مشینری درکار ہے، ٹریکٹر وغیرہ۔ پرانے زمانے کی کٹائی اب بہت مہنگی ہو گئی ہے اور مزدور اول تو ملتے نہیں، مل بھی جائیں تو ان کی مزدوری فصل ہی لے جاتی ہے۔ ضرورت پیدا ہونے پر ٹریکٹروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ڈیزل کی گرانی کی وجہ سے ان کی مزدوری بہت بڑھ گئی ہے۔ بہرکیف کچھ بھی ہو فصل کو کھیت سے تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔

زراعت کے اپنے گوناگوں مسائل ہیں جو آئے دن مشکل ہوئے جا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تجارت پیشہ اور کاروباری لوگوں کی حکومت کو ایک زرعی ملک چلانے کا نہ تو پتہ ہے اور نہ ہی احساس ہے۔ ایسے مواقع پر میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ نواب کالاباغ کے زمانے میں ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں جو زرعی آلات تھے ان کی قیمت اس زمانے میں اسی ہزار کے قریب تھی۔ ان میں وہ آلات تھے جو کاشتکار کا کام آسان کر دیتے تھے اور مفت تھے۔ ان کا خرچ حکومت برداشت کرتی تھی جس کے اہلکار ہمارے گاؤں کا مسلسل دورہ کرتے رہتے تھے۔

زرعی آلات کی دیکھ بھال اور ان کا استعمال سب ان کے سپرد تھا۔ یہ سب عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت ان پڑھ اور محدود وسائل والے کاشتکاروں کی مدد کرتی تھی۔ جہاں تک محنت کا تعلق ہے اس کا ہمارے کاشتکاروں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں صحیح بیج ملتا رہے اور ضرورت کے مطابق کھاد وغیرہ بھی اس پر اللہ تعالیٰ موسم کو مہربان رکھے تو پاکستان کو کھانے کے لیے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

اس سال ہماری گندم کی پیداوار ہماری ضرورت سے زیاد ہے لیکن افسوس کہ حکومت کے نمایندے گھبراہٹ کے عالم میں ہیں اور وہ گندم کی حفاظت کے ساتھ گوداموں میں رکھنے کا بندوبست نہیں کر پا رہے۔ ان کے پاس باردانہ بھی نہیں ہے جس میں گندم کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ جو بھی ہو گا کاشتکار اپنی محنت کو ضایع نہیں ہونے دے گا لیکن افسوس کہ حکومت ان کاشتکاروں کی مناسب مدد نہیں کر رہی۔ گندم کی نعمت کو ضایع نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر پوری قوم کی گزراوقات ہے۔ ہم گندم خور قوم ہیں۔

مقبول خبریں