پروٹوکول زندہ باد
خبریں تو بہت ہیں۔ ایک خبر میں تو دولت کا دریا بہاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جو ایک پاکستانی افسر کی ملکیت تھا۔
خبریں تو بہت ہیں۔ ایک خبر میں تو دولت کا دریا بہاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جو ایک پاکستانی افسر کی ملکیت تھا۔ اس منظر کو دیکھنے والے پاکستانی حیران رہ گئے کہ کیا ان کے وطن عزیز میں اتنی وافر دولت موجود ہے اور وہ بھی صرف ایک پاکستانی سرکاری ملازم کی ملکیت میں جسے یک جا دیکھ کر سارے پاکستانی حیرت زدہ رہ گئے اور خوش بھی ہو گئے کہ ان کے ملک کے بارے میں غربت کا پروپیگنڈا کسی دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے ورنہ پاکستان میں کوئی ایک سرکاری ملازم ملک ملک کی اتنی ساری رنگا رنگ دولت کیسے جمع کر سکتا تھا۔
نوٹوں کے بنڈلوں کے ساتھ نقد (ٹھوس) سونا بھی ہو اور یہ سب ایک آدمی کی ملکیت ہو جسے وہ ملک سے باہر بھیجنے کا پروگرام بنا چکا ہو مگر عین بدقسمتی سے موقع پر پکڑا جائے۔ یہ افسر بلوچستان کی حکومت کا تھا جسے ہم اپنا غریب ترین اور پسماندہ صوبہ کہتے ہیں مگر جس صوبے کے صرف ایک افسر کے پاس اتنی ساری حیران کن دولت ہو وہ غریب اور پسماندہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اس مسئلے پر ماہرین معاشیات اور سیاسیات کو زحمت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے غریب سمجھے جانے والے عوام کی الجھنیں سلجھانے کی کوشش کریں، فی الحال ایک اور خبر کا ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے صدر محترم جناب ممنون صاحب کا ملتان کا دورہ اس شہر کے رہائشیوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا بلکہ بعض اخباروں نے اسے ایک مسئلہ نہیں مصیبت قرار دیا ہے، ملتانی رپورٹر لکھتا ہے کہ جناب صدر کے پروٹوکول کے لیے راستے بند کر دیے گئے جس کی وجہ مریضوں کے لواحقین طویل فاصلہ طے کرکے مریضوں کو پیدل اسپتال لا سکے کیونکہ قریب کی سڑکیں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ ایک نوجوان کو بڑی مخدوش حالت میں پیدل چلا کر اسپتال لایا گیا۔ ان بند راستوں پر دو بڑے اسپتال واقع ہیں جن تک جانے کے راستے بند رہے۔
صدر محترم کی اسپتال میں آمد پر ان کے من پسند کھانے تیار کیے گئے۔ ان کی من پسند بھنڈی توری سمیت 20 سے زائد ڈشیں تیار کی گئیں۔ سخت ترین انتظامات کے باوجود صدر صاحب کے روٹ پر چند بھینسیں کہیں سے آ گئیں۔ ٹریفک وارڈنز نے بڑی مشکل سے ان بھینسوں سے راستہ صاف کرایا لیکن ابھی ایک مشکل اور بھی باقی تھی کہ راستے میں طول طویل پروٹوکول کی ایک گاڑی بند ہو گئی جسے دھکا لگا کر راستے سے ہٹایا گیا۔ تو یہ جناب صدر کے ملتان کے دورے کی مختصر ترین روداد تھی۔
سب سے بڑی بات یہ ہوتی کہ مہمان بخیر وعافیت ملتان کے کسی فرضی خطرے سے بچ کر نکل گئے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر صدر صاحب کی ملتان سے بحفاظت واپسی کو تصویروں میں دکھایا جاتا اور ملتان کے لوگ مطمئن ہو جاتے کہ ان کے مہمان محترم بخیر و عافیت ان کے ہاں سے واپس چلے گئے ہیں اور وہ کاروبار مملکت اطمینان اور صحت کے ساتھ چلا رہے ہیں اللہ انھیں سلامت رکھے کہ ان کی دیکھ بھال پر قومی خزانے سے جو خرچ ہوتا ہے، وہ کسی غریب کی مدد پر خرچ ہو سکے۔ ایک بات جو کسی پاکستانی کی سمجھ میں نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ ان بڑوں کے کسی عہدے کو قابو کر لینے سے جو بڑائی پیدا ہو جاتی ہے، وہ ان کے اس عہدے پر فائز ہونے سے پہلے کہاں تھی اور اب جب وہ اس عہدے سے محروم ہو گئے ہیں تو وہ بڑائی کہاں مر گئی ہے۔
پروٹوکول کے شوقین لوگوں میں سے ایک کی حالت میں نے دیکھی ہے وہ لاہور کے گورنر ہاؤس میں بیٹھے تھے کیونکہ ایک حادثے میں وہ گورنر بن گئے تھے۔ ان کے اے ڈی سی نے انھیں یاد دلایا کہ آپ نے الحمرا میں ایک تقریب کا افتتاح کرنا ہے اور وقت کم ہے چند قدم کے فاصلے پر واقع الحمرا کے لیے انھوں نے گورنر سے مخصوص پروٹوکول کو تیار کرنے کا حکم دیا اور پھر میری طرف دیکھ کر کہا کہ یہ ضروری ہوتا ہے۔ انھیں یہ احساس تھا کہ ان کے اس مہمان کو الحمرا تک کے فاصلے کا علم ہے چنانچہ تھوڑی دیر بعد گاڑیوں کا ایک سلسلہ ان کے دفتر کے سامنے پہنچ گیا اور وہ کمرے سے نکل کر اپنی مخصوص گاڑی میں بیٹھ گئے جو چند منٹ میں دوسری گاڑیوں کے ساتھ انھیں مقررہ مقام تک لے گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ اسی گاڑی اور پروٹوکول کے ساتھ گورنر ہاؤس پہنچ گئے جہاں ہم سرکاری چائے پی رہے تھے۔ گورنر صاحب جیسے گئے تھے اور جس حالت میں گئے تھے اس میں لوٹ آئے۔ کرسی پر بیٹھتے ہی انھوں نے وہ بات شروع کر دی جسے ادھورا چھوڑ کر وہ گئے تھے۔ بات بھی جاری رہی پروٹوکول بھی چلتا رہا گورنر صاحب نے الحمراء میں تقریر بھی کر لی اور اس طرح ان کی صبح شاندار رہی۔ ان کے عملے نے شام کا پروگرام ان کے سامنے رکھ دیا جس میں ایک تقریر بھی شامل تھی جو گورنر صاحب نے کرنی تھی۔
پروٹوکول کی مثالیں ہر روز سامنے آتی ہیں اور شکر ہے کہ وہ تمام حضرات جو پروٹوکول کے انسانی تحفظ میں سفر کرتے ہیں بخیر و عافیت اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں، ان پروٹوکول والوں میں کچھ تو شوقیہ خواتین و حضرات ہوتے ہیں اور کچھ ایسے جن کے لیے پولیس طے کرتی ہے کہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے اس لیے ان کے بچاؤ کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ پولیس افسروں کے خیال میں کئی بڑے لوگ اس لیے بچ گئے کہ ان کے تحفظ کا معقول انتظام تھا۔ بہرکیف پروٹوکول نے انسانوں کے تحفظ کا کام سنبھال لیا ہے اور ہمارے بڑے لوگ محفوظ ہو گئے ہیں۔ خدا پروٹوکول کو سلامت رکھے۔ پروٹوکول زندہ باد!