میں سہولت کار بھی تو ہوں
ملک صاحب کا معاملہ تو ایک بیرونی غیر مسلم طاقت سے تھا
ISLAMABAD:
ہمارے مرحوم دوست ملک غلام جیلانی کو جب انگریزوں نے برطانیہ کا ویزا دینے میں تاخیر کی جو انکار کے مترادف تھی تو ملک صاحب نے برطانوی ویزا افسر کو یاد دلایا کہ وہ تو ہمارے ہاں ڈیڑھ سو برس تک ویزا کے بغیر مقیم رہے مگر اب وہ ایک پرامن شہری کو چند دن کا ویزا بھی نہیں دے رہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ ملک صاحب کو ویزا کس طرح ملا یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن ملک صاحب جب بھی اس واقعے کا ذکر کرتے وہ دکھی ہو جاتے کہ اس دنیا میں کمزور کی کوئی زندگی نہیں ہے۔
ملک صاحب کا معاملہ تو ایک بیرونی غیر مسلم طاقت سے تھا جس کی غلامی ہماری رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی کلچر اور تہذیب کو اس حد تک اپنا لیا گیا ہے کہ وہ ہماری نشست و برخاست اور میل ملاقات کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ ہم دوستوں مہمانوں کا استقبال برطانوی انداز میں کرتے ہیں اور اسی طرح ان کو الوداع بھی غیر ملکی انداز میں کرتے ہیں جب کہ ہمیں اپنے انداز میں میل ملاقات میں زیادہ اپناپا دکھائی دیتا ہے اور یک گونہ ایسی مسرت ملتی ہے جو ہماری کسی ملاقات کی خوشی کو دوبالا کر دیتی ہے۔
میں یہ باتیں اپنے کئی مشاہدوں کو سامنے رکھ کرکہہ رہا ہوں کہ جب ہم پاکستانی ملتے ہیں تو پاکستانی سے زیادہ دو اجنبی ملکوں کے شہری دکھائی دیتے ہیں جو کسی رسمی سی ملاقات کے بعد جدا ہو جائیں گے۔ ان کی یہ ملاقات کاروباری ہو سکتی ہے یا کسی اور مطلب کے لیے ہمیں تو شرعاً صرف کسی کاروباری ملاقات اور تعلق کی اجازت ہی نہیں ہے ہمیں تو ایک برادری قرار دیا گیا ہے جو ایک خاندان کی طرح آپس میں تعلقات رکھتی ہے مثلاً ایک سے زیادہ احادیث میں کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے۔
مریض کی عیادت کی تلقین کی گئی ہے اور پھر عیادت کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں کہ مریض کو پریشان نہ کیا جائے بلکہ جلدازجلد اس کی صحت کی دعا کے بعد اجازت لی جائے اور ممکن ہو تو مریض کی خوشی کے لیے کوئی تحفہ بھی دیا جائے اور مناسب آمدورفت بھی رکھی جائے تاکہ مریض اکیلا محسوس نہ کرے۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات پر بہت زور دیا گیا ہے اور پوری مسلمان قوم کو ایک برادری تصور کیا جائے جس کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ مسلمان آپس میں اس طرح ہیں جیسے جسم کے مختلف حصے جب کسی ایک کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔
میں یہ باتیں اپنے مشاہدے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ہم نے امیر و غریب کے دو طبقے بنا لیے ہیں اور اپنے تعلقات بھی اسی بنیاد پر استوار کرتے ہیں جب کہ ہم مسلمان اگر اپنے تعلقات محبت و اخلاص کی بنیاد پر رکھیں اور کسی کی ظاہری حیثیت کی پروا نہ کریں تو بہت سی مشکلات دور کر سکتے ہیں اور ایک پرسکون اور آسائش کی زندگی بسر کر سکتے ہیں جو کسی بھی انسان کی آخری امید ہوتی ہے۔
میں اپنے گاؤں کی مثال دیتا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں لڑائی جھگڑے عام تھے اور گھر کی آمدنی کا ایک معقول حصہ مقدموں پر خرچ ہو جاتا تھا۔ دیہات کے جھگڑوں کا سلسلہ خاصا طویل ہوتا ہے جو اسپتال کے علاج سے شروع ہوتا ہے اور یہ علاج بھی کسی حد تک پولیس کی نگرانی میں ہوتا ہے کیونکہ مضروب اس مقدمے کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔ صحت مندی کے بعد ضلع کچہری کا نہ ختم ہونے والا چکر شروع ہوتا ہے اور ایک عدالت سے دوسری عدالت تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔
میں لاہور میں رہتا ہوں اس لیے کوئی بیمار ہو تو وہ علاج کے لیے لاہور آ جاتا ہے اور اگر مقدمہ ہو تو وہ بھی اپیلوں کی صورت میں لاہور میں چلتا ہے۔ ہمارے ہاں دیہی زندگی میں علاج معالجے کی کمی ہے اور مریض کے وارثوں کی تسلی لاہور سے پہلے نہیں ہوتی اس لیے کوئی نہ کوئی مریض کسی نہ کسی صورت میں میرے ہاں مقیم رہتا ہے، یہی حالت کسی مقدمے کی ہوتی ہے چنانچہ میرے وقت کا ایک بڑا حصہ ان مہمانوں کی دیکھ بھال میں گزر جاتا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ گاؤں سے کوئی ضرورت مند لاہور آئے اور اس پر توجہ نہ دی جائے۔ مریض ہو تو اسپتالوں کا چکر لگانا پڑتا ہے اور اگر مقدمہ ہو تو وکلا حضرات کو زحمت دینی پڑتی ہے اور واقفیت کی صورت میں کچہری بھی جانا پڑجاتا ہے جو بھی لاہور آتا ہے وہ گویا اپنا سارا بوجھ آپ پر ڈال دینا چاہتا ہے اگر آپ اس بوجھ کو اٹھانے کی کوشش نہ کریں تو پھر کیا کریں۔
آپ نے بالآخر گاؤں میں ہی جانا ہوتا ہے اور لاہور میں قیام کی قیمت صرف مکان کے کرائے کی صورت میں ہی نہیں مہمان نوازی کی صورت میں بھی کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی تو ڈرائیور اطلاع دیتا ہے کہ فلاں مہمان بسوں کے اڈے پر چھوڑنے کا کہہ رہا ہے۔ بہرحال لاہور کی زندگی کے یہ لین دین بھی ہیں اور نوکری الگ ہے جس میں کوئی رعایت نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ میں نوکری اپنے لیے نہیں گاؤں کے مریضوں اور مقدمہ بازوں کے لیے کرتا ہوں لیکن یہ سب زندگی کا حصہ ہے جب تک زندگی ہے تب تک یہ سب کچھ بھی ہے اور ان دنوں چونکہ بجلی کا رویہ درست نہیں اس لیے ہمارے گاؤں سے آنے والوں کو گرمی بہت لگتی ہے۔
ہمارا نیم پہاڑی علاقہ ہے جہاں گرمی شدت کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن لاہور میں اگر اے سی نہ ہو تو پھر گرمی لگتی ہے اور گرمی بہت زیادہ ہے اس لیے بجلی کی ضرورت بھی بہت زیادہ ہے اور پھر مہینہ ختم ہونے پر بل کس انداز میں آئے گا اور کیا کرے گا دیکھا جائے گا۔ میرے کئی ساتھی سرکاری ہو گئے ہیں، تنخواہ بھی بڑھی ہو گی اور رعب داب بھی لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ بجلی وغیرہ کے بل بذمہ سرکار ہوں گے اور یہ اتنی بڑی سہولت ہے کہ کوئی سہولت کار اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔