خواجہ آصف اور ٹریکٹر ٹرالی

محمد عثمان فاروق  ہفتہ 11 جون 2016
پارلیمنٹ میں مسلسل خواجہ صاحب کی منفرد تقاریر سن کر تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کیوں نہ اب ان سے دفاع اور پانی و بجلی کی وزارت لے کر وزیر جگت بازی بنادیا جائے۔

پارلیمنٹ میں مسلسل خواجہ صاحب کی منفرد تقاریر سن کر تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کیوں نہ اب ان سے دفاع اور پانی و بجلی کی وزارت لے کر وزیر جگت بازی بنادیا جائے۔

کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ایک آدمی ڈاکٹر بھی ہو اور ساتھ میں پارٹ ٹائم پلمبر کا بھی کام کرتا ہو؟ یا ایک آدمی سافٹ وئیر انجنئیر بھی ہو اور ساتھ میں سبزی فروش بھی ہو؟ مگر کمال کی بات دیکھئے کہ ہمارے خواجہ آصف بیک وقت پاکستان کے وزیر دفاع بھی ہیں اور وزیر بجلی و پانی بھی ہیں، لیکن اِس سے بھی کمال کی بات یہ ہے کہ دونوں قلمدان کو چھوڑ کر آج کل وہ جگت بازی کررہے ہیں۔

اگر یہ صورت حال کسی ایسے ملک میں ہوتی جہاں دفاع مضبوط اور مستحکم ہو، یا پھر بجلی و پانی کی قلت کا تصور بھی نہ ہو تو قابل قبول تھی کہ دو وزارتیں ایک بندے کو دے دی جائیں، مگر پاکستان میں تو صورت حال یکسر مختلف ہے۔ یہ ملک دفاعی لحاظ سے بھی اور بجلی اور پانی کے لحاظ سے بھی نازک دور سے گزر رہا ہے۔  اب اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد آپ کو یہ باور کروانا ہے کہ خواجہ آصف کے سر پر کتنی بھاری ذمہ داریاں ہیں۔

اب یہاں ایک اور کمال یہ ہے کہ اِس قدر بھاری ذمہ داریوں کے باوجود بھی خواجہ آصف کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک خاتون کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ان کی آواز کو زنانہ بنایا جائے‘‘۔ یہ خاتون شیریں مزاری تھیں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا شریں مزاری کی آواز جو خواجہ آصف کو ’’زنانہ‘‘ نہیں لگتی، سے ملکی دفاع کا کیا تعلق ہے؟ یا وہ آواز زنانہ بن جانے سے ملک کی بجلی و پانی کی صورتحال بہتر ہونے کا کوئی تعلق ہے؟ اب تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خواجہ آصف ’’جگت بازی‘‘ کر رہے تھے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جس ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہو، بجلی پانی کا نام و نشان نہ ہو اور قوم قرضوں میں جکڑی ہو تو اس ملک کا وزیر اگر پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر جگت بازی کرے گا تو ملک آگے کیسے بڑھے گا؟

اِس معاملے کو سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ یہ وزراء بڑے ذمہ دار ہوتے ہیں، کیونکہ عوام انہیں منتخب کرتی ہے تاکہ یہ عوامی مسائل حل کریں، لیکن جب یہی عوام وزیر خواجہ آصف کو اسمبلی شریں مزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے سنیں کہ ’’ان ٹریکٹر ٹرالی کو چپ کروایا جائے‘‘، تو وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ کیوں نہ اب ان سے دفاع اور پانی و بجلی کی وزارت لے کر وزیر جگت بازی بنادیا جائے کہ یہ وہ کام ہے جو خواجہ صاحب بہت خوش اسلوبی سے کرسکیں۔

اگر وہ سنجیدہ فرد ہوں تو خود اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیتے کہ ایک طرف عالمی سامراجی درندے ملکی دفاع کو نوچ کھانے کے لئے مسلسل کبھی ڈرون حملوں کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی بم دھماکوں کے روپ میں حملے کررہے ہیں۔ بجلی و پانی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے اور ایسے حالات میں جن صاحب کی ذمہ داری یہ سب حالات ٹھیک کرنے کی ہے وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر دنیائے جگت بازی کی تاریخ میں نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چونکہ عمران خان مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتے ہیں لہذا خواجہ آصف کا شریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا درست ہے۔ یہ جواز بالکل ایسا ہی ہے کہ تم نے چوری کی ہے لہذا میرا چوری کرنا بھی درست ہے۔

ایسے حالات میں خواجہ آصف صاحب کو انہی کے فقرے یاد کروائے جاسکتے ہیں کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔ خواجہ صاحب کچھ خیال کریں، جس ملک کے آپ وزیر ہیں اس ملک کے حالات دیکھیں، ملک پر چڑھا ہوا قرضہ دیکھیں، ذرا تھر میں بلکتے بچوں کو ذہن میں لائیں، اسپتالوں میں تڑپتے مریضوں کا سوچیں، ذرا سا ڈرون حملوں کا فلیش بیک چلائیں۔ اُس غریب کے بارے میں سوچیں جس کے گھر میں 10 کھانے والے ہیں اور اُس کی کم از کم تنخواہ 14 ہزار مقرر ہے۔

خواجہ صاحب حکمرانوں کے یہی وہ اعمال ہوتے ہیں جن کی وجہ سے تخت اچھالے جاتے ہیں اور تاج اتارے جاتے ہیں۔ اب ذرا سنجیدہ ہوجائیں اور اس ملک پر اور عوام پر رحم کرتے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لئے کچھ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔