جگر کی سوزش دنیا بھر میں اموات کی آٹھویں بڑی وجہ

ہیپاٹائٹس جگر کی کارکردگی کے لیے مسئلہ بننے والا وائرس مریض کو موت کی طرف دھکیلتا چلا جاتا ہے، ماہرین


ہیپاٹائٹس، جگر کی کارکردگی کے لیے مسئلہ بننے والا وائرس مریض کو موت کی طرف دھکیلتا چلا جاتا ہے، ماہرین۔ فوٹو : فائل

SUKKUR: جگر کی سوزش یعنی ہیپاٹائٹس کا مرض دنیا بھر میں اموات کی آٹھویں بڑی وجہ بتایا جاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس ایک ایسا مرض ہے جس میں جگر کی کارکردگی کے لیے مسئلہ بننے والا وائرس مریض کو موت کی طرف دھکیلتا چلا جاتا ہے تاہم اس وائرس کی قسم اے، ڈی اور ای کی تشخیص ہونے پر مؤثر ویکسین اور ادویہ کے ذریعے علاج ممکن ہوتا ہے، جب کہ بی اور سی ہیپاٹائٹس کی وہ اقسام ہیں جنہیں طبی ماہرین 'خاموش قاتل' قرار دیتے ہیں، لیکن ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہو جائے تو علاج ممکن ہو تا ہے۔ دراصل ہیپاٹائٹس بی اور سی لاحق ہونے کی وجہ سے جگر کو نقصان پہنچنے کا علم زیادہ تر اُسی وقت ہی ہوتا ہے جب معاملہ خطرناک حد تک بگڑ جاتا ہے۔ اگر بَر وقت جگر کی خرابی کا علم ہو جائے تو اس کا بھی علاج کیا جاسکتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں صحت سے متعلق آگاہی کا فقدان، بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے اور علاج معالجے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہییپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ بَروقت تشخیص نہ ہونے سے مریض کی زندگی کو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق لوگوں کا غذا اور دوا کے استعمال میں غفلت برتنا اور مختلف بیماریوں کے وائرس سے بچنے کے طریقے اپنانا یا احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنا بھی موذی امراض کے پھیلاؤ کی ایک وجہ ہے۔

28 جولائی کو دنیا ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے مناتی ہے۔ اس موقع پر طبی محققین ہیپاٹائٹس سے متعلق لوگوں کو آگاہی دینے اور اس موذی مرض کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔ اس برس بھی عالمی ادارۂ صحت کے تحت پاکستان سمیت دنیا کے تمام ملکوں میں تقاریب میں لیکچرز کے دوران ہیپاٹائٹس کے حوالے سے معالجین اور عام لوگوں کو آگاہی دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور جگر کی حفاظت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم حفظانِ صحت اصولوں اور خود کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے طبی ماہرین کی ہدایات پر کتنا عمل کرتے ہیں۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ وائرس اے اور ای کا انفیکشن عموماً آلودہ اور گندا پانی پینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ناقص اور غیرمعیاری غذا بھی جگر کی خرابی کا سبب بنتی ہے۔ تشخیص کے بعد چھے ماہ تک علاج مکمل طور پر مذکورہ وائرس سے نجات دلاسکتا ہے اور انفیکشن ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر اس مرض کی قسم بی اور سی کی وجہ خون اور انسانی رطوبتیں ہیں جن کے ذریعے مذکورہ وائرس کسی بھی صحت مند انسان کے جسم میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

انتقالِ خون کا غیرمحفوظ طریقہ اپنانا، استعمال شدہ سرنج یا جراحی کے آلات کو صاف کیے بغیر دوبارہ استعمال کرنا، ایک ہی بلیڈ اور کان چھیدنے کے لیے استعمال شدہ سوئی کا دوبارہ استعمال موذی مرض کے وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں۔ طبی کتب پر نظر ڈالیں تو جگر کے انفیکشن کے اسباب کی کئی وجوہات اور متعدد بیماریوں کے نام سامنے آئیں گے جو ہیپاٹائٹس کے ذیل میں بیان کی گئی ہیں، لیکن بَروقت تشخیص اور علاج ایسے کسی بھی انفیکشن سے نجات دلاسکتا ہے، لیکن بی اور سی کے علاج کے لیے طبی کوششوں کے ساتھ اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔

ہیپاٹائٹس کی روک تھام کے لیے پاکستان میں 2008 میں طبی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، لیکن یہاں ناخواندگی اور صحت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے علاوہ غربت بھی امراض کا پھیلاؤ روکنے میں رکاوٹ ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کی خرابی اور ہیپاٹائٹس کے موذی وائرس سے بچاؤ کے لیے ہمیں حجام سے بالوں کی تراش خراش اور شیو بنوانے کے دوران ہمیشہ نئے بلیڈ کے استعمال پر اصرار کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ نئی سوئی سے کان چھدوائیں۔

منہ اور دانتوں کے مختلف مسائل اور امراض کی صورت میں چیک اپ، خصوصاً دانتوں کی صفائی کرواتے ہوئے اس بات کا یقین کرلیں کہ معالج کے طبی اوزار جراثیم سے پاک ہیں اور انہیں معیاری طریقے سے اسٹریلائز کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کی ختنہ کراتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ اوزار جراثیم اور کسی بھی قسم کی آلائش سے پاک ہوں۔ کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے اسپتال جانے پر اگر انجیکشن کے ذریعے جسم میں دوا داخل کرنے یا ڈرپ لگوانے کی ہدایت کی جائے تو ہمیشہ نئی سرنج کے استعمال پر اصرار کریں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام امراض جیسے نزلہ، کھانسی اور بخار وغیرہ یا کسی وجہ سے لگنے والی معمولی چوٹ اور زخم کی صورت میں درد کی شکایت پر مریضوں کو اورل ڈوز دیں اور غیرضروری طور پر انجکشن لگانے سے گریز کریں۔

مقبول خبریں