شمیم آراءفن کا روشن ستارہ ڈوب گیا

فلمی دنیا کی ہمہ جہت شخصیت اور اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھنے والی نامور اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آراء چل بسیں


Editorial August 06, 2016
فلمی دنیا کی ہمہ جہت شخصیت اور اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھنے والی نامور اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آراء چل بسیں، فوٹو؛ فائل

KARACHI: فلمی دنیا کی ہمہ جہت شخصیت اور اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھنے والی نامور اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آراء چل بسیں، لیکن اپنے پیچھے فن کی خدمت کی ایک لازوال داستان چھوڑ گئیں۔پاکستانی فلم انڈسٹری کو جن لوگوں نے بام عروج پر پہنچایا، ان میں نمایاں نام شمیم آراء کا بھی ہے، فن اداکاری میں انھیں کمال درجہ قدرت حاصل تھی ، تہذیب وشائستگی اور شستہ اردو بولنے میں ملکہ حاصل تھا، وہ تین دہائیوں تک فلم انڈسٹری کی مقبول ترین ہیروئن رہیں، شمیم آراء لاکھوں فلم بینوں کی ہردلعزیزاداکارہ تھیں،ان کی اداکاری کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا، مرد وخواتین میں یکساں مقبول تھیں۔

اکتوبر 2010ء میں لندن میں آپریشن کے بعد سے وہ مسلسل علیل تھیں، مرحومہ نے 78 برس کی عمر پائی ۔ 1938ء میں علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا اصل نام پتلی بائی جب کہ فلمی نام شمیم آرا تھا ۔ ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئیں ، ان کی پہلی فلم 'کنواری بیوہ' تھی، رفتہ رفتہ فن کا سفر جاری رہا بالآخر 1960ء میں شمیم آرا کی فنی زندگی میں ایک اہم موڑ فلم 'سہیلی' سے آیا ۔ اس فلم میں خوبصورت اداکاری کرنے پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا ، اور پھر ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ آئی اور فنی سفر تیزی سے جاری رہا ، 80 سے زیادہ فلموں میں کام کیا ،جن میں پہلی رنگین فلم نائلہ بھی شامل ہے۔فلم 'قیدی' میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' انھی پر فلمائی گئی تھی جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔شمیم آرا کی1989ء میں آنے والی پنجابی فلم 'تیس مار خان' بطورِ اداکارہ آخری فلم ثابت ہوئی۔

ایک اداکارہ جو اپنی ذات میں ایک اکیڈمی کا درجہ اختیار کرچکی تھی، اپنا فن اگلی نسل کو منتقل کرنے کی غرض سے ہدایتکاری کے میدان میں 'جیو اور جینے دو، پلے بوائے ، مس ہانگ کانگ اور مس کولمبو جیسی فلمیں بنا کر اپنے فن کا لوہا منوایا ، شائقین کا رشتہ سینما اور فلم انڈسٹری سے برقرار رکھا، انھوں نے اداکاری میں چھ نگار ایوارڈ جب کہ ہدایت کاری کے لیے بھی تین نگار ایوارڈ حاصل کر کے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔جو لوگ پاکستانی فلم انڈسٹری کا احیاء چاہتے ہیں وہ شمیم آراء کی جدوجہد اور فن کے لیے جدوجہد اور لگن کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری فلم انڈسٹری کے تن مردہ میں جان پڑ جائے ۔ شمیم آراء کا نام پاکستان کی فلمی تاریخ میں ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گا اور سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔

مقبول خبریں