نوجوان نسل ہمارا سب کچھ

فرح ناز  ہفتہ 20 اگست 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

کچھ اس طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے کہ 18 سال کا نوجوان، 22 سال کا نوجوان خودکش بمبار بنا۔ 16-15 سال کے نوجوان کو بھی جیکٹ پہنا کر قاتل بنادیا جاتا ہے۔ آرمی اسکول پشاور میں کتنے ہی نوجوان بچے شہید ہوئے، کتنے ہی نوجوان ان دہشت گردوں کے غلیظ ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے۔ کتنے ہی نوجوان سر راہ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، کبھی کسی سیاسی پارٹی کے کارکن بن کر مرے، کبھی ظالم بن کر مرے، کبھی مار دیے گئے اور کبھی جلا دیے گئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ماؤں نے اس لیے ان کو پیدا کیا اور پھر اپنی جوانی، اپنا روپیہ پیسہ اپنی محنت، کیا اس لیے ان پر خرچ کی کہ یہ نوجوان بھری جوانیوں میں مارے جائیں، اپنے والدین کو روتا سسکتا چھوڑ جائیں؟ کون ان کے والدین کا سہارا بنے گا، کون ان کے والدین کو بڑھاپے میں سہارا دے گا؟ کم سن بچے سیکڑوں کی تعداد میں اغوا ہو رہے ہیں، ان کے اعضا بیچے جا رہے ہیں، ان کو مارا جا رہا ہے۔ کیا والدین اپنی اولاد کا یہی حشر دیکھیں گے؟ کیا بچے، کیا خواتین، کیا مرد اور کیا بوڑھے، کون ہے جو محفوظ ہے اور کون ہے جو چین کی بانسری بجارہا ہے؟

ایسے افرا تفری کے ماحول میں حکومت، آرمی، رینجرز، پولیس کیا سب بے بس ہیں، کوئی نہیں جو اس ظلم و زیادتی کو روکے؟ کیا ہر ادارہ بے حس ہے، کیا ہر فرد احساسات سے عاری ہوچکا ہے، مائیں دہائیاں دیں اور باپ اپنے جوان بچوں کے لاشے اٹھائیں، کیا اس سے بڑا ظلم بھی کوئی ہوگا؟ کیا اس طرح کے دور کو چین و سکون کا دور کہیں گے؟ کیا ہم چیخیں نہیں، کیا ہم روئیں نہیں، کیا اللہ ہم کو معاف کردے گا، کیا بادشاہوں سے وزیروں سے سوال و جواب نہیں ہوں گے؟ کیا یہ اندھیر نگری اسی طرح چلتی رہے گی۔ روزانہ ایک ہی طرح کی خبریں، گم شدہ بچے، ان گھروں کی ویرانیوں کو دیکھو جہاں سب کچھ لٹ جائے، جو جینے کے سہارے ہوں وہی چھن جائیں اور تماش بین مسندوں پر جم جائیں۔

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کبھی ناانصاف نہیں، ایک نہ ایک دن ضرور انصاف کا دن ہوگا، ان سسکتی ماؤں کے کلیجوں کو ضرور ٹھنڈک ملے گی۔ استغفار کی کثرت کی شدید ضرورت ہے۔ باپ اپنی ہی اولاد کو اپنی ہی بدمعاشیوں کے لیے استعمال کریں، اپنی بیویوں کو ’’آسان پیسہ‘‘ بنانے کی مشین بنادیں۔ اپنی ہی بہنوں کے بیوپاری بن جائیں۔ تف ہے ایسے انسانوں پر جن کو شاید انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ گندگی، غلاظت ایسی دماغوں اور دلوں میں بھر گئی ہے کہ کام کرنے والی عورت کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے، گھر اور باہر دونوں جگہ سخت محنت کے باوجود اس کی اولاد کو بھی ان سے چھین لیا جائے تو کون سا معاشرہ اور کون سا مذہب؟

جو تعلیم یافتہ ہیں وہ نوجوان بھی اور جو بغیر تعلیم کے ہیں وہ بھی، ایسے ان کے دماغوں میں آگ بھری جا رہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ MBA سے لے کر حافظ قرآن تک اس طریقے سے ان کو قاتل بنایا جا رہا ہے کہ نہ ان کو اپنا ہوش اور نہ اپنے پیچھے چھوڑے جانے والوں کی خبر۔ سیاسی پارٹیاں شکلیں بدل بدل کر، ایسی ایسی کہانیاں اپنے نوجوان کارکنوں کو سناتی ہیں کہ نفرت کی آگ سے بھر جاتے ہیں یہ لوگ۔ کب تک، آخر کب تک مائیں اپنی اولاد کے جنازے اٹھائیں، کبھی جہاد کی شکل میں، کبھی مجاہد کی شکل میں۔ کیا ماؤں کو سکھ سے جینے کا حق نہیں، کیا ان ماؤں نے ساری زندگی غم و اندھیروں میں ہی گزارنی ہیں، کیوں اپنی حسرتوں کے لیے، اپنی نفرتوں کے لیے ان جوان بچوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، کیوں ان کو زندگی سے آزاد کیا جا رہا ہے؟

60 فیصد آبادی ہماری جوانوں پر مشتمل ہے، کبھی فون چھنتے ہوئے، کبھی ڈاکا زنی کرتے ہوئے، کبھی خودکش حملے کرتے ہوئے، کبھی مذہبی جنونی بن کر، یہ لوگ اسی طرح جانوروں کی طرح مرتے رہیں گے۔ اللہ کے واسطے ذرا سوچیے ان والدین کے بارے میں جن کے اکلوتے بچے ظلم کی آگ میں جل گئے۔ سوچیے ان بچوں کے لیے جو بم دھماکوں میں اپاہج ہوگئے۔ سوچیے ان ماؤں کے لیے جن کے خواب چکنا چور ہوگئے، جس کا نہ کوئی حال رہا اور نہ مستقبل، اللہ کسی کو تو ہماری مدد کے لیے بھیجے۔ کوئی تو یہ ظلم کی آگ بجھائے، بے شرمی، بے حیائی نے ایسے اس معاشرے میں قدم جمائے ہیں کہ بے حسی اپنے عروج پر ہے، زکوٰۃ، خیرات کے لیے لوگ اپنے بچے کو معذور کرلیتے ہیں، دماغی توازن خراب یا اسپیشل بچے، ان کے نام پر زکوٰۃ خیرات لوٹی جاتی ہے اور حرام کاریوں پہ خرچ کی جاتی ہے۔ اللہ ہدایت دے دے تو وہ خود ہی راہ راست پر آجائیں، ورنہ درندگی، گندگی، غلاظت معاشرے کے ساتھ ساتھ گھروں کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

پاکستان ایسا ملک جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اور جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو وہ معاشرہ بہت تیزی سے ترقی کرتا ہے، مگر یہاں الٹا ہی ہو رہا ہے، بجائے اس کے بہترین پالیسیاں بنائی جائیں، ایک صحت مند معاشرہ بنایا جائے، تعلیم کے بہترین اسکول و کالج کھولے جائیں، زیادہ سے زیادہ مثبت رویے کو پروان چڑھایا جائے، اسکول ہی میں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے، بچوں کے اغوا سے دہشت پھیلائی جا رہی ہے، کون معصوم اور کم سن بچوں کو اطمینان سے اسکول بھیجے گا؟ کون ان کو پارکوں میں جانے دے گا، بچوں کا اغوا اور ان کی خرید و فروخت کاروبار بن گیا ہے۔

اسلام آباد کے پچھلے زلزلوں میں لاوارث کتنے ہی بچے غائب کردیے گئے، کیا ریاست کا کام ان کی حفاظت نہیں؟ کیا ریاست صرف ٹیکس وصول کرنے کے لیے ہے یا پھر اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے۔ کئی مرد اور خواتین بچے اغوا کرتے ہوئے پکڑے جا رہے ہیں، مار کٹائیاں بھی کی جا رہی ہیں مگر ریاست بے حسی کا مظاہرہ کیے جا رہی ہے، کیا عوام کی اولاد اور ان کے جوان بچے یوں ہی مرتے رہیں گے، کیا یوں ہی ماؤں کی گودیں اجاڑی جاتی رہیں گی، ان ظالم دہشت گردوں سے کوئی ادارہ محفوظ نہیں، کتنے ہی لوگ جان سے جا رہے ہیں اور کتنے ہی اپاہج کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ بدنیتی اور انسان دشمنی سے بھرے ان چند دماغوں کو یقیناً جڑ سے اکھاڑنا ہوگا، وہ اسکیمیں، وہ پلاننگ کرنی ہوگی جس میں نوجوان نسل زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو صحیح راستے کی طرف ڈال سکیں، تعلیم کی بہترین سہولتیں، اور مناسب روزگار وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

کوئی شک نہیں کہ دشمن چاروں طرف سے افراتفری پھیلائے گا، اصل حکمت عملی ہی ان دشمنوں کو ناکام و نامراد کرسکتی ہے، اجتماعی مفادات ، اجتماعی مثبت سوچ ہی اس جنگل کی طرح پھیلتے ہوئے معاشرے میں سدھار کا ذریعہ بنے گی، نوجوان نسل ہمارا حال ہمارا مستقبل ان کی جانوں کی حفاظت، ان کی تعلیم و تربیت میں ہم سب شامل ہوں گے تو ہی ہم اپنے آپ کو بچا سکیں گے۔ انفرادی مفادات، لالچ، مکاری سے، تکلیفیں دن بہ دن بڑھتی جائیں گی، اللہ کے واسطے ماؤں پر رحم کرو، نہ اجاڑو ان کی گودیں اور ان کا سکون۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔