بھاگتے بھوت کی لنگوٹی

امجد اسلام امجد  بدھ 7 ستمبر 2016
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

ایک روزہ کرکٹ کے دو طرفہ مقابلوں میں انگلینڈ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جو حشر کیا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس کرکٹ کی دیوانی قوم کی اکثریت اس سے اچھی طرح باخبر ہے اور بقول شخصے اس اکثریت میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو محلے کی کرکٹ ٹیم میں بھی صرف اس شرط پر رکھا جاتا تھا کہ اگر گیند نالی میں گر گئی تو اس کو نکالنے کی ذمے داری ان پر ہوگی۔

ان احباب اور میڈیا کے چند ایک اسپورٹس اینکرز کی گفتگو سن کر یقین آنے لگتا ہے کہ کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کے ارکان کو اور کچھ آتا ہو تو ہو مگر کرکٹ کی الف بے سے بھی وہ واقف نہیں ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ کم و بیش ہر میچ کے بعد ان کی اپنی بنائی ہوئی ٹیم بھی بدل جاتی ہے ،ایک دن جو کھلاڑی ایکسٹرا کے رول میں ہوتا ہے اگلے دن وہ ہیرو، اس سے اگلے دن ولن اور چوتھے دن پھر ایکسٹرا بن جاتا ہے۔

اس حساب سے دیکھا جائے تو ریس کے گھوڑے بھی ان سے زیادہ credibility کے حامل ہوتے ہیں۔ چار ٹیسٹوں اور پانچ ایک روزہ مقابلوں میں کل ملا کر پاکستان نے تین اور انگلینڈ نے چھ میچ جیتے ہیں، ٹیسٹ میچز میں مصباح الحق‘ محمد یونس‘ اسد شفیق‘ اظہر علی‘ سمیع اسلم‘ سرفراز احمد‘ محمد عامر‘ یاسر شاہ اور سہیل خان کی کارکردگی کو مجموعی طور پر اگر بہت عمدہ نہیں تو قابل اطمینان ضرور کہا جا سکتا ہے جب کہ ایک روزہ مقابلوں میں صرف سرفراز احمد‘ اظہر علی‘ عمار وسیم‘ حسن علی‘ بابر اعظم،شرجیل خان اور محمد عامر ہی نسبتاً بہتر کہے جا سکتے ہیں باقی سب کی کارکردگی کسی نہ کسی چھوٹے یا بڑے سوالیہ نشان کی زد میں آتی ہے ۔ذوالفقار بابر اور عمران خان کو موقع نہ ملنے اور محمد رضوان کو آخری اننگز میں بہتر کھیلنے پر اگر ایک طرف کر دیا جائے تو محمد حفیظ‘ وہاب ریاض‘ عمر گل‘ محمد عرفان‘ محمد نواز‘ راحت علی‘ شان مسعود اور شعیب ملک میں سے زیادہ مایوس کن پرفارمنس محمد حفیظ‘ وہاب ریاض‘ عمر گل اور محمد عرفان (فٹ نس پرابلم) کی رہی جب کہ راحت علی‘ شان مسعود‘ محمد نواز اور شعیب ملک نے اپ ڈاؤن قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ان توقعات کی نفی کی جو ان سے وابستہ کی گئی تھیں۔

میں ذاتی طور پر محمد حفیظ اور شعیب ملک کی صلاحیتوں کا بہت معترف ہوں دونوں کو میڈیا نے ضرورت سے زیادہ ٹف ٹائم دیا حالانکہ دونوں کی مجموعی کارکردگی پاکستانی معیار کے مطابق اگر بہت شاندار نہیں تو کافی حد تک اطمینان بخش ضرور رہی ہے، اعدادوشمار کے اعتبار سے بھی ان کی اوسط بہتوں سے اچھی ہے لیکن اب شائد وقت آ گیا ہے کہ وہ نئے لڑکوں کے لیے جگہ خالی کر دیں کیونکہ اب نہ تو عمر اور وقت ان کے ساتھ ہیں اور نہ ہی میڈیا کا ایک بڑا حصہ انھیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھانے کا موقع دے گا کم و بیش یہی آپشن اب عمر گل‘ وہاب ریاض‘ محمد عرفان اور ذوالفقار بابر کے لیے ہے کہ یہ چاروں بھی عمر‘ فارم‘ فٹ نس اور بہتر متبادل کھلاڑیوں کی آمد کی وجہ سے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کے قابل نہیں رہے جب کہ شان مسعود‘ محمد نواز‘ راحت علی اور محمد رضوان کو قانونی زبان میں شک کا فائدہ دے کر بری کیا جا سکتا ہے۔

احمد شہزاد اور عمر اکمل سے قطع نظر (جو بعض ڈسپلن سے متعلق مسائل کی وجہ سے فی الوقت سائڈ لائن کر دیے گئے ہیں) جو چند کھلاڑی سلیکٹرز کی توجہ کے مستحق ہیں ان میں عمران خان‘ فواد عالم‘ سعد نسیم‘ خالد لطیف‘ عمر امین‘ صہیب مقصود کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں جب کہ حال ہی میں منتخب ہونے والی اے ٹیم کے کچھ ابھرتے ہوئے کھلاڑی بھی خاص توجہ کے مستحق ہیں۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آخری ایک روزہ میچ میں بھاگتے بھوت کی لنگوٹی اتفاق سے ہاتھ لگ گئی یا اس کا تعلق ٹیم کی غلط سلیکشن‘ ضرورت سے زیادہ محتاط کپتانی‘ ون ڈے کرکٹ کی جدید تر تکنیک سے کم واقفیت یا کھلاڑیوں کے ذہنی رویے اور فکری استقامت سے تھا ۔ پی ٹی وی کے پروگرام ’’گیم آن ہے‘‘ میں ان معاملات پر جو گفتگو کی گئی وہ بہت بہتر اور ٹو دی پوائنٹ تھی کہ اس کے پینل میں غیرملکی تجزیہ کاروں (اینڈریو سائمنڈ اور کرٹلی ایمبروز) سے قطع نظر مقامی ایکسپرٹس کی ٹیم بھی بہت بہتر اور تجربہ کار تھی۔

راشد لطیف اور ثقلین مشتاق کی کھیل کے میدان میں کارکردگی‘ کردار کی مضبوطی‘ تجربہ‘ سمجھ اور پر اثر انداز بیان کے ساتھ ساتھ نسبتاً کم تجربہ کار محمد وسیم نے بھی ان کا خوب ساتھ نبھایا اور سب سے اہم بات اس کے اینکر ڈاکٹر نعمان نیاز کی خوشگوار شخصیت اور ان کی اس کھیل کے مختلف پہلوؤں اور اس کی تاریخ سے غیر معمولی واقفیت تھی جس کی وجہ سے یہ پروگرام میں بہت باقاعدگی سے دیکھتا ہوں۔ ان لوگوں کی متوازن تنقید کا لب لباب یہی تھا کہ کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی نے ٹیم کے انتخاب میں نہ تو Horses for the Courses کے اصول کا خیال رکھا اور نہ ہی عمومی طور پر بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ۔گزشتہ دس پندرہ برسوں میں بالخصوص مختلف لیگز کے آغاز کے بعد سے کھیل کا عمومی ٹیمپو اور انداز جس طرح سے بدلا ہے ہمارے کھلاڑی اس سے پوری طرح سے ہم آہنگ نہیں ہو پائے، ٹیسٹ میچز میں بہتر کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اس فارمیٹ میں نسبتاً بہت کم تبدیلی آئی ہے۔

سو ہمارے لڑکے وہاں کام چلا لیتے ہیں، ٹی ٹوئنٹی میں بھی مختصر ترین دورانیے کی مخصوص تیز رفتار اور مار دھاڑ ایسی ہے کہ سب لوگ ایک ہی رنگ میں رنگے گئے ہیں اور یوں ایک دو اوورز میں پورے میچ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے مگر 50اوورز کا دورانیہ ایسا ہے جس میں اگرچہ صلاحیت اور مہارت کی بے حد ضرورت پڑتی ہے مگر اب اس پر ٹی ٹوئنٹی کا اثر ٹیسٹ کرکٹ کی تکنیک کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کہ چند برس قبل تک 250 کا اسکور بہت مناسب سمجھا جاتا تھا مگر اب تین سو کا ہدف کراس کرنا بھی ایک عام سی بات بن گیا ہے ۔

جس کا براہ راست اثر فیلڈنگ جسمانی فٹ نس وکٹوں کے درمیان دوڑنے اور ڈاٹ بالز کی تعداد کم سے کم رکھنے پر پڑا ہے اور یہ وہ شعبے ہیں جن پر ہمارے کرکٹ بورڈ اور اس سے ملحقہ اداروں نے توجہ سے کام نہیں کیا، جو بھی ٹیم اس فارمیٹ میں ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی دونوں کو اچھی طرح سے کمبائن نہیں کرے گی اس کا حشر وہی ہو گا جو پاکستان اور سری لنکا کا انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اب ہمیں بھی اپنے طور طریقوں کو بدلنا ہوگا چاہے اس کے لیے ایک بالکل نئی ٹیم ہی کیوں نہ بنانی پڑے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔