مہمند ایجنسی میں خودکش دھماکا

دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہیں گے اور چوٹی کی قیادت معمول کے بیانات جاری کرتی رہے گی۔


Editorial September 17, 2016
ا۔ فوٹو:فائل

پاکستان کے شمالی مغرب میں واقع قبائلی علاقہ جات کی ایجنسی مہمند میں جمعے کو مسجد میں خودکش دھماکے میں 34 افراد شہید اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے گاؤں پائی خیل کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران پچھلی صفوں میں موجود خودکش بمبار نے خود کو اڑا لیا۔ دھماکے سے مسجد کی چھت نمازیوں پر آن گری جس کی وجہ سے جانی نقصان زیادہ ہوا۔ اس خودکش دھماکے کی ذمے داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔ دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کا ہدف امن کمیٹیوں کے ارکان تھے۔

قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دیگر شہروں میں مساجد، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر حملے نئی بات نہیں ہے، دہشت گرد یہ کام عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہر حربہ اور طریقہ استعمال کیا ہے۔ انھوں نے کسی عبادت گاہ کے تقدس کا خیال کیا اور نہ ہی معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بخشا۔ انھوں نے وطن کی سالمیت کا خیال تک نہیں کیا اور پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے آلہ کار بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔

ایسے عناصر کے خلاف پاکستان کے ادارے کارروائیاں بھی عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ تاحال متحرک ہیں اور کہیں نہ کہیں کارروائی کر کے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج بھی کارروائیاں کر رہی ہے جب کہ پولیس اور دیگر ایجنسیاں بھی مصروف کار ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اتنے آپریشنز کے باوجود دہشت گرد اور ان کے سرپرست اب تک کیسے محفوظ ہیں؟ یہ سوال حکمرانوں کے سوچنے کا ہے کیونکہ فیصلہ کرنے اور ان پر عملدرآمد کے اختیارات انھی کے پاس ہیں۔

حکمرانی کی سطح پر یہ اصول بن گیا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ حضرات حتیٰ کہ آرمی چیف کے بیانات سامنے آتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، انھیں جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا، اس کے بعد حکومت اور ادارے اپنے معمول کے بزنس میں مصروف ہو جاتے ہیں اور دہشت گردی کی اگلی کارروائی کا انتظار کرتے ہیں۔

دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ شہری اور سیکیورٹی اداروں کے جوان شہید ہو چکے ہیں، ان شہداء کے لواحقین کس حال میں ہیں، کسی کو فکر نہیں۔ ملک کے فہمیدہ حلقے شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ چوٹی کی سطح پر دہشت گردی کے حوالے سے سنجیدگی اور عزم کا تاحال فقدان ہے، چوٹی کی سطح پر فیصلہ سازی میں ہچکچاہٹ، کمزوری اور نظریاتی ابہام واضح نظر آتا ہے۔ عوام اور عالمی دباؤ پر اگر کوئی فیصلہ کر لیا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد میں دوعملی ظاہر ہوتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر علمدرآمد کی سست روی اس کا ثبوت ہے۔

ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے اکابرین اگر مگر چونکہ چنانچہ کے پردے میں نظریاتی ابہام پیدا کر دیتے ہیں۔ ادھر جمہوریت پسند کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ گروہی مفادات سے آگے نکل کر سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب بھی ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی ترجیحات میں دہشت گردوں کا خاتمہ اولین ترجیح نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور ہر جائز وناجائز طریقے سے اقتدار میں آنے پر ہے۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنے کارکنوں کی ذہنی تربیت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی لہٰذا مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ نظریاتی بنیادوں پر استوار نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ ایک دوسرے کے خلاف تنگ نظری اور نفرت کے جذبات پیدا کر کے اپنے گروہی مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں اور دہشت گردی کے بارے میں ان کے ہاں بھی نظریاتی ابہام ہے۔ یہی حال ملک کی بیورو کریسی کا ہے۔

جب بیورو کریسی بھی نظریاتی بحران کا شکار ہو گی تو ادارے خودبخود زوال کا شکار ہو جائیں گے اور وہ کسی بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں چوٹی کی سطح پر موجود نظریاتی ابہام، دوعملی، غیرسنجیدگی اور موقع پرستی نے دہشت گرد تنظیموں کو اپنے پاؤں پھیلانے کا موقع دیا۔ جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ان کے کرتا دھرتاؤں کو سیاست کی اجازت حاصل رہی۔

ملک کے نصاب تعلیم میں بامعنی تبدیلیاں لانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ آئین اور قانون میں مناسب تبدیلیاں بھی نہیں لائی گئیں جس کے نتیجے میں دہشت گردوں، ان کے پرستوں اور ہمدردوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی۔ اگر چوٹی کی سطح پر کمزوری اور غیرسنجیدگی کا چلن جاری رہا تو دہشت گردی کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہیں گے اور چوٹی کی قیادت معمول کے بیانات جاری کرتی رہے گی۔

 

مقبول خبریں