خواجہ اظہار کی گرفتاری اور رہائی
انصاف اور گڈ گورننس سے متعلق سب سے اہم سوال بلا امتیاز قانونی کارروائی اور شفاف تحقیقات سے جڑا ہوا ہے
جمعہ کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری اور 5 گھنٹے بعد رہائی کی خبر شہر کے سیاسی و سماجی حلقوں میں موضوع بحث رہی۔ سوشل میڈیا نے اور بھی گرما گرمی پیدا کی، تاہم بنیادی مسئلہ قانون اور اس کے پراسیس اور ممکنہ مضمرات کا ہے۔
انصاف اور گڈ گورننس سے متعلق سب سے اہم سوال بلا امتیاز قانونی کارروائی اور شفاف تحقیقات سے جڑا ہوا ہے، لہٰذا تمام جمہوری اقوام میں قانون کی حکمرانی ایک آزاد عدلیہ، شفاف انتظامیہ اور فعال پارلیمنٹ و مقامی یا صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے مضبوط ہوتی ہے اور وہاں درج ایف آئی آر پر گرفتاریوں کو ''اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا'' کے سیاق و سباق سے دور رکھا جاتا ہے۔
اس لیے شہر قائد میں گزشتہ روز جو ہوا وہ مس ہینڈلنگ کا کیس ہے اور سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے، کوشش یہ ہونی چاہیے تھی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، ارکان اسمبلی، صوبائی حکومت قانون کو اپنا راستہ بنانے دیتے تا کہ ہڑبونگ نہ مچتی۔ قانون و انصاف کے امور پر امتیازی سلوک کا تاثر نہیں ابھرنا چاہیے۔
کراچی کی صورتحال کے تناظر میں بڑے راز پنہاں ہیں، آپریشن کی روشنی میں گڈ گورننس، قانون کی حکمرانی، اطلاعات کی معروضیت اور صوبائی حکومت کے مختلف اداروں کے مابین رابطہ کے شدید فقدان سمیت میڈیا کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں وزیراعلیٰ سندھ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت ایس ایچ او سہراب گوٹھ کو معطل جب کہ ڈی آئی جی ایسٹ کامران فضل کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کا حکم دے دیا۔
وزیراعظم نوازشریف نے خواجہ اظہار کی گرفتاری کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر پولیس کی زیادتی ہو تو سخت کارروائی کی جائے، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے وکیل آنند کمار نے کہا ہے کہ خواجہ اظہار الحسن کو پاکستان مخالف تقریر کے کیس میں گرفتار کیا گیا، تاہم ان کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں۔
ادھر ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی 497 ٹو بی کے تحت خواجہ اظہار کو رہا کیا گیا، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سر براہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ جو کچھ جمعے کو ہوا وہ کراچی کے عوام اور ان کے مینڈیٹ کی تذلیل ہے جب کہ تعجب کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ سے چھاپے کے بارے میں معلوم کیا تو آئی جی سندھ، ایس ایس پی سینٹرل سمیت تمام متعلقہ ادارے اس کارروائی سے لاعلم تھے۔ اب جب کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف باقاعدہ انکوائری کے لیے ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان کو انکوائری افسر مقرر کر دیا ہے، چنانچہ اس تحقیقاتی رپورٹ کا سب کو انتظار کرنا چاہیے۔ یہی صائب مشورہ ہے۔