جس محلے میں ہے ہمارا گھر

آج ہمارا جی چاہ رہا ہے کہ ہم بھی مرزا شوق بن جائیں اور اس کی مثنوی ’’زہر عشق‘ کے مقابل مثنوی ’’قہر عشق‘‘ لکھ ڈالیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq September 21, 2016
[email protected]

آج ہمارا جی چاہ رہا ہے کہ ہم بھی مرزا شوق بن جائیں اور اس کی مثنوی ''زہر عشق' کے مقابل مثنوی ''قہر عشق'' لکھ ڈالیں۔ شوق لکھنوی نے لکھا ہے کہ

جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک سوداگر
لڑکی اس کی تھی ایک ماہ جبیں
شادی جس کی نہیں ہوئی تھی کہیں

اور اس کے مقابل ہمارا ارادہ یہ لکھنے کا ہے کہ

جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک لاؤڈ اسپیکر
گرج تھی اس کی نہایت سنگین
بریک اس میں لگی نہیں تھی کہیں

ضرورت شعری کے تحت ہم نے ''ایک لاؤڈ اسپیکر'' لکھا ہے لیکن اصل میں ایک نہیں دو لاؤڈ اسپیکر ہیں۔ ایک ہمارے دائیں کان میں اور دوسرا بائیں کان کی عین سیدھ میں، ویسے کہنے کو تو یہ بندہ عاصی ہمسایہ خدا ہے لیکن...بقول علامہ اقبال میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم ایک اور بنا دو

دونوں لاؤڈ اسپیکروں آپس میں چچازاد ہیں اور کئی نسلوں سے موروثی طور پر ان پر قابض چلے آ رہے ہیں، اب یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ دونوں لاؤڈ اسپیکر آپس میں دشمنی کی وجہ سے الگ الگ والیوم کے ہو گئے یا الگ الگ والیوم کی وجہ سے ان میں دشمنی ہو گئی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر ایک نے عید کا اعلان کر دیا تو دوسرے کی آنکھوں میں چاند خود ہی کیوں نہ آ گھسے، وہ آنکھیں بند کر کے عید نہ ہونے کا اعلان کرے گا اور اگر ایک نے کہا کہ چاند نہیں ہوا تو دوسرا کہیں سے بھی چاند لا کر دکھائے گا۔ دونوں لاؤڈ اسپیکروں کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ دونوں مشینی آلات ہیں اور دونوں ہی بڑے بڑے جنریٹروں کے بھی مالک ہیں۔

اور ان دونوں کے عین بیچوں بیچ یہ بندہ خدا یکہ و تنہا بندھا ہوا ہے۔ آپ کے پڑوس میں اگر کوئی دو بیویوں کا شوہر ہو تو جا کر دیکھئے، سوتنوں کی لڑائی میں جو حال اس کا ہوتا ہے وہ ہمارا بھی ہے۔ ایسے شوہر جب دونوں میں بیچ بچاؤ کے لیے درمیان میں آ جاتے ہیں تو تقریباً ہر ''برتن'' جس طرف سے بھی اڑ کر آتا ہے اسی کے سر پر لینڈ کرتا ہے۔ بڑی والی کی طرف بڑھتا ہے تو پیچھے کوئی برتن آتا ہے۔ پلٹ کر چھوٹی کی طرف جاتا ہے تو بڑی کی جانب سے ڈرون آتا ہے چنانچہ بے چارا بیچ میں ہی بغیر لڑے کھیت ہو جاتا ہے، اپنے زخموں سے زیادہ درد اسے برتنوں کے ٹوٹنے پر ہوتا ہے کیوں کہ ٹوٹ پھوٹ کا نقصان تو اسے ہی بھرنا ہوتا ہے۔

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی مجھے یہ خو
جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو

آپ سوچ رہے ہوں گے اور بالکل بجا سوچ رہے ہوں گے کہ تم یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں جا سکتے،یہ ہم نے بھی سوچا تھا بلکہ پہلے ہی دن جب دونوں لاؤڈ اسپیکروں کا پہلے ہمارے گھر کے اوپر، پھر سر کے اوپر اور پھر کانوں کے بیچوں بیچ بمقام دماغ پہ کھڑکنے لگی تو سوچا تھا لیکن ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان لاؤڈ اسپیکروں کی طرح ہمارا بھی یہ جدی پشتی اور موروثی گھر ہے۔

روک رکھا ہے کسی سوچ نے ہم کو گھر سے
ورنہ گھر کے در و دیوار میں رکھا کیا ہے

دوسرے یہ کہ جب ہم نے دوسرے گھر کے لیے مطالعاتی دورے کا آغاز کیا تو کہیں پر بھی کوئی ایسا مقام نہیں ملا جو لاؤڈ اسپیکروں کی زد میں نہ ہو اور یہ تو ہم نے آپ کو پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ آپ بدن کے کسی بھی حصے کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن کان چونکہ چہرے کے جغرافیے سے باہر ہیں، یوں کہئے کہ شاملات دیہہ ہیں یا شہر کا وہ کوڑا گھر جہاں ہر کوئی کچھ بھی پھینک سکتا ہے۔ ایک اپائے البتہ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ دونوں کانوں کی درمیانی رکاوٹ ہٹا دیتے ہیں، بات گیند کی طرح آتی ہے اور نکل جاتی ہے۔

یہ کوشش ہم نے بھی کی تھی لیکن اس سے الٹا اور زیادہ نقصان ہو گیا، بڑے خطرناک قسم کے ایکسیڈنٹ ہونے لگے۔ ایک لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو ہم ایک کان کے اندر سے گزار کر دوسرے کان سے نکال بھی نہیں سکتے کیوں کہ ٹھیک اسی وقت اتنی ہی تیز اور زور کے ساتھ دوسرے لاؤڈ اسپیکر کی آواز بھی گھس رہی ہوتی ہے اور جب عین بیچوں بیچ دونوں کا تصادم ہوتا ہے تو یہ تصادم بقول ڈاکٹر چوم چوم نومسکی تہذیبوں کے تصادم سے بھی زیادہ خطرناک تصادم ہوتا ہے، دماغ کے اندر وہ بگ بینگ ہوتا ہے کہ چاروں طرف تارے ہی تارے بنولے ہی بنولے سورج ہی سورج اور کہکشائیں ہی کہکشائیں چمکتی نظر آتی ہیں

سوچا ہے کئی بار کہ اس کوچے سے نکلیں
لاچاری دل ہے کہ نکلنے نہیں دیتی

ان روزانہ حادثات فاجعات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے دماغ کے اندر عقائد و نظریات کا ایک ایسا گورکھ دھندا بن گیا ہے کہ نہ تو اس کا کوئی سرا ہے نہ گانٹھ اور نہ ہی چور۔

وہ تو اچھا ہے کہ ان دنوں ہمارے ہاں کوئی شادی غمی نہیں ہو رہی ہے ورنہ ان دونوں یعنی شادی اور غمی میں اتنے بدعات، لوازمات و ضروریات ہیں کہ شادی اور غمی دھری کی دھری رہ جائے اور انسان صرف اس کی شرعی ''صنایع و بدایع'' میں الجھ کر رہ جائے، مثلاً میت کے لواحقین کا سقاط دنیا ضروری ہے۔ میت کا سقاط کفر ہے، سقاط بانٹنا کفر ہے، سقاط نہ بانٹا اس سے بھی بڑا کفر ہے۔ میت کے گھر میں چولہا جلانا کفر ہے میت کے گھر میں دیگیں کھڑکانا کار ثواب ہے، مزارات پر حاضری دینا کفر ہے مزارات پر جانا ضروری ہے

اتنا نہ زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہوں سکون نہ رونے سے کل پڑے

ایک زمانے میں ہماری خوش قسمتی سے صبح نماز کے بعد کا وقت خالی رہتا تھا چنانچہ ہم نے اپنے سارے کام اس وقت کی طرف کدھیڑ دیے جس طرح لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کے سارے کام مخصوص وقتوں پر مرتکز کر دیے ہیں، فرق صرف یہ کہ وہ لوگ جب بجلی آتی ہے تو وہ کام کرنے لگتے ہیں اور ہم جب ''بجلی'' (آوازوں کی) چلی جاتی ہے تو کام پر لگ جاتے ہیں، پھر لاوڈ اسپیکر شروع ہو جاتے ہیں۔ اب آپ خود انصاف کریں کہ ایسے میں اگر ہم اس کم بخت لاؤڈ اسپیکر کے موجد کو بددعائیں نہ دیں تو کیا کریں، کیڑے تو اس میں ضرور پڑ گئے ہوں گے۔ خدا کرے اب ایسے بچھو بھی پڑ جائیں جو ہڈی کو ڈنک ماریں تو ہڈی سے بھی چیخیں نکلنا شروع ہو جائیں، ان بچھوؤں کے بارے میں ہمیں انھی لاؤڈ اسپیکروں سے پتہ چلا ہے۔
string(2) "US" bool(true)

مقبول خبریں