فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بجائے انسداد دہشت گردی قانون میں ترمیم پر غور

غلام نبی یوسفزئی  پير 12 دسمبر 2016
گواہوں، ججوں کے تحفظ کیلیے ترمیم کی جائیگی، فوجی عدالتوں میں توسیع زیر غور نہیں، زاہد حامد۔ فوٹو: فائل

گواہوں، ججوں کے تحفظ کیلیے ترمیم کی جائیگی، فوجی عدالتوں میں توسیع زیر غور نہیں، زاہد حامد۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو مزید فعال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کے ٹرائل کے طریقہ کار پر اندرون اور بیرون ملک تنقید اور خصوصاً یورپی یونین کی طرف سے سزائے موت کے فیصلوں پر تحفظات کی وجہ سے حکومت فوجی عدالتوں میں مزید کسی توسیع کے بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کوفعال کرنے کے لیے مختلف پہلوئوں پر غور کر رہی ہے۔ اس ضمن میں گواہوں اور ججوں کو تحفظ دینے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترامیم کا جائزہ لیاجارہاہے۔

ذرائع نے بتایاکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں اورحزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کے قیام اور21ویں آئینی ترمیم پر حکومت کومشروط تعاون فراہم کیاتھااوراس یقین دہانی کے ساتھ ترمیم کے بل کی منظوری دی تھی کہ 2 سال کی معین مدت ختم ہونے کے بعد قانون میں مزیدتوسیع نہیں کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایاکہ یورپی یونین کوپاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پربالعموم اور فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے فیصلوں پر بالخصوص تحفظات ہیں۔

ذرائع نے بتایاکہ فوجی عدالتوں سے اب تک 120 افراد کو سزائیں ہوچکی ہیں جن میں سے 116 کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید ہوئی۔ جمعہ کو 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں میں توسیع کے بارے میں سوال پر وفاقی وزیر زاہد حامد کاکہنا تھاکہ قانون میں توسیع پر فی الوقت غورنہیں ہورہا۔ ان کاکہنا تھاکہ اس بارے فیصلہ وزارت داخلہ کرے گی لیکن تاحال اس بارے میں وزارت قانون سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ نے کہاکہ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ مجبوری میں کیاگیا تھا، حکومت نے قانون میں توسیع کے بارے میں ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا لیکن اگر بات ہوتی ہے توفیصلہ پارٹی کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔