حکمراں حقائق کا ادراک کریں

سیاسی جماعتوں نے اچھی طرز حکومت اور شفاف نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا تو کوئی طالع آزما اس نظام کو غروب کردے گا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan December 28, 2012
[email protected]

عوام غیر آئینی انتخابات قبول نہیں کریں گے۔ انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت کو 10 جنوری تک کی مہلت دیتا ہوں۔ شفاف انتخابات کے لیے 90 دن کی شرط ضروری نہیں، نگراں حکومت کے لیے عدلیہ، فوج اور تمام جماعتوں کو شریک کیا جائے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے خودساختہ جلاوطنی کے خاتمے کے بعد لاہور میں تہلکہ مچادینے والے جلسے میں یہ مطالبات کیے۔ تحریک انصاف نے ڈاکٹر طاہر القادری کے بیان کو اپنے منشور کا حصہ قرار دیا۔ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہر القادری کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

گزشتہ اتوار کی سہ پہر ٹیلی وژن چینلز پر دکھائے گئے اس خطاب نے سیاسی منظرنامے پر ایک نئی بحث کی شروعات کردی۔ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں آزادی کے بعد 30 سال کے قریب عرصہ فوج کی حکومتوں میں گزرا۔ اگرچہ چار فوجی جنرلوں نے مختلف انداز میں حکومتیں کیں، ان میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار 10،10 برسوں پر مشتمل تھے مگر اس پورے عرصے میں ان فوجی جنرلوں نے ریاست کے تمام اداروں پر فوج کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ ایوب خان کے صدارتی طرز حکومت کی بنا پر اکثریت نے پاکستان کے ڈھانچے سے علیحدگی کو اپنی بقا جانا۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین میں کی گئی 8 ویں ترمیم کی شق 58(2)B کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ پر بالادستی حاصل کرلی۔

پھر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ذریعے فوج کے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ جنرل پرویز مشرف نے جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج کی بالادستی کو یقینی بنایا مگر عوامی طاقت کی بناء پر جب یہ حکمراں اقتدار سے رخصت ہوئے تو اپنے نظام کو بھی ساتھ لے گئے۔ 2008 میں جو سیاسی ڈھانچہ بنا اس ڈھانچے کو مستحکم کرنے میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ غیر ملکی جرائد فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو دنیا کے مضبوط ترین شخصیتوں میں شمار کرتے ہیں مگر اس معروضی صورتحال کے باوجود آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو تمام ریاستی اداروں پر بالادستی حاصل ہوئی۔

شفاف انتخابات کے لیے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کا طریقہ کار طے ہوا، یوں ان ترامیم سے یہ امید پیدا ہوئی کہ شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے اور انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار منتقل ہوجائے گا۔ جب پارلیمنٹ میں موجود اور پارلیمنٹ سے باہر موجود سیاسی جماعتوں کا جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کا بحیثیت چیف الیکشن کمشنر تقرر پر اتفاق ہوا تو دنیا بھر میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ سخت سیاسی تضادات اور اسکینڈلز کے باوجود ایک غیر جانبدار شخصیت پر اتفاق سے شفاف انتخابات کی منزل حاصل ہوجائے گی۔

جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آرہی ہیں نگراں وزیراعظم اور نگراں وزرائے اعلی کے ناموں پر ذرایع ابلاغ میں بحث ہورہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کچھ ناموں پر اتفاق رائے کے قریب ہیں اور ان جماعتوں کی اتحادی جماعتیں بھی اس مشاورت میں شریک ہیں۔ ایک ایسے موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری کا غیر آئینی انتخابات کو قبول نہ کرنے کا نعرہ لگانے کی مختلف نوعیت کی تشریح ہورہی ہے۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کچھ قوتیں آیندہ انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں ہیں، ان قوتوں کا یہ مفروضہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں اچھی طرز حکومت کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر کرپشن منتخب نمایندوں کا وطیرہ ہے، اس بنا پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہونی چاہیے جس کی عدلیہ اور فوج حمایت کریں۔ یوں ٹیکنوکریٹس کی حکومت دو تین سال اقتدار میں رہ کر اداروں کو شفاف اور موثر بنائے تاکہ ناکام ریاست کا تصور ختم ہوسکے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش کی مثال دی جاتی ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا تصور زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی رہنما اپنے وژن کے مطابق ترقی کا تصور پیش کرتے ہیں۔

ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس منصوبہ بندی کے ذریعے سیاسی قیادت کے وژن کو عملی شکل دیتے ہیں۔ سیاسی قیادت اپنی پالیسیوں کے احتساب کے لیے انتخابات کا طریقہ کار اختیار کرتی ہے۔ یوں عوام کے احتساب کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ اگر صرف ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس کی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کی پالیسیاں بالادست طبقات تک محدود رہتی ہیں۔ خاص طور پر پسماندہ علاقے نظرانداز ہوتے ہیں۔ پھر ٹیکنوکریٹس وفاق کی تمام اکائیوں کی نمایندگی نہیں کرتے، یوں چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے جو علیحدگی کے نظریات کو تقویت دیتا ہے۔

جب دسمبر 1971 میں بھارت نے بنگلہ دیش میں پاکستان کو شکست دی اور مغربی پا کستان کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا تو بھارتی جنرلوں کا خیال تھا کہ 6 گھنٹے میں تھرپارکر سے داخل ہو کر رحیم یار خان تک کے علاقے پر قبضہ کرلیں گے اور جنرل مانک شاہ کی اس بات میں صداقت تھی مگر بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی اس حقیقت کو محسوس کررہی تھیں کہ مغربی پاکستان پر قبضے کے منفی نتائج نکلیں گے۔ بنگلہ دیش میں عوام بھارتی فوج کے ساتھ تھے مگر مغربی پاکستان کے عوام بھارتی فو ج کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ پھر ایران، چین اور امریکا کے مفادات متاثر ہوں گے، اسی وجہ سے بھارت کی سیاسی قیادت نے مغربی پاکستان میں سیز فائر کا حکم دیا۔ فوجی بیوروکریٹس کو اپنی قیاد ت کے فیصلے کو تسلیم کرنا پڑا۔

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت طرز حکومت کے حوالے سے بدترین حکومت ہے اور کرپشن کو اس حکومت کے عہدیدار ترقی کے خلاف نہیں سمجھتے مگر مسئلے کا حل عوام کی رائے کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اگر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت عبوری حکومت شفاف انتخابات کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی اور منتخب نمایندوں کو اقتدار منتقل ہوگیا تو پھر نئی قیادت کو اچھی اور شفاف طرز حکومت کو اپنی ترجیحات میں اولیت دینی ہوگی۔ آزاد عدلیہ اور فعال میڈیا منتخب اداروں کے احتساب کے لیے موجود ہوگا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے 90 دن کی شرط ضروری نہیں ہے، ان کے اس جملے سے جنرل ضیاء الحق کے بیانات کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو اپنی پہلی تقریر میں پہلے 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا، پھر انھوں نے کہا کہ اس مدت میں انتخابات کرانا ضروری نہیں۔ اس کے بعد 8 سال تک انتخابات ممکن نہیں ہوئے۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا، 2012 میں دہشت گردی کی صورتحال اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے لیے فوج اور عدلیہ سے رائے لی جائے،جب کہ آئین کے تحت قائم ہونے والی عبوری حکومت کے احکامات کی اطاعت فوج سمیت تمام اداروں کے لیے ضروری ہے۔ عدلیہ کو آئین کے تحت عبوری حکومت کے احتساب کا حق ہے۔ اگرچہ فوج کا ایک نہ نظر آنے والا کردار موجود ہے مگر تمام رہنماؤں کو جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اس کردار کو ختم کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ جلسہ کیا۔ یہ سوال اہم ہے کہ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے والی قوتوں کے کیا مقاصد ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری نے برطانیہ اور کینیڈا میں قیام کے دوران انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف موثر موقف اختیار کیا ہے۔ انھیں محسوس کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ایک منتخب نظام میں ہی ممکن ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے 14 جنوری کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی اپیل کرکے طاقت اور تشدد کو ہوا دی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1958 میں مسلم لیگ کے رہنما خان عبدالقیوم خان نے ایسا ہی جلوس نکالا تھا جس کے بعد ایوب خان نے مارشل لاء لگادیا۔ کیا ڈاکٹر قادری اسلام آباد میں ہجوم کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکراکر اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کو پورا کریں گے؟ اس کے ساتھ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ اگر انھوں نے اچھی طرز حکومت اور شفاف نظام کی اہمیت کو سنجیدگی سے محسوس نہیں کیا تو کوئی طالع آزما اس نظام کو غروب کردے گا۔

مقبول خبریں