کرۂ ارض کی خبیث ترین کارپوریشن

انوار فطرت  اتوار 12 فروری 2017
کمپنی کی مصنوعات کی وجہ سے مسخ شدہ (مسخے) بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

کمپنی کی مصنوعات کی وجہ سے مسخ شدہ (مسخے) بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

جہاں تک عطا کا تعلق ہے، تو انسان کو بہت حسین سرزمین رہنے کو دی گئی، خود انسان کو بہت خوب صورت بنایا گیا، بے عیب ہیئت اسے ملی لیکن۔۔۔۔ایک ہم ہیں کہ ہم نے اپنے باطن میں چھپی شیطنت کو زیادہ بالیدہ کیا اور ’’لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ‘‘۔

زمین کو اپنے پوچ مفادات کے لیے آلودہ کیا، سیارے کی زندگی تاراج کرنے کے لیے ہولناک تباہی پھیلانے والے جوہری بم بنائے، کھالیں ادھیڑ دینے والے نیپام ہتھیار بنائے حتیٰ کہ زیست کی بقاء کے لیے ضروری وسائل تک کو زہریلا کر دیا۔ صحت بخش ادویات کی آڑ میں سمِِ قاتل تیار کیے، مسیحائی کو کار و بار بنا لیا۔

یقین کیجے! کہ بڑے دوا ساز ادارے دیدہ و دانستہ ایسی دوائیں تیار کرتے ہیں، جو ایک مرض کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، تو اس سے زیادہ ہولناک دوسرے امراض آ لیتے ہیں۔ باتیں یہاں تک کھل گئی ہیں کہ کسی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے پہلے یہ مردار خور گِدھوں کی طرح باجماعت ہو کر طاقت ور ملک کو تجاویز دیتے ہیں کہ مفتوحین پر کون سی گولیاں چلائی جائیں، کیسے بم برسائے جائیں۔

اس سے متاثرہ ملک میں ان اداروں کی وہ من پسند وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں، جن کے علاج کی نام نہاد دوائیں ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر پڑی ہوتی ہیں، (اکثر تو اپنی کارآمدگی کی مدت بھی گزار چکی ہوتی ہیں)۔ یہ ازکار رفتہ دوائیں ان مظلوم اقوام کو بیچ کر یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں (بل کہ اب ٹرانس نیشنل کارپوریشنیں) ایک طرف تو اربوں، کھربوں ڈالر اینٹھ کر انہیں نانِ شبینہ تک کو ترسا ڈالتی ہیں، اوپر سے نو بہ نو بیماریوں کے لامتناہی سلسلے کی بنیاد بھی ڈال جاتی ہیں۔

خوراک کی پیداوار بڑھانے کے نام پر، ایسی ایسی کھادیں اور بیج تیار کیے جا رہے ہیں، جو نہ صرف زہرناک فصلیں پیدا کرتے ہیں بل کہ ان کے تیار کردہ بیج زمین کو بانجھ کر ڈالتے ہیں۔ ایک بار جس قطعے مین یہ بیج استعمال ہو جاتا ہے، وہاں پھر کسی اور بیج کی دال نہیں گلتی۔ ان میں سب سے بدنام کارپوریشن کا تعلق امریکا سے ہے۔ آپ گوگل پر جا کر دنیا کی خبیث ترین کارپوریشن (The World’s Most Evil Corporation) لکھیے اور ایک پل میں اس کا کچا چٹھا آپ کے سامنے آ جائے گا۔ ذرا اس کارپوریشن کے کارنامے ملاحظہ ہوں۔

اس کارپوریشن کی مختصر تاریخ یوں ہے کہ مالٹا نائیٹس (Knights of Malta) کے ایک رکن جان فرانسس کوئینی (John Francis Queeny) نے سینٹ لوئیس (میسوری[امریکا]) میں 30 نومبر 1901 کو ایک کیمیکل کمپنی قائم کی۔ کمپنی کا نام اس نے اپنی بیوی اولگا مینڈیز مونسانتو کے خاندانی نام پر رکھا۔ جان فرانسس 17 اگست 1859 کو شکاگو میں پیدا ہوا تھا۔

یہ شخص کیمیکل کی صنعت میں کام کا کچھ تجربہ رکھتا تھا لیکن کچھ زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ اس نے کسی منحوس لمحے میں ذاتی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پاس اس وقت کل 5 ہزار ڈالر تھے۔ کمپنی نے پہلی بار مصنوعی مٹھاس سکرین (Saccharin) بنائی۔ یہ کیمیکل مقامی طور پر اس سے پہلے نہیں بنتا تھا۔ یہ سکرین (سکارین) اس نے آج کے ایک معروف ترین (سیاہ) سافٹ ڈرنکس بنانے والی بیوریج کو فروخت کیا۔ جلد ہی اس کے انسانی صحت پر منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر حکومت نے اس کی پیداوار پر پابندی عائد کر دی لیکن بدقسمتی سے عدالت میں اپنا کیس ہار گئی اور یوں چالاک جان فرانسس کی سکرین اور اس سے بننے والی سافٹ ڈرنک مقبولیت کے زینے طے کرنے لگی۔ 1920 تک یہ کمپنی خوب پھلی پھولی۔ بعد ازاں اس نے دوسرے کیمیکلز اور ڈرگز بھی تیار کرنا شروع کر دیں۔

اسپرین بھی اس نے تیار کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہ اسپرین بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی، جو ایک تیزابی کیمیائی مادے سے بنائی گئی تھی۔ اسی دوران اس کمپنی نے پولی کلوری نیٹڈ بائی فینائلز (PCBS) متعارف کرایا۔ اسے حیران کن صنعتی کیمیکل مانا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا تیل ہے، جو انتہائی غیر اثرپذیر ہے، اتنا کہ اسے آگ بھی نہیں پکڑتی۔ صنعتوں میں اسے بے شمار مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیمیکل کو آج دنیا کا تباہ کن کیمیائی مادہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چکنائیاں (Lubricants)، ہائیڈرالک فلوئڈز، کٹنگ آئلز، واٹر پروف کوٹنگز اور لیکوئڈ سینٹس بنانے میں استعمال ہوتاہے۔ جانداروں میں کینسر کی افزائش کرتا ہے، انسان کی تولیدی صلاحیت کو ضعیف کرتا اور بیماریوں سے دفاع کے نظام کو تہس نہس کر دیتا ہے۔

کمپنی اسے شرقی سینٹ لوئیس میں بناتاہے، جہاں اس کی وجہ سے اس ریاست میں ہلاکتوں اور ادھورے حمَلوں (Pregnancies) کی شرح بلند ترین ہے۔ یہ کیمیکل یہاں آدھی صدی تک بنایا جاتا رہا، بعد میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن اس کے اثرات آج تک دنیا بھر کے انسانوں اور جانوروں کے خون اور بافتوں (Tissues) میں پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب عدالت میں دستاویزات پیش کی گئیں تو دوران جرح معلوم ہوا کہ کمپنی اس کیمیکل کے مہلک اثرات سے آگاہ تھی لیکن اس نے اس کے نقصانات پر مجرمانہ پردہ ڈالے رکھا اور (PCBs) کو بڑی مقدار میں دنیا بھر میں فروخت کرتا رہا۔

1930 کی دہائی میں اس کمپنی نے زراعت کا رخ کیا اور مکئی کا سب سے پہلا پیوندی بیج متعارف کرایا، جو مصفّی (Detergent)ادویات، صابنوں، صنعتی صفائیوں، مصنوعی ربر کی تیاری اور پلاسٹک بنانے میں کام آتا ہے اور انتہائی زہریلا (Toxic) ہے۔

1940 کی دہائی میں کینی نے یورانیئم پر تحقیقات کرنا شروع کی، جو مین ہٹن پراجیکٹ میں کام آئی اور پہلا ایٹم بم وجود میں لایا گیا، جو بعد میں لٹل بوائے اور فیٹ مین کے نام سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرا کر لاکھوں جاپانی، کوریائی اور خود امریکی اہلکاروں کو بھسم کردیا،جو بچے، وہ نسل در نسل متاثر چلے آ رہے ہیں لیکن کمپنی کی آدم کشی کا عمل رکا نہیں بلکہ زیادہ تیزی سے جاری رہا۔

کمپنی نے ایسی کیڑے مار دوائیں ایجاد کیں، جو مہلک زہروں پر مشتمل ہیں۔ ان ادویہ کے چھڑکاؤ سے خوراک اور پانی مسموم ہوئے جاتے ہیں۔ بہت دیر سے جا کر معلوم ہوا کہ کمپنی ان کرم کش دواؤں میں ڈائی آکسین (Dioxin) نامی کیمیائی مادہ بڑی فیاضی سے استعمال کرتی ہے۔ Dioxin کے بارے میں قرار دیا گیا ہے کہ یہ کیمیکل کرۂ ارض کو جہنم زار بنا سکتا ہے۔

دولت کی ہوس میں کمپنی نے بچوں تک کو معاف نہیں کیا۔ 1956 کی دہائی میں ادارے نے ایک زہریلا تیر یہ چھوڑا کہ والٹ ڈزنی کمپنی کے Tomarrowland کے لیے مختلف کیمیکلز سے بنائے گئے پلاسٹک سے بنی اشیاء تیار کیں۔ اس ٹومارو لینڈ کا ’’ہاؤس آف فیوچر‘‘ والا حصہ تو مکمل طور پر اس کمپنی کے کیمیائی پلاسٹک سے تیار کیاگیا تھا۔

بعد میں کھلا کہ یہ پلاسٹک جراثیم کی پرورش اور افزائش کرتا ہے۔ والٹ ڈزنی کے اس حصے سے 1957 سے 1967 یعنی کامل ایک دہائی تک 20 کروڑ بچے اور بڑے محظوظ یا کہیے، تباہ ہوتے رہے۔ بعد میں حقیقت افشاء ہوئی تو اس ’’ہاؤس‘‘ کو بند کرکے ضائع کرنا پڑا تاہم اس میں استعمال کیا گیا مواد ایسا ہٹیلا تھا کہ بھاری سے بھاری ہتھوڑا یا کچرا بنانے والے آہنی بال بھی اس پر پوری قوت سے پڑنے کے باوجود ٹپا کھا کر پلٹ جاتے تھے، ان پر کچرا بنانے والے برقی آرے اور دیگر آلات بھی کاری ضرب لگانے سے قاصر رہے۔ بالآخر ان تنصیبات کو ایک خاص قسم کی تار سے سکیڑ کر تھوڑا تھوڑا کرکے ایک عرصے میں وہاں سے ہٹایا جا سکا۔

1960 ہی کی دہائی میں ایک اور جرائم پیشہ کیمیا ساز ادارے نے ڈی او ڈبلیو کے اشتراک سے امریکی فوج کو ویت نام میں استعمال کے لیے ڈائیاکسِن (Dioxin) کی آمیزش سے جانداروں کی کھال جھاڑ دینے والا ایک مادہ تیار کرکے دیا، جس کے اثر سے 5 لاکھ ویت نامی ہلاک ہوئے، 30 لاکھ افراد کے لہو میں زہر شامل ہو گیا، اڑھائی لاکھ بچے مسخے پیدا ہوئے، خود ہزارہا امریکی فوجی اس زہر سے ہلاک اور متاثر ہوئے۔ اس شیطانی مادے کے اثرات وہان کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں۔

اس جرم پر کمپنی کو ایک بار پھر کٹہرے میں لایا گیا۔ اس بار بھی معلوم ہوا کہ کمپنی، ڈائیاکسن کے ساتھ Agent Orange کی آمیزش کے ہلاکت آفریں اثرات سے پہلے ہی سے آگاہ تھی لیکن صدی کے ان بڑے دروغ گوؤں نے عدالت میں ثابت کر دیا کہ ان کا کیمیکل ان کی تحقیق کے مطابق محفوظ تھا۔ کمپنی پھر جیت گئی البتہ سچ زیادہ دیر چھپا نہ رہ سکا اور وا ہوا کہ کمپنی نے عدالت میں دروغ گوئی کی تھی اور یہ کہ اسے علم تھا کہ ان کا Dioxin جان داروں کو ہلاک کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔ اس سلسلے میں 2002 میں ایک ٹرائل کے نتیجے میں اس کی ہلاکت آفرینی کو تسلیم کیا گیا۔

دوسری جنگ میں کمپنی نے اسپرین تیار کرنے والے دو معروف و مقبول دواساز کمپنیوں کے اشتراک سے، زائیکلون ۔ بی (Zyklon-B) نامی کیمیکل تیار کیا۔ اس کے علاوہ اعصاب تباہ کرنے والا مرکب اسپرٹیم (Aspetame) بھی متعارف کرایا، جو فوجیوں کو فراہم کیے جانے والے کھانوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ اسپرٹیم اس وقت سامنے لایا گیا، جب سکرین کے بارے میں یہ طے پا گیا کہ یہ ایک زہریلا جوہر ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے کمپنی نے سکرین کو متعدد ہیرا پھیریوں سے گزار کر ایک اور مہلک زہر اسپرٹیم (Aspertame) متعارف کرایا۔

1970 کی دہائی میں اس کمپنی نے مذکورہ دواساز کمپنیوں کے اشتراک سے اپنے طور پر نام نہاد آزمائشوں کے بعد دعویٰ کیا کہ اسپرٹیم ایک محفوظ شیرینی ہے لیکن۔۔۔۔اس کے برعکس امریکا کے ادارے ایف ڈی اے (Food and Drug Administration) نے اپنے طور پر اسپرٹیم کو تجربات سے گزارا تو معلوم ہوا کہ اس دوا کے زیراثر رکھے گئے چوہے، انتہائی اذیت میں ہلاک ہوئےاور مرنے سے پہلے ان کے مغز میں سوراخ پڑ گئے تھے۔ یہ معلوم ہونے پرکمپنی کے خلاف ایک گرینڈ جیوری قائم کی گئی اور کمپنی کو مطعون کیا گیا کہ اس نے جانتے بوجھتے اسپرٹیم کو محفوظ قرار دیا۔

یہ مطعون کمپنی اس وقت ڈونلڈ رمز فیلڈ کی دم بردار (Tail-Career) تھی، جو صدر فورڈ اور صدر بش کی صدارتوں کے دوران میں سیکرٹری دفاع تھا۔ اس نے فرش کو کچھ ایسا چکنا کیا کہ ’ایف ڈی اے‘ رقص کے آغاز ہی میں پھسل کر کولہا تڑوا بیٹھا۔ یو ایس اٹارنی جنرل کے دفتر کا تفتیشی افسر سیموئل سکز تھا۔ ملزم کمپنی نے رات کو اس کے ساتھ کچھ ایسی ساز باز کی کہ اگلے دن کی صبح اس نے استعفیٰ داغ دیا اور شام ہونے سے پہلے مذکورہ کمپنی کی لا فرم میں اپنے سابق مشاہرے سے کہیں زیادہ پر جا براجا۔ گرینڈ جیوری منھ دیکھتی رہ گئی اور اپنے قدموں پر دھڑام سے آ گری۔ تیزدھارخباثت نے انصاف کے پرخچے اڑا دیے۔

1980 کی دہائی میں اسپرٹیم (مصنوعی شکر) کے خلاف کی گئی ایک اور غیر متنازع تحقیق نے اس کے زہریلے اثرات کی پھر تصدیق کی۔ اس پر ایف ڈی اے کا کمشنر ڈاکٹر جیئرز گویان اس کیمیکل کے خلاف عدالت میں جانے ہی والا تھا کہ ڈونلڈ رمز فیلڈ دوڑا دوڑا وہ صدر ریگن کے پاس پہنچ کر دم ہلانے لگا، جنہیں صدارت سنبھالے سچ مچ جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے تھے۔ صدر ریگن نے بڑی شفقت سے مسٹر جیئرز کو شر کاری سے روکنے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہ مانا تو اسے عہدے سے فارغ کرکے ڈاکٹر آرتھر ہیزہل کو اس کی جگہ سربراہ لگا دیا لیکن یہ صاحب، جیئرز سے دوہاتھ آگے نکلے، مسند پر ٹک کر بیٹھنے سے پہلے ہی اسپرٹیم کو خشک اشیاء میں قابل استعمال قرار دے دیا۔

اس جعلی شکر کی منظوری ویسے بھی ایک المیہ ہے لیکن صدر ریگن کے حوالے سے اس کی الم ناکی یوں بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود جیلی بین اور کینڈی کھانے کے شوقین تھے اور اس کا نتیجہ بھی انہوں نے بڑی اذیت کا بھگتا، یوں کہ ان کی یہ پسندیدہ اشیاء اسی اسپرٹیم سے شیریں کی جاتی تھیں، سو بوڑھے ریگن الزائمر کا ایسا شکار ہوئے کہ مرنے سے بہت پہلے اپنے آپ ہی سے اجنبی ہوچکے تھے۔

کمپنی سر پیر کا زور لگا رہی تھی کہہ کسی طور اپنی یہ جعلی شکر، سافٹ ڈرنکس کو بیچ سکے۔ اسپرٹیم کے بارے میں یہ حقائق طشت ازبام ہو چکے تھے کہ یہ کیمیکل 85 ڈگری فارن ہائیٹ پر مزید مہلک ہو جاتا ہے کیوں کہ اس درجۂ حرارت پر اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے اور یہ DKP، میتھائل الکحل اور فارمل ڈیہائیڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کیمیکل، اسپرٹیم سے یہ کیمیکل کئی گنا مہلک ہیں، اس سے صارفین کی ہلاکتیں ہوں گی اور عدالت بھاری جرمانے ادا کرائے گی۔ کمپنی نے اس موقع پر جس طرح ان کمپنیوں کو پچھاڑا، وہ انسان کی شقاوتِ خاطر کی انتہائی بدترین مثال ہے۔

سکرین ساز ادارے نے کہا ’احمقو! جانتے بھی ہو کہ اسپرٹیم، کوکین اور NSDA سے زیادہ عادت انگیز ہے، جو ایک بار اس سے بنے ڈرنک پر لگ گیا، وہ اسے چھوڑ نہیں پاتا، اس طرح اس سے حاصل شدہ منافعوں کی مقدار اس قدر آسمان بوس ہوگی کہ سال میں چند درجن ہلاکتوں کے عوض چند کروڑ ڈالر کا تاوان ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے۔ اس استدلال پر ایسوسی ایشن کے منھ سے رال ٹپکنے لگی اور اس نے گھٹنے ٹیک دیے۔ یوں 1983 میں آج کے ایک مقبول ترین سیاہ سوفٹ ڈرنک نے پہل کی۔ اس نے اسپرٹیم کا استعمال اپنی Diet ڈرنک میں شروع کر دیا اور اس کی فروخت حیرت انگیز بلندیوں کو چھونے لگی، کروڑوں افراد حسبِ توقع اس کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد تو تمام سوفٹ ڈرنکس بنانے والوں کی جھجک ختم ہو گئی اور وہ ہلکاؤُ کتوں کی طرح انسان پر ٹوٹ پڑے۔

1985 میں ہماری ’’ممدوح کمپنی‘‘ نے اسپرٹیم ساز کمپنی خرید لی اور اسپرٹیم پر مزید تجربات کرکے ایک نئی اسپرٹیم تیار کرلی اوراس کے لیے Nutra sweet-co قائم کر لیا۔ اُدھر آزاد محقیقین اور سائنس دانوں نے اسپرٹیم کے تباہ کن اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا نہ چھوڑا۔ کمپنی نے جارحانہ انداز اختیار کیا اور تجوریوں کے منھ کھول دیے۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کا دہانہ موتیوں سے پاٹ دیا اور اسی کے ذریعے اپنی جعلی تحقیق کی ترویج کرائی کہ مخالفین بکواس کرتے ہیں، اس کے استعمال سے کوئی سرطان ورطان نہیں ہوتا۔

اسپرٹیم کے دیگر نقصانات کے علاوہ اس کے استعمال سے پیدا ہونے والے عوارض میں جنون، تشدد، نظر زائل ہونا، جوڑوں کا درد، درماندگی، وزن بڑھنا، چھاتی میں درد، بے سدھ ہونا، بے خوابی، سن ہونا، ڈی پریشن، جکڑن، ناطاقتی، مرگی، اشتعال، متلی، بہرہ پن، یادداشت کا خاتمہ، جلد کی تکالیف، چکر، سر درد، اضطراب، دھڑکن کی بے قاعدگی، غشی، اعضا کا مڑنا، اسہال، انتشار، منھ کی جلن وغیرہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذیابیطس، فالج، پارکنسن، ٹیومر، اسقاطِ حمل، تولیدی بنجرتا، رسولیوں کی نمود، شیر خوارگی میں اموات، الزائمر جیسے ڈراؤنے اور اذیت ناک امراض بھی لاحق ہوتے ہیں اور ان معلومات کا منبع کوئی اور نہیں، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ہے۔

کھانے کی اشیاء سے متعلق اس ایڈمنسٹریشن کو موصول ہونے والی شکایات میں سے 80 فی صد صرف ان اشیاء سے متعلق ہوتی ہیں، جن میں اسپرٹیم شامل ہوتی ہے۔ اس شیریں زہر کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایے کہ یہ بلا کھانے پینے کی 5000 اشیاء میں شامل کی جاتی ہے، جن میں ڈائیٹ اور غیر ڈائیٹ دونوں شامل ہیں۔ سوڈا ہو، کھلاڑیوں کے مشروبات ہوں، چیونگم ہو، ٹافیاں، کینڈیز، کیک، وٹامنز، ادویات، دودھ کے مشروبات، انسٹنٹ کافی، چائے، دہی، حتیٰ کہ شیر خواروں کی غذائیں اور بے شمار دوسرے آئٹم؛ کوئی بھی چیز اٹھا کر بنظرِ غائر اس کے لیبل پر درج نسخہ پڑھ کر دیکھ لیں۔

اموات اور بیماریوں کا غلغلہ بلند ہوا، تو ایف ڈی اے کے عہدیدار آرتھرہل (Arther Hull) نے استعفیٰ دے دیا اور یہاں بھی وہی دلچسپ صورتِ حال بنی کہ استعفیٰ کی روشنائی سوکھنے سے پہلے ہی اسے اسپرٹیم بنانے والی کمپنی کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں بھاری مشاہرے پر سائینٹیفک کنسلٹنٹ رکھ لیا گیا۔

مضمون نگار ای ہنزائی (E.Hanzai) نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ سب ادارے، ایف ڈی اے اور حکومتی ریگولیٹری ایجنسیاں، آپس میں ملی بھگت کیے ہوئے ہیں ’’لگتا ہے کہ ایف ڈی اے کی کمشنری کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ فارماسیوٹیکل کارٹل کو وقت دیتا ہو‘‘۔ وہ غالباً کہنا چاہتا ہے کہ کمشنری کے امیدوار کو اس کارٹل کا سفارشی ہونا چاہیے۔

1990 کی دہائی میں ان کمپنیوں نے ریاستی اور وفاقی قوانین کو شکست دینے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے۔ ریاست اور وفاقی قانون ساز ادارے، ڈائی آکسین (Dioxins)، کرم کش ادویات اور سرطان افزاء زہروں کے باعث پینے کے پانی کے نظام کو آلودہ کرنے پر قدغن عاید کرتے ہیں۔ بے شمار بار اپنے پلانٹ پر کام کرنے والے افراد یا قرب جوار کے رہائشیوں اور بچوں میں پیدائشی نقائص کا شکار کرنے پر ’دی موسٹ ایول کارپوریشن‘ کو بے شمار بار قانون کی زد پر لایا گیا تاہم ادارہ اپنی بے پناہ دولت اور بے طرح اثر و رسوخ کے بوتے پر ہر بار صاف معصوم نکلا۔ اربوں ڈالر کا منافع بٹورنے والا یہ ادارہ ایف ڈی اے، کانگریس اور وائیٹ ہاؤس کی مہربانی سے صرف ایک سو ملین ڈالر کی ادائیگیاں کرکے سارے گناہوں سے پاک صاف ہوگیا۔ اس کا یہ قصور بھی معاف ہو گیا کہ اس نے تابکار لوہے (Radioactive)کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے 829 حاملہ خواتین کی صحتیں برباد کر دی تھیں۔

1994 میں کمپنی نے ایک نئی دوا متعارف کرائی۔ یہ حیوانی ہارمون کی افزائش (Bovine Growth Hormone یا rBGH) کی مصنوعی صورت ہے۔ اسے ای کولی بیکٹریا (E coli Bacteria) میں جینیاتی تبدیلی کرکے بنایا گیا تھا۔ اس کے مہلک اثرات کے خلاف سائنسدان برادری نے بہت واویلا کیا لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور ایف ڈی اے نے اس کی منظوری دے دی۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ پیپ دار مواد والا دودھ نہ صرف یہ کہ انٹی بایوٹک اثرات اور ہارمون سے مالامال اور محفوظ ہے بلکہ انسانی صحت کے لیے نعمتِ غیرمترقبہ ہے۔

طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ جب ڈیری کمپنیوں نے یہ ہارمون استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی مصنوعات کے لیبلوں پر rBGH Free لکھنا شروع کیا تو کمپنی نے ان پر مقدمہ قائم کردیا کہ لیبل پر جو کمپنیاں rBGH Free لکھتی ہیں، وہ ہارمون بنانے والی کمپنیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مضمون نگار اس سے یہ مفہوم برآمد کرتا ہے کہ کمپنی نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہاں یہ ہارمون نقصان دہ ہے لیکن اس امر کا اعلان کرنا جائز نہیں کہ آپ کی مصنوعات اس سے پاک ہیں۔

خواراک پر حملہ:
1995 میں اس کمپنی نے جی ایم او فصلیں (GMO Crops) متعارف کرائیں۔ یہ جینیاتی پیوندی (GMO) فصلیں اپنے اندر کِرم اتلافی اور نباتات کش صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کے اردگرد اضافی گھاس پھوس یا جڑی بوٹیاں از خود تلف ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کے پیوندی سرسوں، سویابین، مکئی اور کپاس کے بیجوں نے اپنی اس خاصیت کی وجہ سے مارکیٹ میں خاصی مقبولیت حاصل کرلی۔ انہیں محفوظ، صحت مند اور نامیاتی اور غیر پیوندی (Organic- Non GMO) اجناس پر برتر ثابت کرنے کی زوردار تشہیری مہمیں چلائی گئیں، جوکامیاب رہیں، سو اب منڈی میں دستیاب 80 فی صد کینولا یہ ہی GMO کینولا ہے۔

ان فصلوں میں محض یہ ہی خوبیاں نہیں بلکہ ان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ فصلیں اپنا زرگل یا زیرپوشی (Pollination) بھی خود کرتی ہیں، یعنی خود کو کہیں اور منتقل کرنے کے لیے انہیں پرندوں، مکھیوں یا بھڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا ایک اور تاریک تر پہلو یہ ہے کہ اس بیج کے استعمال سے روئے ارض پر شہد کی مکھی باقی نہیں رہے گی۔ شہد کی مکھی اور متعدد ایسے کیڑے مکوڑوں کا وجود اس لیے بہت ضروری ہے کہ یہ مختلف خوراکی پودوں کی افزائش کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں لیکن جب شہد کی مکھی جیسے جاندار، ان جی ایم او پودوں سے رس چوسنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پودوں کے زہریلے اثرات سے مر جاتے ہیں۔

اس طرح اس نوع کی مخلوق دنیا سے معدوم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ کمپنی نے شہد کی مکھیوں کے تحفظ پر ریسرچ کرنے اور واویلا کرنے والی بیولوجکس (Beeologics) فرم کو زیرِ دام لانے کے لیے اسے منھ مانگے داموں خرید ہی لیا؛ سوچیے بانس ہی نہیں تو بانسری کیا بجے۔ Beeologics شہد کی مکھیوں پر کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی فرم تھی۔ کمپنی گوشت پر بھی اجارہ حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔

اس کمپنی کے عزائم میں شامل ہے کہ دنیا کا زرعی نظام پر تسلط حاصل کیا جائے اور یہ کام بغیر دھونس دھاندلی کے بھی وہ بہ خوبی کر سکتی ہے کیوں کہ ایک چھوٹی سی GMO کھیتی اپنے آس پاس کے وسیع سادہ کھیتوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ کمپنی باقاعدہ منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کے خرچے سے دنیا بھر میں اپنی رقیب کمپنیاں خریدتی ہے تاکہ نامیاتی خوراک کا صفحۂ ہستی سے نام و نشان ہی مٹ جائے۔

جینیاتی پیوند کاری کے حوالے سے بتایا گیاکہ یہ بیج مریض سؤروں، مرجھلی گائیوں، گندے مکڑوں، بندروں، مچھلیوں، ویکسین اور مختلف قسم کے وائرسوں سے جین حاصل کرکے بنائے جاتے ہیں تاہم کمپنی اس کی بڑی زوردار تردید کرتی ہے۔

یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ کمپنی اپنی یہ GMO خوراک اپنے ملازمین کو کھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ کمپنی کے تمام کیفوں اور میسوں میں کمپنی کی اپنی ہی اشیاء استعمال کرنا ممنوع ہے، اس لیے نہیں کہ انتظامیہ کو اپنے کارکنوں سے ہمدردی یا محبت ہے بلکہ اس لیے کہ کارکنوں کی ہلاکت جلد پکڑ میں آسکتی ہے اور ان پر زہروں کے اثرات ثابت ہونے کے بعد مجرم بھی بآسانی پکڑا جا سکتا ہے اور تاوان کی رقم بھی خاصی بھاری ہوتی ہے۔

عالمی اجارہ قائم کرنے کے لیے یہ کمپنی دوسری کمپنیاں خریدتی بھی ہے لیکن اگر کوئی کمپنی بوجوہ نہیں خریدی جا سکتی تو اس کے ساتھ کچھ اس طرح کسے خفیہ معاہدے کر لیتی ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ کپمپنی کا ایمان ہے کہ ’’خوراک پر قابو پالینا اور انسان کو غلام بنالینا ایک ہی بات ہے۔‘‘

کمپنی کی مصنوعات کی وجہ سے مسخ شدہ (مسخے) بچے پیدا ہو رہے ہیں، اس حوالے سے کمپنی پر کروڑوں ڈالر کے مقدمات بنتے ہیں لیکن یہ مقدمات بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ خود کمپنی بھی معمولی کاشت کاروں کے خلاف مقدمات بناتی ہے۔ اس کے بیجوں کے ڈسے ہوئے کاشت کار چھوٹی عدالتوں میں جاتے ہیں، تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جب معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں جاتا ہے، تو ہار جاتے ہیںکیوں کہ کمپنی کی قوت خرید بے پناہ ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ کاشت کار کو دیوالیہ کر دیتا ہے۔ بھارت میں کوئی ایک لاکھ سے زیادہ کسان اس کمپنی کے ہاتھوں دیوالیہ ہو چکے ہیں۔

ان میں خود کشیوں کا رجحان اسی وجہ سے بڑھا ہے۔ ان خود کشیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کو انشورنس کی رقم مل جائے گی تو کم از کم وہ تو کچھ بہتر زندگی گزار سکیں لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اگلی نسل کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا ہے، جو ان کے ساتھ ہو چکا۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ اس دعوے کو یوں دیکھا جائے کہ جو مر جاتا ہے، اسے بھوک نہیں لگتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔