لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات

حسان خالد  منگل 14 فروری 2017
ہر سال، چھ مہینے بعد دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ہر سال، چھ مہینے بعد دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور میں گزشتہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جس نے شہر کے باسیوں کو خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا ہے۔

لاہور میں گزشتہ برس 27 مارچ کو سانحہ گلشن اقبال پارک میں بچوں اور خواتین سمیت 75 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں ایک قابل ذکر تعداد مسیحی برادری کے افراد کی تھی، جنہوں نے ایسٹر کے دن تفریح کیلئے پارک کا رخ کیا تھا۔ اس المناک حادثے سے ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی اتنا سفاک بھی ہو سکتا ہے کہ معصوم بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کی زندگیاں خودکش دھماکے سے ختم کر دے۔

اہل لاہور ابھی اس المناک حادثے کے صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ اب مال لاہور پر حالیہ حملے نے شہر میں دوبارہ دہشت کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن و امان سے متعلق معاملات ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں اور دہشت گرد موقع دیکھ کر وار کر جاتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے دعوؤں کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مستقل طور پر چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

لاہور میں 2004ء کے بعد 40 کے قریب دہشت گردی کے چھوٹے بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ 11مارچ 2008ء کو دو خودکش بم دھماکوں میں FIA بلڈنگ اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 28 افراد شہید ہوئے۔2009ء اس حوالے سے بدترین سال تھا جب شہر میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات ہوئے۔ 3 مارچ 2009ء کی صبح لبرٹی چوک پر دہشت گردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس کو نشانہ بنایا، جس سے چھ سری لنکن کھلاڑی اور ایک پاکستانی امپائر زخمی ہوئے جبکہ چھ پولیس مین اور دو عام شہری شہید ہو گئے۔

30 مارچ 2009ء کو دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کے مناواں ٹریننگ سنٹر پر حملہ کیا۔ 27 مئی 2009ء کو لاہور پولیس ہیڈکوارٹرز پر حملے میں 35 افراد جاں بحق اور 250 زخمی ہوئے۔ 15 اکتوبر 2009ء کی صج دہشت گردوں نے بیک وقت لاہور کی تین اہم عمارتوں پر حملہ کیا۔ FIA ہیڈکوارٹر، مناواں پولیس ٹریننگ سکول اور ایلیٹ پولیس اکیڈمی پر ہونے والے ان حملوں میں 38 افراد شہید اور 20 زخمی ہوئے۔ 7 دسمبر 2009ء کو لاہور کی مون مارکیٹ میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 54 افراد جاں بحق اور 150زخمی ہوئے۔

مئی 2010ء میں دہشت گردوں نے جمعہ کے دن احمدیہ کمیونٹی کی دو عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 94 افراد جاں بحق اور 120 سے زائد زخمی ہوئے۔ یکم جولائی 2010ء کو داتا دربار میں دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس میں کم از کم 50 لوگ جاں بحق اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ یکم ستمبر 2010ء کو ماتمی جلوس پر ہونے والے تین خودکش دھماکوں میں 38افراد جاں بحق اور 250 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

2 نومبر 2014ء کی شام واہگہ بارڈر میں پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں 60 افراد جاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہوئے۔ 17 فروری 2015ء کو قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں بم دھماکے کی وجہ سے آٹھ افراد ہلاک جبکہ 19زخمی ہوئے۔ 15مارچ 2015ء کو یوحنا آباد میں مسیحی برادری کی دو عبادت گاہوں میں خودکش حملے ہوئے، جس میں 14 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔

ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے یہ واقعات حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ اگرچہ ماضی کی نسبت خودکش دھماکوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور وہ جہاں چاہتے ہیں حملہ کر دیتے ہیں۔

ہر سال، چھ مہینے بعد دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے، جس سے امن و امان کا سارا تاثر ملیامیٹ ہو جاتا ہے اور شہریوں کو مسلسل خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں رہنا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پورے ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مکمل صفایا ہونے تک چین سے نہ بیٹھے۔ اس سلسلے میں موثر حکمت عملی بنانے اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔