بلوچستان میں83 فیصد گیس چوری ہوتی ہے وزیر پٹرولیم کا انکشاف

سینیٹ کمیٹی کا گیس چوری پر سخت نوٹس، فوری روک تھام کی ہدایت


News Agencies/Numainda Express February 18, 2017
وزیر اعظم سے بلوچستان کے کنکشنز کو قانونی قرار دینے کے لیے درخواست کی جائے گی۔ فوٹو: فائل

MINGORA: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پٹرولیم و قدرتی وسائل نے بلو چستان میں گیس چوری کی شکایات کا سختی سے نو ٹس لیتے ہوئے وزارت پٹرولیم اور صوبائی حکومت کو گیس چوری کی روک تھام کیلیے فوری طور پراقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔

سینیٹ کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان کو سیندک، ریکوڈک میں بھی حق نہیں دیا گیا، صوبے میںگیس کی مکمل فراہمی کیلیے پائیدارحل سے آگاہ کیاجائے، اجلاس کمیٹی چیئرمین اسرار اللہ زہری کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں ایس ایس جی پی ایل حکام صوبے کی کل طلب اور غیر قانونی کنکشن اور دیے گئے گیس پریشر کی تفصیلات وفاقی وزیر کو بھی درست پیش کرنے میں ناکام رہے۔ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں بلو چستان کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پی، ایس ایس جی پی ایل سے صارفین کی تعداد، گیس پریشر اور وصولیوں کی تفصیلات طلب کرلیں جبکہ وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ بلو چستان میں 83 فیصد گیس چوری ہو تی ہے، وہاں پر غیر قانونی کنکشن کی تعداد زیادہ ہے ۔

بلوچستان کی گیس کی کل طلب سے گیس زائد فراہم کی جاتی ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ وزیر اعظم سے بلوچستان کے کنکشنز کو قانونی قرار دینے کے لیے درخواست کی جائے گی۔ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے موسمیا تی تبدیلی نے وزارت مو سمیا تی تبدیلی سے وزارت کے قیام سے اب تک وزارت کے افسران کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات طلب کر لیں۔کمیٹی نے وزارت موسمیا تی تبدیلی کے آئندہ مالی سال کیلیے 11 ترقیاتی منصوبوں کی بھی منظوری دیدی۔ دریں اثنا قومی اسمبلی کی پبلک آکاونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ اسپتالوںکے اندردواؤں کی خریداری میں پیپرا قوانین میں ترمیم کی جائے،سب سے سستی دوائی خریدنے کی بجائے معیارکو بھی مد نظر رکھا جائے جب تک قوانین میں تبدیلی نہیں ہوگی۔

آڈٹ اعتراضات ختم نہیں ہو سکیں گے، اجلاس جمعہ کوکنونیئرشاہدہ اختر رحمانی کی زیرصدارت ہوا، جس میں وزارت کیڈکے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات کاجائزہ لیا گیا۔ ذیلی کمیٹی کوآڈٹ حکام نے بتایاکہ اسپتالوںمیںپیپرارولزکی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہنگے داموں دوائیںخریدی گئیں جبکہ کچھ دوائیں مہنگی ہونے کی وجہ سے خریدی ہی نہ جاسکیں اور فنڈز ضائع ہوگئے۔ پمزاسپتال کے ڈاکٹرجاوید اکرم نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ میٹرو بس بننے کے بعد اسپتال میں مریضوںکارش کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

اسپتال میں یومیہ ساڑھے گیارہ ہزار مریضوںکو او پی ڈی میں دیکھا جاتا ہے، داخل مریضوں کا علاج معالجہ 173 روپے فی مریض کیا جا رہا ہے، یومیہ 20 افراد کے واش روم کو 300 افراد استعمال کرتے ہیں۔ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی کہ ادویات قیمت کی بجائے معیارکے حساب سے خریدی جائیں، اوراس کیلیے پیپرا قوانین میں تبدیلی کی جائے گی ۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ ڈاکٹرکو مریضوںکے رش کے حساب سے اضافی ادائیگیاںکی جائیں اور وزارت خزانہ اس بارے میںضروری فنڈ جاری کرے۔

مقبول خبریں