غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی سی پیک کی تفصیلات مانگ لیں

کاشف حسین  بدھ 8 مارچ 2017
راہداری منصوبوں کے لیے مقامی کمپونینٹس کا استعمال لازم، ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ٹیکس ودیگرفسکل مراعات فراہم کی جائیں،صدراوآئی سی سی آئی
۔ فوٹو: فائل

راہداری منصوبوں کے لیے مقامی کمپونینٹس کا استعمال لازم، ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ٹیکس ودیگرفسکل مراعات فراہم کی جائیں،صدراوآئی سی سی آئی ۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کے نمائندہ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بھرپور فوائد حاصل کرنے کے لیے بزنس کمیونٹی کو اس منصوبے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنے، مقامی سطح پر دستیاب کمپونینٹس کا سی پیک پروجیکٹس میں استعمال لازمی قرار دینے اور مقامی صنعتوں کے تحفظات کے پیش نظر ممکنہ ڈمپنگ کی روک تھام کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کے موثر نفاذ کے ذریعے اینٹی ڈمپنگ ریجیم کو سخت بنانے کی تجویز دی ہے۔

او آئی سی سی آئی کے صدر خالد منصور نے ’’ایکسپریس‘‘ سے ملاقات میں بتایا کہ غیرملکی سرمایہ کار کمپنیاں اور کاروباری ادارے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کی معیشت کے لیے حقیقی معنوں میں گیم چینجر سمجھتے ہیں اور  اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس منصوبے کے نتیجے میں پاکستان کی صنعت اور معیشت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ توانائی کے چیلنج سے نمٹنے میں بھرپور مدد ملے گی اور پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹرکے ساتھ سروس سیکٹر بالخصوص ایس ایم ایز کو بھی فائدہ پہنچے گا، سی پیک کی افادیت مسلم ہے تاہم اس کے ساتھ جڑے ہوئے چیلنجز کا احاطہ کرنے کے لیے سی پیک منصوبے کی تفصیلات کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔

اس لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کی مکمل تفصیلات سے بزنس کمیونٹی کو آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی سی آئی  کے مطابق پاکستان میں بہت سے شعبے مثلاً مکینیکل انڈسٹریز روبہ زوال ہیں اور حکومت سی پیک منصوبوں کے لیے مقامی کمپونینٹس کے استعمال کو لازمی بناکر ان صنعتوں کی بحالی کی راہ ہموار کرسکتی ہے، سی پیک منصوبے سے مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بھرپور مواقع مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسٹم جنرل آرڈر نمبر 11 کو مقامی سطح پر تیار کردہ مصنوعات کی دستیابی کے لحاظ سے اپ ڈیٹ کیا جائے، اسی طرح سی پیک منصوبوں کے تحت لگنے والے نئے اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی ٹیکس اور دیگر فسکل مراعات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے سے توانائی کا بحران حل ہونے کے بعد پاکستان کے صنعتی شعبے کو فائدہ پہنچے گا جس سے پاکستان کی گرتی ہوئی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا، اس منصوبے سے جن شعبوں کو خصوصاً فائدہ پہنچے گا ان میں انفرااسٹرکچر، فوڈ بزنس، سپلائی چین اور لاجسٹکس و دیگر شعبے شامل ہیں، اس طرح بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی مہیا ہوں گے۔

پاکستان میں توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے خالد منصور نے کہا کہ توانائی کے بحران کے حل کے لیے حکومت کی پالیسی انتہائی موثر ہے اور اس کے جلد ہی بہترین نتائج سامنے آئیں گے، پاکستان میں توانائی کے بحران سے سب سے زیادہ ملک کے وسطی علاقے متاثر ہورہے تھے اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے والی ٹیکسٹائل سیکٹر میں لاتعداد یونٹس بند ہوگئے تھے اس صورتحال میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کی تنصیب کا فیصلہ انتہائی موزوں تھا تاہم درآمدی کوئلے کی ترسیل سے متعلق مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے اب کوئلے کے بجلی گھر سمندر کے نزدیک لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے تھر میں کوئلے کی کان اور بجلی گھر کی تعمیر کا منصوبہ پاکستان کے لیے  اہم ترین سنگ میل ثابت ہوگا جس کی تعمیر کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔