توہین آمیز مواد ہٹوانے کیلئے وزیراعظم کو بلانا پڑا تو بلائیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 9 مارچ 2017
سوشل میڈیا پیچز پر رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا، ایف آئی آر کا متن. فوٹو: فائل

سوشل میڈیا پیچز پر رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا، ایف آئی آر کا متن. فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے توہین آمیز مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ سوشل میڈیا سے توہین آمیز مواد ہٹوانے کے لئے وزیراعظم کو بھی بلانا پڑا تو بلائیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شائع کرنے والے پیجز کی بندش اور انہیں چلانے والے افراد کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔  سماعت کے دوران پولیس، ایف آئی اے اور پی ٹی اے حکام نے عدالت کو کیس میں ہونے والی پیشرفت سے متعلق کارکردگی رپورٹ پیش کی، جس میں پی ٹی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ توہین آمیز مواد نشر کرنے والے تمام پیجز کو بلاک کر دیا گیا ہے اور معاملے کی ایف آئی آر بھی درج کرادی گئی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم دیا کہ سارا گستاخانہ مواد وزیراعظم کو بھجوایا جائے اور اسے اعلیٰ سطح پر دیکھا جائے، سوشل میڈیا سے توہین آمیز ہٹانے کیلئے وزیراعظم کو بھی بلانا پڑا تو بلائیں گے۔ عدالت عالیہ نے حکمت عملی مرتب کر نے کے لئے سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فوری طور پر اجلاس بلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اشتہارات کا معاملہ بھی دیکھا جائے۔

دوسری جانب اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں ایس ایچ او ارشاد ابڑو کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں توہین رسالت کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھینسا، موچی اور روشنی کے نام سے پیجز چلائے جا رہے ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔ مقدمے کی تفتیش پولیس اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم کرے گی جب کہ پی ٹی اے بھی معاونت کرے گی۔

اس کے علاوہ  سیکریٹری داخلہ نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو تحقیقات کا خصوصی ٹاسک دے دیا ہے،  جس کے بعد ایف آئی اے نے سوشل میڈیا سے متنازع پوسٹیں ہٹانے کے لئے فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کر لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔