جنگ کی کریہہ شکل

بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے بھی مناسب وقت پر مناسب ردعمل ظاہر کرنے کا عندیہ دیا ہے


کلدیپ نئیر May 05, 2017

جنگ بدصورت چیز ہے، لیکن اگر یہ دوکہنہ پڑوسیوں میں ہو تو اس کی بدصورتی میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی توہین کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان پر دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا ہے جنہوں نے غلطی سے کنٹرول لائن عبور کر لی تھی۔ بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی نے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسا کام تو جنگ کے دوران بھی نہیں ہوتا، یہ بربریت ہے۔ ہمارا ملک مسلح افواج پر مکمل اعتماد رکھتا ہے لہٰذا اس واقعے کا مناسب جواب دیا جائے گا۔

ان فوجیوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے بھی مناسب وقت پر مناسب ردعمل ظاہر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ واقعہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ دورۂ بھارت کے موقع پر پیش آیا جنہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کو کثیرالجہتی مذاکرات کا مشورہ دیا، لیکن بھارتی حکومت اس نظریے کے مخالف ہے کیونکہ وہ کشمیر کو دو ممالک کا باہم مسئلہ قرار دے کر کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے حق میں نہیں۔ فوجیوں کی گردنیں اڑانا کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں اطراف ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان نے سختی سے اس واقعے کی تردید کر دی ہے مگر بدقسمتی سے اس کی جانب سے اس پر افسوس یا دکھ کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کو حقیقت کا جائزہ لینا اور اس کی تہہ تک پہنچنا چاہیے۔

لیکن چونکہ بھارت پہلے ہی دی ہیگ کی عالمی عدالت میں پاکستان کی طرف سے پیش کردہ شکایت کے حوالے سے یہ کہہ چکا ہے کہ دونوں ملک اپنے تنازعے باہمی طور پر طے کریں گے جس میں کسی کی مداخلت بھارت کو قبول نہیں۔ تاہم مذکورہ واقعہ اتنا سنجیدہ ہے کہ اس کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ یہ غیر ریاستی عناصر کی کارروائی ہو جب کہ ملک کے اندر سے بھی تشدد کا سامنا ہو رہا ہے۔ طالبان پاکستانیوں کو قتل کر رہے ہیں اور کوئی ایسی جگہ نہیں جو ان کی کارروائیوں کی رینج سے باہر ہو۔ جب ملک کے اندر داخلی تشدد قابو سے باہر ہو جائے اور جب پاکستان وفاقی انتظام و انصرام میں قبائلی علاقے میں مصروف پیکار ہے ایسی صورت میں وہ بھارت کے ساتھ کسی چھیڑ چھاڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے بھارتی سرحد سے کچھ فوجیں واپس بلا کر مغربی سرحد پر لگا دی ہیں۔ آئی ایس آئی نے علی الاعلان کہا ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی خطرات سے نمٹنے کو ترجیح دینا ہو گی لہٰذا غیر ضروری طور پر حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نئی دہلی حکومت کو احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان اس کے مقابل کی ریاست ہے۔ اگر یہاں کچھ غلط ہوا تو اس کا بھارت پر براہ راست اثر پڑے گا اور طالبان اس پر چڑھ دوڑیں گے۔ ہماری کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے کیسے نکالا جائے۔ پاکستان کی کمزوری بھارت کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے بڑھنے سے صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

تعلقات کو معمول پر لانے کا راستہ ڈائیلاگ کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس میں تعطل پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں۔ اس حوالے سے دونوں طرف سے کوئی غیر ذمے دارانہ بیان جاری نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی منفی بیان جاری نہیں کیا لیکن بھارتی حکومت نے ویزہ پالیسی پر جو پابندی عائد کی ہے اس سے دونوں ملکوں کے عوام کو باہمی رابطے میں مشکل ہو گی حالانکہ اس طریقے سے کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نریندرا مودی نے بیان دیا ہے کہ پاکستان سے معمول کے مطابق بزنس جاری نہیں رہ سکتا اور وہ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ میرا تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ پاکستان اپنے سخت گیر مؤقف میں اسی صورت میں نرمی پیدا کرے گا جب بھارت کی طرف سے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ کس طرح گزارا کیا جائے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ نے چند سال قبل کہا تھا کہ جب تک سرحدی جھڑپیں بند نہیں ہوتیں سرحد پار تجارت اور سفر پر پابندی لگادی جائے لیکن میرے خیال میں یہ غیردانشمندانہ اقدام ہو گا۔ دونوں ملکوں کے سابقہ فوجی افسران زیادہ عقابی فطرت کا اظہار کرتے ہیں۔ چند سال پہلے مجھے پاکستان بحریہ کے ریٹائرڈ افسر نے بات کہی تھی کہ بھارت پر مسلمان 1000 سال حکومت کرچکے ہیں۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار ایک اور صاحب نے بھی کیا کہ بھارت کے ساتھ فوجی ایکشن کے علاوہ نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ واضح رہے یہ کوئی گلی محلے کی لڑائی نہیں ہوگی کیونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ دونوں ملکوں کی سول سوسائٹی بھی مایوس کن ثابت ہوئی۔

یہ دونوں اپنی اسٹیبلشمنٹ کی طرفداری کرتی ہیں۔ حالانکہ دونوں سول سوسائٹیز کو اپنا وزن قیام امن کی طرف ڈالنا چاہیے۔ نئی دہلی حکومت کا الزام ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی دراندازوں کو رسائی دینے کے مقصد سے کی جاتی ہے۔ لیکن وادی میں سیکیورٹی فورسز خاصی مضبوط ہیں۔ البتہ اس سے کشمیری عوام پر بہت منفی اثر مرتب ہوتا ہے وہ اور زیادہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ انھیں اس سے بھی زیادہ برے وقت کا خوف ہوتا ہے۔ حریت پسند یٰسین ملک اور شبیر شاہ کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہی حال حریت کانفرنس کا ہے۔

دونوں ملک جنگ بندی لائن کو مقدس خیال کرتے ہیں جو کہ شملہ معاہدے کے بعد کنٹرول لائن میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے ''لائن آف پییس'' کا نام دیا تھا اور یہ بات انھوں نے میرے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اس کی شاذ و نادر ہی خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن یہاں پر خون کا بہنا ''اسٹیٹس کو'' کو اتھل پتھل کرنے کے مترادف ہے۔ جلد ہی دونوں فریق اس بات کا احساس کر لیں گے کہ امن بہر صورت ناگزیر ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

مقبول خبریں