جرائم کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش
بھارت میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں جرائم کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے
بھارت میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں جرائم کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔ یہ اپوزیشن کے الزامات کی نئی شکل ہے خاص طور پر کانگریس پارٹی کی طرف سے جس کے خلاف سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے تقریباً 39 چھاپے مارے ہیں زیادہ توجہ سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم اور اس کے بیٹے کارتی چدمبرم کے خلاف دی گئی جب کہ اپوزیشن اسے سیاسی انتقام کی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے کہ آیا اپوزیشن جو کہہ رہی ہے وہ سچ ہے یا نہیں۔
جو دوسری طرف بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد یادیو نے بھی کہا ہے کہ اس کو مویشیوں کے چارے کے سیکنڈل میں گھسیٹا جا رہا ہے کیونکہ وہ حکمران جماعت بی جے پی کا مخالف ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے الزام کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جرائم کے ساتھ تشدد بھی شامل کیا جا رہا ہے اور جمہوری روایات جو کہ پر امن انتخابات کی متقاضی ہوتی ہیں ان کی خلاف ورزی بھی جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔ بھارتی نظام بہت دباؤ کا شکار نظر آ رہا ہے جس پر مختلف زاویوں سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہر جگہ پر گورننس کے حوالے سے سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں۔
اس سال کے اوائل میں پروموٹروں کو شوکاز کے نوٹس جاری کیے ہیں جن میں کمپنی کے ڈائریکٹر بھی شامل ہیں جب کہ کارتی چدمبرم پر غیر ملکی زرمبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات ہیں جن کی مالیت 2000 کروڑ تک ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں جو ملٹی پل فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ حکومت چنائی میں قائم ''وسان ہیلتھ کیئر'' میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس کو مبینہ طور پر بہت بڑی کیپیٹل فرم سیکوئیا اور ویسٹ برج جو کہ موریشیس میں قائم ہے جس میں جی آئی سی سنگاپور نامی سرمایہ کاری فرم کا بڑا حصہ ہے۔ چدمبرم اور اس کا بیٹا اس صورت میں مورد الزام ٹھہرایا جائے گا اگر حکومت تمام ثبوت پبلک کے سامنے رکھ دے۔
اگر اس حوالے سے کوئی لیکس ظاہر ہوئیں تو ان کے نتیجے میں الزامات کی نوعیت اور زیادہ سخت ہو جائے گی۔ کانگریس کا موقف کہ ان کے خلاف سیاسی منتقم مزاجی سے کام لیا جا رہا ہے۔ کانگریس کو اس حوالے سے ان دستاویزات کا حوالہ دینا پڑے گا جو پارٹی کے اقتدار کے دوران ان کے قبضے میں تھیں۔ لالو پرشاد یادیو کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا مخالف ہونے کی وجہ سے الزام تراشی کی جا رہی ہے، ممکن ہے وہ درست کہتا ہو۔ مویشیوں کے چارے کے سیکنڈل میں اسے پہلے ہی سزا سنائی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اسے سیاسی انتقام کا نام دیتا رہا۔ اس سکینڈل پر روشنی اس وقت پڑی جب اس کے اہل خانہ بھی گرفت میں آ گئے۔
عام لوگ تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ اگر یہاں پر ایک لوک پال (محتسب) ہوتا تو صورت حال مکمل طور پر واضح ہو سکتی تھی۔ لوک پال کا ادارہ کرناٹک میں قائم ہے جہاں سے بھارتی حکومت سبق سیکھ سکتی ہے۔ وہاں پر کرپشن میں ملوث سرکاری اہل کاروں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے جس کے بغیر شفاف حکومت کا قیام ممکن نہیں۔ محتسب کے نظام میں عوام الناس بھی کسی سکینڈل کی تحقیقات میں شرکت کر سکتے ہیں۔
بہرحال لالو پرشاد یادیو کا احتجاج بے سود نہیں رہا بلکہ حکمران بی جے پی اب ہندوتوا کا نرم نمونہ نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس کا سیاست سے تعلق نہیں ہو گا۔ کانگریس اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے چدم برم اور ان کی فیملی کے خلاف جو کرپشن کے الزامات ہیں ان کی داخلی طور پر تحقیقات کرے تو اس کا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ان الزامات کے نتیجے میں سکیولرازم پر دھبہ پڑ گیا ہے۔ بھارت کے ایک مشہور انگریزی جریدے کے ساتھ گاندھی جی کا ذاتی طور پر ملوث ہونا جس کی بنیاد جواہر لعل نہرو نے رکھی تھی وہ چکرا دینے والا معاملہ ہے کیونکہ اس مقدمے میں سونیا گاندھی اور ان کا بیٹا راہول بھی دھوکا دہی میں ملوث ہونے کے باعث ضمانت پر رہا ہیں۔ ان کے اس جریدے میں 76 فیصد حصص ہیں۔
ان کے خلاف اصل الزام جو بی جے پی کے سبرامینن سوامی نے عائد کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے مشکوک انداز سے اس کمپنی کا قبضہ حاصل کیا جس کے پاس انگریزی جریدے کی ملکیت ہے۔ اس کے اثاثوں کی تعداد 2000 کروڑ روپے سے زیادہ اور بھارت کے تمام بڑے شہروں کے سب سے قیمتی علاقوں میں اس کی جائیدادیں ہیں۔ ایک بار آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں تو کوئی نہیں جانتا اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
خاص طور پر اب جب کہ نریندر مودی کی حکومت مزید مضبوط ہو رہی ہے اور ان سب سے بالاتر ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے جو ایسے وقت میں آیا ہے جب کانگریس کے حکمت عملی تیار کرنے والے سونیا گاندھی کو مقدم رکھ کر آنے والے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی اپوزیشن کو طول دینا چاہتے ہیں کیونکہ سونیا علاقائی اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مرکزی حیثیت اختیار کر رہی ہیں۔ اب حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ اپنی مداخلت میں اضافہ کر دے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں دیکھ سکتی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک پارٹی لازمی طور پر سیاسی جرائم میں ملوث ہے۔ لہٰذا انھیں قصور وار فرد اور جماعت کو سزا دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہی طریقہ جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے جس کے تحت نظام از خود ذمے دار کو اپنی صفوں میں سے نکال باہر کرے اور دیکھے کہ کوئی فرد یا پارٹی احتساب سے نہیں بچ سکتی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)