بھارت کی تعصب کی ماری اکثریت
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی اسی حوالے سے اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے
بابری مسجد کا انہدام اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان دونوں سے اکثریتی آبادی کا تعصب ظاہر ہوتا۔ ان دونوں کی وجہ سے ملکی فضا کی آلودگی بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم نریندرا مودی کی حکومت، جس نے ابھی پچھلے ہفتے ہی اپنے تین سال پورے کیے ہیں، ہندوتوا کے فروغ کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے جو کہ بتدریج پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے بی جے پی نے 2019ء میں ہونیوالے آیندہ عام انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔
اترپردیش میں وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی حکمرانی سے مرتشح اور عیاں ہے کہ آر ایس ایس نے حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے جو کلیدی عہدوں پر اپنے بھروسے کے آدمیوں کو تعینات کر رہی ہے۔ نئی دہلی کا حال بھی کوئی بہتر نہیں۔ نہرو میموریل سینٹر ایک مثال ہے جہاں ڈائریکٹر کو ہٹا کر آر ایس ایس کے پرچارکوں کو تعینات کیا جا رہا ہے جو آزاد خیال پالیسی کے بجائے ایک مخصوص نکتہ نظر کے حامیوں کی اس مرکز میں تقرری کر رہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی اسی حوالے سے اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے اور ہندوتوا کے حامیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا غرور اور تکبر دیگر طلبہ پر منفی انداز سے اثر انداز ہو رہا ہے جس کا اثر ملک کے دیگر تعلیمی اداروں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں چنائی میں بھارتی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بھی اس کے اثرات تشدد کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ بے گناہ طالب علموں کو بیف کھانے کے الزام میں ڈرایا دھمکایا حتیٰ کہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ کیمپس کی آزاد خیال فضا اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ شمالی علاقوں میں ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی کا اثر بہت زیادہ ہے جب کہ کانگریس اور دوسری علاقائی پارٹیاں باقی ملک میں اپنا کام کر رہی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ملک دو ذہنیتوں میں بٹ گیا ہے۔
وزیراعظم مودی نے عہدہ سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ''سب کا ساتھ سب کا ویکاس'' جس کا مطلب ہے کہ ہم سب اکٹھے رہیں گے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ترقی کریں گے لیکن لگتا ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی رستہ کھو چکی ہے۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ وہ خواہ مانیں یا نہ مانیں ان کی حکومت ایک مخصوص راہ پر گامزن ہے جس کو عدم برداشت کا راستہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا تمام تر زور ہندوتوا کے فروغ پر ہے۔ شاید ان کے تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس راستے پر چل کر ان کے ووٹوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
لیکن شکر ہے کہ بجرنگ دل اور آکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد (اے بی ڈبلیو پی) نے صورت حال کو دوسرا رنگ دینا شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے مختلف شہروں میں جلسے' جلوس اور ریلیاں نکالنی شروع کر دی ہیں جن کے شرکاء نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں پکڑی ہوتی ہیں جنھیں ہتھیاروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی تقریباً ویسا ہی منظر ہے جس کا دائیں بازو کی پارٹیاں مغرب میں اسلام کے غلبے کے حوالے سے خوف دلاتی ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک آزاد معاشرے میں ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ جو وہ پسندکرے وہ کھائے۔ کسی پر کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں جہاں پر ہر 50 کلو میٹر کے بعد خوراک اور لباس بدل جاتا ہے وہاں تنوع ناگزیر ہے۔ درحقیقت یہی بھارت کی طاقت ہے اور اسی تنوع کی تکریم نے ہماری مختلف قومیتوں کو ایک وفاق کی صورت میں جوڑا ہوا ہے۔ بی جے پی کے سخت کوش عناصر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت کا راز قومی اقدار میں بنیادی تبدیلی میں مضمر ہے انھیں اپنی سوچ پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔
اس حقیقت میں یقینی طور پر سچائی ہے کہ رائے دہندگان سابقہ کانگریسی حکومت سے مایوس ہو چکے تھے اور اب وہ نئے لوگوں کو موقع دینا چاہتے تھے۔ کانگریس اگر اب بھی وراثتی سیاست پر مصر رہی تو وہ پھر بی جے پی سے مات کھا جائے گی۔ اس بات کا اسے احساس ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک اس نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ راہول گاندھی میں رائے دہندگان کے لیے زیادہ کشش نہیں۔ کانگریس کے دیگر لیڈروں کے بجائے سونیا گاندھی اب بھی زیادہ پر کشش ہے۔ اطالوی نژاد ہونے کا اسے جو نقصان ہو سکتا تھا وہ ہو چکا ہے اب یقیناً اس کی قومیت کا تاثر زائل ہو چکا ہو گا اور اب اسے بھی اتنا ہی بھارتی سمجھا جا رہا ہے جیسے کسی دوسرے یہاں پیدا ہونیوالے کو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب کانگریس میں وہ چمک دمک باقی نہیں رہی جو نہرو یا اندرا کے دور میں ہوا کرتی تھی۔
اس وقت مودی کی شخصیت اور اس کے ہندوتوا کے فلسفے کا رنگ بھارتی عوام پر چھا چکا ہے۔ ممکن ہے کہ مودی کا یہ انداز فکر زیادہ عرصے تک نہ چل سکے کیونکہ بھارتی معاشرہ بنیادی طور پر اجتماعیت پسند ہے اور بی جے پی کو خود بھی اس کا کچھ اندازہ ہے لیکن چونکہ بی جے پی کا جنم آر ایس ایس کے حلقوں سے ہوا ہے اس لیے کچھ وقت تک اسی کا نظریہ برسرکار رہے گا۔ ہر پارٹی ملک میں یک جہتی قائم کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی طرز حکمرانی میں نمایاں خامیاں موجود ہیں حتیٰ کہ چوٹی کے سرکاری افسروں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ہندوتوا کے فلسفے کے کتنے قریب ہیں۔
سابقہ وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے بہت سے افسروں کو کلیدی عہدوں پر تعینات کیا جو سیکولر سوچ کے حامل تھے لیکن جب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تو نرسمہا راؤ نے محسوس کیا کہ جیسے انھیں ذاتی طور پر دھوکا دیا گیا ہے کیونکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حالات اس نہج تک پہنچ جائیں گے۔
اب سی بی آئی کی عدالت نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ لے لیا ہے جس میں ایل کے ایڈوانی' ایم ایم جوشی اور اوما بھارتی پر مجرمانہ سازش کی فرد جرم عاید کر دی گئی ہے۔ اگر برسراقتدار سیاسی جماعت نے عدلیہ کی کارروائی میں مداخلت کی کوشش کی تو یہ ملک کی بدقسمتی اور بدنامی کا باعث ہو گا۔ ایڈوانی اور ان کے ساتھی اعلیٰ عدالت میں اپیل کر سکتے ہیں لیکن اگر حکومت نے دخل اندازی کی تو یہ قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گا۔ کانگریس نے اوما بھارتی کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے جو مودی کی کابینہ میں وزارت کے عہدے پر فائز ہیں۔ اگر مودی انھیں برطرف کر دیں تو اس سے ایک اچھا پیغام جائے گا۔ اپنی غیرجانبداری ظاہر کرنے کے لیے یہ کم سے کم اقدام ہے جو مودی اٹھا سکتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)