جےآئی ٹی کی سپریم کورٹ میں درخواست میں سنسنی خیز انکشافات

ویب ڈیسک  منگل 13 جون 2017

اسلام آباد: پاناما کیس کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے سپریم کورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ اداروں سے خفیہ خط و کتابت جان بوجھ کر میڈیا کو دی جاتی ہے جس کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے جب کہ شریف فیملی کے خلاف انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا گیا۔

پاناما لیکس کی تحقیقات میں مصروف جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی سپریم کورٹ میں درخواست کی کاپی ایکسپریس نیوز نے حاصل کر لی۔ جے آئی ٹی نے مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے سے متعلق شکایات پر مبنی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔ درخواست میں وزارت قانون وانصاف انٹیلی جنس بیورو، سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، ایف بی آر اور ملزموں پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست کے مطابق جے آئی ٹی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے چوہدری شوگر مل اور شریف فیملی کے خلاف ہونے والی تمام انکوائریوں کا ریکارڈ طلب کیا۔ اس کے جواب میں ایس ای سی پی نے اپنے خط میں بتایا کہ شریف فیملی کے خلاف کبھی کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ ایس ای سی پی کے گواہ کے مطابق چیرمین نے شریف فیملی کے خلاف انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیرمین ایس ای سی پی کے حکم پر چودہری شوگر مل کی تحققات کا ریکارڈ تبدیل کیا گیا اور اس کے لئے ایس ای سی پی کے ای ڈی علی عظیم نے چودہری شوگرمل کی تحقیقات کو گزشتہ تاریخوں سے تبدیل کروایا جب کہ علی عظیم کو ہی چیرمین ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کیلئے نامزد کیا تھا۔ جے آئی ٹی کا کہنا ہے چیرمین ایس ای سی پی کی جانب سے علی عظیم کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا مقصد تحقیقات کو سبوتاژکرنا تھا۔

جے آئی ٹی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول اور ان کے اہل خانہ کے فیس بک اکاونٹس آئی بی کی مدد سے ہیک کر لئے گئے اور 24 مئی کو آئی بی کے اہلکار بلال رسول کے گھر کے قریب چکر لگاتے نظرآئے اورانہوں نے بلال رسول کے ملازم کو دھمکایا۔

درخواست میں نیب کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2004 میں ضم ہونے پر نیب نے جے آئی ٹی ممبر عرفان نعیم منگی کو25اپریل کو شوکاز نوٹس کیا جب کہ نیب نےعرفان منگی سے 15 روز میں جواب طلب کر رکھا ہے، نیب کا نعیم منگی کو نوٹس توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔

جے آئی ٹی نے ایف بی آر سے شریف فیملی کے1985 سے ریکارڈ طلب کیا تو ایف بی آر نے صرف 5 سال کا ریکارڈ ہی دینے کا کہا، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزارت قانون و انصاف نے بیرون ملک تحقیقات کے لئے لکھے گئے خط میں 5 دن تاخیر کی جب کہ جے آئی ٹی نے گواہوں کے بیانات تبدیل کروانے کی بھی سپریم کورٹ سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گواہوں کو فریقین کی جانب سے بیانات سکھائے جا رہے ہیں، طارق شفیع کو اتفاق گروپ کے چیف ایگزیکٹونے پیشی سے پہلے وزیراعظم ہاؤس جانے کی ہدایت کی اورانہیں وزیر اعظم ہاؤس کی ہدایات کے مطابق بیان دینے کا کہا گیا۔

جےآئی ٹی نے مزید کہا کہ ہماری اداروں سے خفیہ خط و کتابت میڈیا کو جان بوجھ کرجاری کی جاتی ہے جس کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے۔ جے آئی ٹی کا کہنا ہے وزیراعظم کو طلبی کا نوٹس خفیہ تھا جس کی وزیر اطلاعات نے میڈیا میں تصدیق کی۔ یوں اطلاعات کو عام کرنا گواہان کی سیکورٹی خدشات کو بڑھاتا ہے جب کہ ایک ممبر اسمبلی نے جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان کہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔