سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن 4 سال بعد بھی غیرفعال کسی یونیورسٹی نے ایکریڈیشن حاصل نہیں کی

چیئرمین ڈاکٹر عاصم کی عدم توجہ، سیکریٹری کمیشن نوید شیخ چارج منتقل کیے بغیر بیرون ملک روانہ،عملہ 3 گھنٹے کیلیے آتا ہے


Safdar Rizvi July 13, 2017
150ملین کی گرانٹ ضائع، جامعات کی سینڈیکیٹ میں وفاقی ایچ ای سی کی نمائندگی ختم کرنے کامراسلہ ہی نہیں لکھا جا سکا فوٹو: فائل

چیئرمین کی عدم دلچسپی اورسیکریٹریز کی نااہلی کے سبب سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اپنے قیام کے مقاصدحاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے اورسندھ ایچ ای سی صوبے کی سرکاری جامعات یا ان کے طلبہ کو گزشتہ 4 برسوں میں ایک بھی منصوبہ نہیں دے سکا، سندھ میں کمیشن کے قیام کو4برس جبکہ چیئرمین کمیشن ڈاکٹر عاصم حسین کی تقرری کوساڑھے 3 برس پورے ہوگئے ہیں۔

ان کی تعیناتی4سال کے لیے کی گئی تھی جس کی مدت 6 فروری 2018 کو پوری ہو جائے گی تاہم اس عرصے میں کمیشن سندھ کی جامعات کوتدریسی وانتظامی حوالے سے کسی قسم کی گائیڈلائن دینے یا انھیں کنٹرول کرنے سے عاری ہے۔ ڈاکٹرعاصم حسین کی تقرری سے تاحال ساڑھے3سال کے عرصے میں کمیشن محض 3 اجلاس منعقدکرسکاہے جس میں کیے گئے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمدنہیں ہوسکا اوریہ فیصلے محض نمائشی ثابت ہوئے، کراچی سمیت سندھ کی کسی بھی یونیورسٹی یا اسناد تفویض کرنے والے ادارے نے سندھ ایچ ای سی کی ایکریڈیشن حاصل ہی نہیں کی، سندھ کی کوئی سرکاری یانجی یونیورسٹی سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے تسلیم شدہ ہے اورنہ ہی کوئی یونیورسٹی اس بات کواہمیت دیتی ہے کہ سندھ ایچ ای سی سے ایکریڈیشن حاصل کی جائے، جامعات کی انتظامیہ کی نگاہ میں کمیشن کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ جب کمیشن نے ایکریڈیشن جاری کرنے کے لیے اشتہار دیا توسندھ کی بمشکل 2 یا 3 جامعات نے دلچسپی ظاہرکی تاہم کمیشن انھیں بھی ایکریڈیشن جاری نہیں کرسکا، سندھ ایچ ای سی کا پہلااجلاس سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی سربراہی میں وزیراعلیٰ ہائوس میں ہوا تاہم یہ اجلاس تعارفی حیثیت کاحامل تھا۔

اسی اثنامیں چیئرمین کمیشن ڈاکٹرعاصم حسین لندن چلے گئے اورایک عرصے تک کمیشن میں کوئی سرگرمی نہیں ہوسکی کیونکہ اس وقت کے سیکریٹری کمیشن ڈاکٹرمنصورعباس نے کمیشن کی تمام تر سرگرمیوں اورفیصلوں کوچیئرمین کمیشن کی منظوری اور موجودگی سے مشروط کردیاتھاجب وہ وطن واپس آئے تو کمیشن سے ہی حراست میں لے لیے گئے جس کے سبب ناصرف وہ بلکہ خود کمیشن کوبھی عملی طورپرغیرفعال کردیاگیا۔ ازاں بعد کمیشن کے ایک رکن جسٹس (ر) دیدارشاہ نے کمیشن کے2 مختلف اجلاس بلوائے اوران کی صدارت کی تاہم ان اجلاسوں میں بھی کیے گئے فیصلے محض اجلاس کی روداد تک ہی محدودرہے ان پربھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

ان اجلاسوں میں کیے گئے فیصلوں میں اہم ترین فیصلہ سندھ کی سرکاری جامعات کے سینڈیکیٹ میں وفاقی ایچ ای سی کی نمائندگی کوختم کرتے ہوئے اس کی جگہ سندھ ایچ ای سی کواس فیصلہ سازادارے میں رکنیت دینا شامل تھی تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود سندھ ایچ ای سی صوبے کی کسی بھی یونیورسٹی کواس کی سینڈیکیٹ میں رکنیت دینے کے لیے خط تک نہ لکھ سکی کیونکہ اس فیصلے پر خود وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے سندھ ایچ ای سی کوردعمل کاسامنارہااورنتیجے کے طورپرصوبے کی کسی بھی سرکاری یونیورسٹی نے اپنی سینڈیکیٹ میں سندھ ایچ ای سی کورکنیت نہیں دی اسی طرح کمیشن کے آخری اورتیسرے اجلاس میں سندھ میں کام کرنے والی کم از کم 22 ایسی نجی جامعات کے نام مشتہرکرنے کافیصلہ کیاگیاتھاجوبظاہروجود نہیں رکھتی یا غیرقانونی طورپراپنے کیمپس چلارہی تھیں تاہم اس فیصلے پر بھی کئی ماہ گزرنے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ مزید براں کمیشن کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر منصورعباس نے صوبے کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کا ایک اجلاس بلایاتھااجلاس میں 150 ملین روپے سے سرکاری جامعات میں مختلف تربیتی اورتحقیقی منصوبے شروع کرنے کافیصلہ کیاگیاتھا150ملین روپے کی یہ گرانٹ ضائع کردی گئی اور کمیشن کسی بھی یونیورسٹی میں تحقیقی یاتربیتی منصوبہ شروع نہیں کرسکا۔ قابل ذکرامریہ ہے کہ جب سندھ حکومت نے صوبے کی سرکاری جامعات کوفنڈدینے کا سلسلہ شروع کیاتواس معاملے میں بھی کمیشن کودوررکھاگیا، سندھ حکومت تمام جامعات کوبراہ راست فنڈجاری کرتی ہے اورکمیشن کواس معاملے سے علیحدہ رکھاجاتاہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ساڑھے 3 سال کے عرصے میں کمیشن میں 2 مختلف سیکریٹری رہے، کمیشن کے پہلے سیکریٹری ڈاکٹر منصور عباس تھے جو چیئرمین ڈاکٹرعاصم حسین کی حراست کے بعد غیرفعال ہوگئے اورکچھ عرصے بعد اپنا تبادلہ کرالیا جس کے بعد گزشتہ سال 4 اگست 2016 کو گریڈ 20 کے افسرنویدشیخ کوسندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا مستقل سیکریٹری مقررکرتے ہوئے انھیں سیکریٹری برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈزکابھی اضافی چارج دے دیاگیاتاہم ان کازیادہ تروقت کمیشن کے بجائے سیکریٹریٹ برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز میں گزرتا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ وہ ہفتے میں بمشکل ایک دن کچھ دیرکیلیے کمیشن کے دفترجاتے ہیں جس کے سبب خود کمیشن کابیشترعملہ بھی دوپہر12 بجے کے قریب دفتر آتا اور3 بجے کے قریب دفترچھوڑجاتاہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ سیکریٹری کمیشن نوید شیخ تعطیلات پر بیرون ملک جاچکے ہیں تاہم اس وقت کمیشن میں کسی دوسرے افسرکوسیکریٹری کا چارج ہی نہیں دیاگیااورسندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کسی مستقل یاقائم مقام سیکریٹری کے بغیرکام کررہاہے۔

کمیشن کے رولز کے مطابق سیکریٹری کمیشن اپنی تنخواہ کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ اضافی الائونس بھی لیتاہے جبکہ دیگر ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹربھی ماہانہ اضافی الائونس وصول کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن دہائیوں قبل کے کسی سرکاری دفترکامنظرپیش کرتاہے اور سندھ میں کام کرنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فنڈنگ ایجنسی یاانھیں کنٹرول کرنے والے ادارے کے طورپراپنی حیثیت نہیں منواسکا۔ پنجاب کے برعکس سندھ کی تمام سرکاری ونجی جامعات میں سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی موجودگی میں وفاقی ایچ ای سی کے قوانین لاگوہیں اورفنڈکی فراہمی سے لے کرڈینز واساتذہ کی تقرریوں میں تمام سرکاری جامعات میں ایچ ای سی کی گائیڈ لائن پر عمل پیراہیں اس کے برعکس پنجاب حکومت کی جانب سے مختص سرکاری جامعات کے 10ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز پنجاب ایچ ای سی10 کے تحت یونیورسٹیز کو دیے جاتے ہیں، سندھ ایچ ای سی کے بعدقائم ہونے والا پنجاب اعلیٰ تعلیمی کمیشن اب تک10 اجلاس منعقد کر چکا ہے، کمیشن کے تحت اپنے منصوبے جاری ہیں جس میں کمیونٹی کالج سمیت دیگر پروجیکٹس شامل ہیں۔

مقبول خبریں