شمال مشرقی ہند میں بے چینی لاوا پھٹنے والا ہے

بنگلہ دیشی لوگ اقتصادی وجوہات کی بنا پر بھارت آتے ہیں۔


Kuldeep Nayar August 03, 2012

بھارت کا شمال مشرقی علاقہ ایک دہکتا ہوا آتش فشاں بن گیا ہے۔ تقریباً 250 نسلی گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور نئی دہلی حکومت کے ساتھ بھی وہ اپنی الگ شناخت کی خاطر تصادم پر آمادہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو بھارت سے اپنی آزاد حیثیت کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ہندوئوں' مسلمانوں اور عیسائیوں کا تناسب کم و بیش یکساں ہے لیکن بنگلہ دیش کی طرف سے دراندازی نے صورتحال کو اور زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے حتٰی کہ آسام والے بھی' جنہیں 1955ء میں لسانی بنیادوں پر علیحدہ ریاست کا درجہ دیا گیا تھا' آج اپنی ہی ریاست آسام میں اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔

بوڈو ایک اور نسلی گروہ ہے جو اسی ریاست آسام کے ایک حصے میں آباد ہے۔ ان کی کمیونٹی نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے۔ ان سے امن و امان کی کوئی توقع ہی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ تو ان کے ریلیف کیمپوں پر بھی حملے کر دیتے ہیں۔ بوڈوئوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی اراضی انھیں واپس دی جائے جس پر ان کے بقول 1947ء میں انگریزوں کے جانے کے بعد سے ہی باہر سے آنے والوں اور دراندازوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ ایک الگ بوڈو ریاست کے قیام کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں جس طرح کہ بھارت میں دیگر ریاستیں موجود ہیں۔ حالانکہ بوڈوئوں کی ایک خود مختار کونسل موجود ہے جس کے ذریعے وہ خاصی اتھارٹی حاصل کر لیتے ہیں۔

جب بعض نسلی گروپوں نے آسام سے الگ ہو کر اپنی الگ ریاستیں قائم کی تھیں جیسے اروناچل پردیش' منی پور' میگھالا اور تری پورہ تو بوڈوئوں نے ریاست آسام میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ ریاستی دارالحکومت گوہاٹی کی انتظامیہ بوڈوز کی انفرادیت کے ساتھ نباہ کرنے کے قابل نظر نہیں آتی لیکن بنگالی مسلمانوں کے ساتھ بوڈوز نے جس قدر ظلم و تشدد کیا ہے اس نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آسام قوم کے چہرے پر دھبہ ہے۔ انھوں نے یہ بیان بوڈوز کے گڑھ کوکڑاجھاڑ کے دورے کے موقع پر دیا۔ لیکن آخر نئی دہلی حکومت نے آسام کو ہی کیوں ہدف ملامت بنایا ہے؟

حالانکہ درحقیقت یہ دھبہ مرکزی حکومت کے چہرے پر لگا ہے جو شمال مشرقی علاقے میں صورتحال کو قابو میں رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ دہلی حکومت کے پاس صرف ایک ہی فارمولا ہے کہ شمال مشرقی علاقے میں جو کچھ بھی ہو اسے امن و امان کا مسئلہ کہہ دیا جائے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی فوج اور پیراملٹری فورسز کو بھجوایا جا چکا ہے حتٰی کہ ریاستی پولیس بھی آرمی کی طرف ہی دیکھتی رہتی ہے حالانکہ آرمی کئی بار کہہ چکی ہے کہ یہ مسئلہ سیاسی ہے۔ مرکز نے اس علاقے میں گاہے بگاہے وزارت داخلہ کے بعض حکام کو بھجوانے کے سوا اور کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔

آرمی اس علاقے میں مکمل اختیارات رکھنے کی خاطر آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) جسے ڈریکونیئن قانون پر عمل درآمد کر رہی ہے جس کے تحت ایک فوجی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ محض شبہ کی بنا پر بھی کسی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دے۔ اور چونکہ علاقے کے دہشت زدہ عوام کے لیے فوجی کسی حد تک تحفظ کی علامت بن گئے ہیں چنانچہ نااہل ریاستی حکومت کی انتظامیہ نے بھی سب چیزوں کا انحصار فوج پر چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا بار بار یہ سننا قطعاً عجیب محسوس نہیں ہوتا کہ فوج جائے وقوعہ پر بڑی دیر سے پہنچی۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے کئی مرتبہ برسرعام کہا ہے کہ فوج تاخیر سے آئی جبکہ مرکزی حکومت پہلے ہی آدھے سے زیادہ پیراملٹری یونٹ واپس منگوا چکی ہے حالانکہ ان کی یہاں بے حد ضرورت تھی۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ آرمی نے کوکڑاجھاڑ پہنچنے میں تین دن کیوں لگا دیے حالانکہ جب ایک مجسٹریٹ آرمی طلب کرنے کی کال دیتا ہے تو فوج قانونی طور پر سول اتھارٹیز کی مدد کی پابند ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آرمی آسام میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث نہیں ہونا چاہتی جبکہ دوسری رپورٹ کے مطابق آسام کی آرمی کمان کسی ایکشن سے قبل وزارت دفاع کی اجازت طلب کرنا چاہتی تھی۔ اگر متذکرہ رپورٹیں درست ہیں تو پھر ان سے یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرمی سول حکام کی مدد کی پابند نہیں ہے جیسا کہ قانون میں درج ہے

جبکہ آرمی ہر وقوعہ کے موقع پر اس کے میرٹ کے مطابق عمل درآمد کرے گی۔ اس معاملہ پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہیے۔ مگر وہ تو ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں اور سرپھٹول میں مصروف ہیں۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو بھی اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں آتا۔ ناگالینڈ اس علاقے کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ آزادی کے بعد نئی دہلی اور کوہیما کے مابین فائر بندی ہو گئی تھی۔ دونوں فریق جداگانہ حیثیت پر بات چیت کر رہے تھے، جس سے بھارت کی خود مختاری پر کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ لیکن مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اروناچل پردیش چین کی سرحد کے ساتھ واقع ہے لیکن یہ ریاست بھارت کے اندر ہے۔ اس کے باوجود نئی دہلی نے چین کی طرف سے اروناچل پردیش کے لوگوں کو ویزے جاری کرنے کا عمل قبول کر لیا۔

بیجنگ کی طرف سے ایسے ویزے ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ نئی دہلی نے انھیں ان ویزوں پر چین جانے سے کبھی نہیں روکا۔ منی پور میں غروب آفتاب کے بعد کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ یہ کام سالہا سال سے ہو رہا ہے جس کے اب لوگ بھی عادی ہو گئے ہیں لیکن یہیں اروم جنو شرمیلا بھی ہے جس نے دس سال سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ وہ اے ایف ایس پی اے کا کالا قانون ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ چند سال قبل نئی دہلی نے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے متذکرہ قانون ختم کرنے کی سفارش کی تھی مگر ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اس کا حتمی فیصلہ مسلح افواج نے ہی کرنا ہے جس پر مرکز نے سر تسلیم خم کر لیا۔ میگھالایا کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے لیکن اب وہاں کے عوام نے امن کا مزہ چکھ لیا ہے اور وہ تشدد کے زمانے میں واپس نہیں جانا چاہتے۔ باغیانہ تحریک بھی یہاں موجود ہے مگر نئی دہلی کو اب اطمینان ہو چکا ہے کہ پڑوسی ممالک یعنی بنگلہ دیش اور میانمار اب باغیوں کو پناہ گاہیں فراہم نہیں کرتے۔

دراندازی البتہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو قابو میں نہیں آ رہا کانگریس نے 1950ء کے عشرے میں خود اس کی حوصلہ افزائی کی تھی کیونکہ اس طرح اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا تھا۔ اس وقت کے کانگریس کے صدر دیو کانت بروا نے خود مجھے بتایا تھا کہ وہ علی اور قلی (یعنی مسلمان اور بہاری مزدور) کی مدد سے انتخاب جیت جائیں گے۔

کانگریس کو وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے مابین جوسمجھوتہ ہوا تھا کہ آسام میں باہر سے آنے والوں کے نام ووٹر لسٹوں سے نکال دئے جائیں گے اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے تھا۔ مگر آسام کے وزیر اعلیٰ گوگوئی ایسا نہیں چاہتے تھے کیونکہ غیرملکیوں کے ووٹوں سے کانگریس کا فائدہ تھا۔ ریاست میں آخری دو انتخابات سرحد پار کے ووٹوں سے ہی جیتے گئے ہیں۔

بنگلہ دیشی لوگ اقتصادی وجوہات کی بنا پر بھارت آتے ہیں۔ اگر انھیں ورک پرمٹ دیے جائیں تو کام کر کے واپس اپنے گھر جا سکتے ہیں لیکن اس طرف ابھی تک کسی کا خیال نہیں۔ بہرحال ان کے مسئلہ کو شمال مشرق کے پیچیدہ ترین مسائل کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

مقبول خبریں