پاکستان کے 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)

ایکسپریس اردو بلاگ  جمعرات 10 اگست 2017
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔ 


پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)

 

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام

جی ہاں، یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہی پایا جاتا ہے جہاں کی 43 فیصد آبادی کا پیشہ زراعت ہے اور ملک کے 47.03 فیصد رقبہ پر زراعت کی جاتی ہے۔ زرعی نظام کا بنیادی جزو پانی ہے اور قابلِ کاشت اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے پاکستان میں نہری نظام تعمیر کیا گیا۔ دریائے سندھ  پاکستان کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریز سرکار نے قریباً نصف صدی قبل مختلف مقامات پر دریائے سندھ سے نہریں نکال کر اور بند باندھ  کر زرعی اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے نہری نظام قائم کیا، جو آج دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام مانا جاتا ہے۔ شاید اِسی سبب دریائے سندھ کو اباسین بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں (دریاؤں کا باپ)۔

پاکستان میں موجود دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے ذریعے 4 ملین ایکڑ زرعی زمین کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس پر گندم، چاول، پھل، سبزیاں، گنّا اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں۔ اِس مقصد کیلئے دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کے علاوہ 85 چھوٹے بند، 19 بیراج، 45 نہریں، 12 رابطہ نہریں اور 7 لاکھ ٹیوب ویل قائم کئے گئے ہیں۔

 

ایشیاء کا پہلا لیپروسی کنٹرول ملک

یہ 1958ء کی بات ہے جب پاکستان میں جذام کا مرض شدت اختیار کرنے لگا اور مریضوں کی مناسب دیکھ بھال، علاج اور آگاہی نہ ہونے کے باعث جذام پھیلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اِسی دوران ایک جرمن خاتون رتھ فاؤ نے جب کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری فلم دیکھی تو لرز گئی اور انسانیت کی فلاح کی خاطر جرمنی سے کراچی چلی آئی۔ اِس حوصلہ مند خاتون نے کراچی ریلوے اسٹیشن میکلوڈ روڈ پر ایک چھوٹا سا جذام کنٹرول سینٹر قائم کیا اور اِس مرض میں مبتلا افراد کا علاج شروع کیا۔ بتدریج یہ سینٹر ترقی کرتا گیا اور 1965ء میں ایک اسپتال کی حیثیت اختیار کرگیا۔

جذام کے مرض کے خلاف رتھ فاؤ کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم پاکستان میں جذام کے مرض کیخلاف اتنی زور و شور سے چلی کہ جذام کے علاج اور کنٹرول کیلئے 156 مراکز قائم ہوگئے۔ 1996ء میں پاکستان کو ’’لیپروسی کنٹرول‘‘ ملک قرار دیدیا گیا۔ یوں پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جسے جذام سے پاک ملک قرار دے دیا گیا تھا، لیکن البتہ حالیہ برسوں میں اِس بیماری نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے مگر اب یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسط 400 سے 500 نئے جذام کے مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔

اِس مرض کیخلاف کامیابی حاصل کرنے میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اُن کی اِسی خدمات کے صلے میں انہیں حکومتِ پاکستان نے 1988ء میں پاکستان کی شہریت عطا کی، جبکہ ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشانِ قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ 8 اگست 2017ء کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ سے جہاں سے سدھار گئیں۔

 

کم رقبے پر بھی سارے موسم

رقبے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 35واں بڑا ملک ہے جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اپنی 20 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ دنیا کا ساتواں سب سے گنجان آباد ملک بھی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان میں جتنے زیادہ اقسام کے موسم یعنی ماحولیاتی خطّے پائے جاتے ہیں، وہ اِس رقبے والے شاید کسی دوسرے ملک میں نہیں۔ پاکستان میں سطح سمندر سے لے کر 8 ہزار میٹر بلندی تک، ہر طرح کی آب و ہوا اور ماحول پائے جاتے ہیں۔ یہاں گرم صحرائی علاقے بھی ہیں اور میدانی علاقے بھی، سطح مرتفع بھی ہے اور بلند و بالا پہاڑی مقامات، خشک مقامات بھی ہیں اور ایسی جگہیں بھی کہ جہاں سال کے بیشتر حصے میں بارش یا برف باری ہوتی رہتی ہے۔ اِس متنوع فیہ ماحول کی مناسبت سے پاکستان میں نباتات (پودوں، درختوں، جھاڑیوں) اور جانوروں کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں جن پر تحقیق کرکے بیش بہا فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بایوٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اس بارے میں کہتے ہیں: ’’پاکستان اپنے ماحول اور نباتات و حیوانات (flora and fauna) کے اعتبار سے جس قدر مالا مال ہے، اِس پر تحقیق کرکے اور فائدے حاصل نہ کرکے بھی ہم دراصل کفرانِ نعمت ہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘

 

ایشاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی

ہر سال کراچی میں قائم ہونے والی عارضی مویشی منڈی کو ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ عید قرباں کیلئے ذی الحج سے ایک ماہ قبل ہی کراچی میں سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ پرعارضی منڈی قائم کی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے مختلف جانور لائے جاتے ہیں۔ سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط منڈی میں اعلیٰ نسل کے بکرے، گائے، دنبے اور اونٹ رکھے جاتے ہیں۔ یہاں اونٹوں کیلئے الگ حصہ مختص ہے جہاں تھر کے خاص اونٹ بھی لائے جاتے ہیں جن کے جسم پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔

گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق اِس منڈی میں 3 لاکھ جانور لائے جاتے ہیں جن میں پونے دو لاکھ بڑے اور سوا لاکھ چھوٹے جانور لائے جاتے ہیں۔ یہاں لائے گئے جانور کی قیمت 20 ہزار سے 25 لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں سے اِس منڈی میں کاروباری حضرات کی خاص دلچسپی کی بدولت ملک کے بہترین فارموں میں پلے اعلیٰ نسل کے جانور لائے جاتے ہیں، جن کا قد و قامت اور وزن کے تناسب سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تجارتی مفادات بڑھنے کی وجہ سے منڈی میں جگہ کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ فارم ہاؤس کے جانور وی آئی پی ٹینٹ میں رکھے جاتے ہیں جن کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ لوگ دور دراز سے اِن طویل القامت اور بھاری بھرکم جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جن کو دودھ، مکھن، دیسی گھی اور میوہ جات کھلا کر فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔

 

دالیں پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک

دالیں ہماری غذا کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق دالیں، گوشت کا نعم البدل ہیں اور پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سب سے اہم ترین بات یہ کہ پاکستان دنیا بھر میں دالوں کی پیداوار میں بھارت کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔

محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق پاکستان میں 1.5 ہیکٹر رقبہ پر دالیں کاشت کی جاتیں ہیں جو کہ کُل زیرِ کاشت رقبہ کا 6.7 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً تمام ہی اقسام کی دالیں کاشت کی جاتی ہیں جن میں چنا، مونگ، مسور، ارہر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے ملک میں مونگ کی دال کی مانگ زیادہ ہے اور اِس وجہ سے مونگ کی اوسط پیداوار تقریباً سات من فی ایکڑ ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ میگنیشیم کی کمی دل کے امراض کا سبب بنتی ہے اور دالوں کے استعمال سے اِس کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دالوں میں موجود فائبر خون میں کولیسٹرول کا لیول کم کرتا ہے جبکہ دالیں شوگر کے مریضوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔