مصر کا بازار

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 24 اگست 2017

گیارہ سال ہوئے یعقوب نظامی اپنے دو دوستوں کے ساتھ مانچسٹر سے مصرکے سفر پر روانہ ہوئے۔ ان کے دفتر کے ایک ساتھی جن کا تعلق صومالیہ سے تھا، اس سفر کے محرک بنے اور ایک طرح سے گائیڈ بھی۔ یہ فروری کے آخری دن تھے۔ یعقوب اور ان کے ساتھی اٹلی کے راستے قاہرہ پہنچ گئے، اس کا واحد مقصد سیر و سیاحت تھا۔ واپس آکر یعقوب نظامی نے ’’مصرکا بازار‘‘ کے عنوان سے ایک سفرنامہ لکھ دیا۔

قاہرہ کے باہر الرحاب سٹی میں ان کے قیام کا انتظام تھا۔ دوسرے دن صبح کو یہاں سے ٹیکسی میں یہ چاروں قاہرہ پہنچ گئے۔ آج کا دن قاہرہ سے تعارف کا دن تھا، اصل سیاحت اگلے دن سے شروع ہوئی۔ ابتدا حضرت امام شافعیؒ کے مزار سے ہوئی جو قدیم شہر میں دارالسلام کے علاقے میں ہے۔ یعقوب لکھتے ہیں ’’ہم نے فاتحہ خوانی کی اور مزار کے اندرونی حصے کا جائزہ لیا۔ یہ ایک پرانی، بوسیدہ اور اپنے دورکی بے مثال اور باوقار عمارت تھی۔ ہم نے مزار کے مجاور کے ساتھ چند تصویریں بنوائیں کچھ پیسے نذر کیے اور امام صاحب کے مزار سے باہر آگئے۔‘‘

یہاں سے نکل کر یعقوب اور ان کے ساتھی دارالسلام ہی کے علاقے میں حضرت زینبؒ کے مزار پر گئے اور فاتحہ پڑی۔ یہیں حضرت زینب کی صاحبزادی نفیسہؓ مدفون بتائی جاتی ہیں۔ اب یعقوب نظامی کی منزل دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر تھی۔ یہ ظہرکی نماز کا وقت تھا۔ یہ بھی مسجد میں پہنچ گئے، نماز ادا کی، شیخ الازہر، ڈاکٹر محمد سید طنطاوی نے نماز پڑھائی۔ نمازکے بعد مسجد کے بڑے صحن میں اخوان المسلمین کا اجتماع ہوا۔ یعقوب لکھتے ہیں ’’مجھے اجتماع میں شامل چند طلبا سے ملنے کا موقعہ ملا جن سے میں نے اس عظیم درسگاہ کے بارے میں باتیں کیں جو بڑی مفید ثابت ہوئیں۔‘‘

پھر یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں تعمیر ہونے والا قلعہ دیکھنے گئے۔ قلعے کا سب سے اونچا مقام مسجد محمد علی ہے۔ یعقوب کہتے ہیں کہ یہ مسجد بہت خوبصورت، انتہائی وسیع اور کشادہ ہے۔ یہاں ہم نے عصر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد یہ قاہرہ شہر کے مرکز جسے التحریر آزادی چوک کہتے ہیں، پہنچے۔ یہاں سے شاہراہ التحریر پر سفر کرتے ہوئے یہ دریائے نیل کے کنارے جا پہنچے۔ یعقوب نظامی لکھتے ہیں ’’پہلی نظر میں مجھے دریائے نیل اس محبوبہ کی طرح بہتا نظر آیا جسے یہ علم ہو کہ وہ حسین ہے۔‘‘

اب شام ہو رہی تھی، کشتی کی سیر کا وقت تھا۔ یہ چاروں ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ نظامی لکھتے ہیں کہ دریا کی وسعت اور ہر طرف سے منعکس ہونے والی روشنیوں نے ماحول کو رومانی بنادیا تھا۔ ایسے میں جب کشتی چلی تو ملاح نے عرب کی تیز دھنوں پر مصری نوجوان مغنیہ، نانسی ہجرم کا گایا ہوا ایک نغمہ بجانا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی کشتی میں سوار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے تالیاں بجا کر ناچنا شروع کردیا۔

یعقوب نظامی اور ان کے دو دوستوں، منیر حسین اور یعقوب آزاد نے قاہرہ کے قریب گیزہ اور سقارہ کے اہرام، محفس کے قدیمی شہر الاقصر میں فراعنہ کے شاہی قبرستان، محلات اور عبادت گاہوں کی سیر کی۔ نظامی نے فراعنہ کے مذہب، رسم و رواج، رہن سہن، موت اور تدفین کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ قاہرہ میں میری سب سے پہلی آرزو فراعنہ کی دنیا کو دیکھنے کی تھی۔ اہرام کے علاقے میں داخل ہوا تو مجھے انتہائی مایوسی ہوئی۔ میں سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ اہرام ہیں جن کا دنیا بھر میں چرچا ہے۔ چاروں طرف دور دور کھنڈرات جن کے درمیان اہرام خاموش کھڑے نظر آئے بالکل ایسے جیسے کوئی بزرگ اپنے ہم عصر کے کھو جانے کے بعد گھر کے صحن میں چپ چاپ کھڑا کسی گہری سوچ میں گم ہو۔‘‘

یعقوب نظامی کو اہرام کو اندر سے دیکھنے کا شوق تھا ۔ انھوں نے یہ شوق بھی پورا کیا۔ ان کے ساتھ منیر حسین اور آزاد بھی اندر گئے۔ لکھتے ہیں ’’اہرام ایک تنگ اور تاریک قبر تھی لیکن یہ قبر عام آدمی کی نہیں فرعون خوفو کی تھی۔‘‘ اس قبر تک جانے اور واپس باہر آنے کا حال بتاتے ہوئے نظامی لکھتے ہیں ’’مجھے اپنے حواس پر قابو نہیں تھا۔ بس یہی فکر تھی کہ اس قبر سے باہر کیسے نکلوں گا۔‘‘

گیزہ میں اہرام اور ابوالہول کا مجسمہ دیکھنے کے بعد یعقوب محفس گئے جہاں فراعنہ بڑے کروفر سے حکومت کرتے تھے۔ غلاموں کی خرید و فروخت کی پہلی منڈی مصر میں اسی جگہ قائم ہوئی تھی۔ مصر کا بازار یہی تھا۔ محفس میں ایک پہاڑی پر فراعنہ کا شاہی قبرستان سقارہ تھا۔ ان کے مقبرے تھے، عبادت گاہیں اور قربان گاہیں تھیں۔ یعقوب نظامی کے لیے یہ عبرت کا مقام تھا۔

فراعنہ کے اہرام، مقبرے، قربان گاہیں، محلات دیکھنے کے بعد ان کی لاشیں، میتیں، ان کے مجسمے، تاج و تخت دیکھنے کے لیے یعقوب کو قاہرہ کا عجائب گھر دیکھنا ضروری تھا ۔ یوں بھی ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ دیکھا تو سمجھیں کہ کچھ نہیں دیکھا۔ چنانچہ اگلے دن وہ اپنے دوستوں کو لے کر وہاں بھی ہو آئے۔ یہ عجائب گھر شہر کے مرکزی چوک التحریر میں ہے۔ اس کی دوسری منزل پر عبرت کا بہت سامان ہے۔

اب یعقوب نظامی کو ’’حضرت موسیٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے‘‘ وادیٔ سینا جانا تھا۔ اس سفر کا آغاز صبح سویرے ہوا۔ مصری ٹیکسی ڈرائیور جو پہلے روز سے ان کے ساتھ تھا وہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو لے کر سوئز کی طرف روانہ ہوا۔ جلدی ہی آبادی سے نکل کر صحرا میں پہنچ گئے۔ سوئز سٹی سے نہر کے نیچے سرنگ سے صحرائے سینا پہنچ گئے اور بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف سفر کرنے لگے۔ عین موسیٰ میں ذرا رکے پھر حمام فرعون پہنچ گئے۔ اب سفر صحرائی پہاڑوں کے درمیان تھا۔ فیصلہ ہوا کہ رات شرم الشیخ میں گزاری جائے اور صبح تازہ دم ہوکر جبل موسیٰ پہنچا جائے تاکہ کوہ طور پہاڑ پر چڑھ سکیں۔ شرم الشیخ سیاحت کا مرکز ہے۔ بازار، ساحل، تفریح کے لیے بہت جگہیں ہیں۔

نظامی اور ان کے ساتھی بھی ان سے لطف اندوز ہوئے۔ اس شہر میں ہوٹل سب یہودیوں کے تھے مسلمانوں کا کوئی نہیں۔ چنانچہ وہیں ٹھہرے مگر آزردہ رہے۔

رات گزری، صبح ہوئی۔ یعقوب لکھتے ہیں ’’آج کا دن بڑا متبرک تھا۔ آج مجھے ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا جن کا بڑا محترم مقام ہے۔ جبل موسیٰ کو دیکھنے اور اس مقام پر چل کر جانے کی حسرت ایک زمانے سے دل میں انگڑائیاں لے رہی تھی لیکن اس حسرت کو پورا کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ حائل ہوتی رہی تھی۔ آج اللہ تعالیٰ نے تمام رکاوٹیں دور کردی تھیں۔‘‘

شرم الشیخ سے کوہ طورکا فاصلہ دو سوکلومیٹر تھا۔ اس مقام کی کشمکش انھیں کھینچے لیے گئی۔ راستے میں حضرت صالحؑ کا مزار آیا، حاضری دی۔ آگے بڑھے سامنے پہاڑوں کے دامن میں سینٹ کیتھرائن کی عمارت نظر آئی۔ وادی طویٰ میں یہ عمارت اسی مقام پر تعمیر ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ کو ایک چنگاری نظر آئی تھی اور پھر اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ سامنے جو پہاڑ تھا وہ وہی تھا جس پر اللہ نے حضرت موسیٰ کے اصرار پر اپنی تجلی دکھائی تھی اور وہ غش کھا کر گر پڑے تھے۔

یعقوب نظامی خوش قسمت تھے، وہ پہاڑ پر چڑھے اور سب سے پہلے چوٹی پر انھوں نے قدم رکھا۔ ان کے ساتھی ان کے بعد وہاں پہنچے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔