بلوچستان، تعلیم دہشت گردوں کے نشانے پر

محمد منور خان ترین  پير 18 فروری 2013
تعلیم جیسے شعبے میں وفاق  کے کردار کو نہیں نکالا جا سکتا۔ فوٹو : فائل

تعلیم جیسے شعبے میں وفاق کے کردار کو نہیں نکالا جا سکتا۔ فوٹو : فائل

موجودہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے تعلیمی نظام کو اصلاحات اور نصاب کی نئے دور سے ہم آہنگی  نہایت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ سیاسی، سماجی، ماحولیاتی اور ثقافتی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے تغیرات سے بہ حسن وخوبی عہدہ برآ ہوا جا سکے۔

ملک میں امن وامان کی صورت حال مخدوش ہے، عام آدمی سخت عدم تحفظ کا شکار ہے۔ دہشت گرد تعلیمی اداروںِ، اساتذہ اور طالب علموں کی بھی جاں بخشی کو تیار نہیں۔ کہیں اسکول تباہ کیے جارہے ہیں تو کہیں اساتذہ کو ہدف بنا کر قتل کیا جا رہا ہے، کہیں طالب علموں کی جان خطرے میں ہے۔ صرف بلوچستان میں 200 سے زاید قابل اساتذہ کرام کو قتل کیا جا چکا ہے۔

دہشت گردی کے واقعات نے تعلیم کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ بالخصوص بلوچستان میں امن وامان کی سنگین صورت حال نے مخدوش انفرااسٹرکچر کی بھی کسر نکال دی ہے۔ صوبے میں تعلیمی نظام سیاسی مداخلت، بدعنوانی، اساتذہ کی غیر حاضری، گھوسٹ اسکولوں جیسے مسائل سے دوچار ہے۔

ایک صاف ستھرا، پرامن تعلیمی وتدریسی ماحول کے لیے لازمی ہے کہ معاشرتی و سماجی اور ریاستی ماحول بھی پرامن ہو تاکہ ہمارے طلبہ و طالبات، نوجوان ایسے پرسکون ماحول میں تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھ سکیں، تاکہ امن کو فروغ حاصل ہو۔

٭تعمیر امن اور معاشرتی یک جہتی کے لیے لازمی ہے کہ ملکی سطح پر ازسرنو پالیسی مرتب کی جائے اور تمام طبقہ فکر اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے شامل کی جائے۔

٭اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگرچہ تعلیم صوبوں کا معاملہ ہے، اس لیے صوبوں کو اس ضمن میں واضح حکمت عملی طے کریں، جب کہ تعلیم جیسے اس شعبے میں وفاق  کے کردار کو نہیں نکالا جا سکتا۔ ہر چند کے صوبے خود مختار ہیں لیکن تعلیم ایسا شعبہ ہے جس میں وفاقی اکائیوں میں کچھ مشترکہ چیزیں طے ہونی چاہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ قومی یک جہتی کے لیے مزید نقصان کا باعث بنے۔

٭ضلعی سطح پر تمام تعلیمی اداروں کے لیے ایک الگ سکیورٹی کا نظام متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں حکومت، سکیورٹی ایجنسیوں کا واضح کردار ہو، تعلیمی اداروں کو ہر وقت سکیورٹی حاصل ہو تاکہ طلبا کو تحفظ حاصل ہو۔

٭تعمیر امن، خدمت خلق اور معاشرتی یک جہتی جیسے امور کو  نصاب میں زیادہ جگہ دی جائے۔

٭معیاری تعلیم کے حصول کے لیے پرائمری سطح پر مادری زبان کو متعارف کرایا جائے تاکہ بچوں کی پرورش اور تربیتی کردار میں مشکلات دور ہو سکیں، اور ابتدائی جماعتوں میں وہ تیزی سے اپنے تصورات واضح کرتے ہوئے سیکھنے کے عمل کوتیز کر سکیں۔

٭ ضلعی سطح پر تعلیم کی بہتری اور پرامن تعلیمی ماحول کے لیے جائزہ و نگران کمیٹیوں کی تشکیل ہونی چاہیے جس میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں، ماہرین تعلیم اور انتظامیہ کے نمائندے شامل ہوں جو کسی بھی مصلحت سے آزاد ہو کر خالصتاً تعلیم کے مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھیں۔

٭اساتذہ اور والدین کی مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان کا دائرہ اختیار بڑھایا جائے۔

٭ انتہا پسندی کی یلغار سے بچنے کے لیے مختلف مذاہب، مختلف طبقہ فکر کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی اور پرامن بقائے باہمی کے لیے اسلامی نقطہ نظر انسانیت اور انسانی فلاح کی ترجیحات، مثبت یکسوئی سوچ کے لیے اسکول، مدرسہ اور تعلیم کو بنیادی عنصر کے طور پر استعمال کرنا ہوگا۔

٭ہماری درسی کتب موجودہ تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور ترجیحی بنیادوں پر معاشرے اور مختلف طبقات میں برداشت، صبر و تحمل کی خصوصیات کے فروغ کے لیے تعلیمی درسگاہوں میں مثبت اور اعتدال پسند رجحانات کو ترجیحات میں شامل کروانا ہوگا۔

اس طرح ملک بھر میں نہ صرف قومی یک جہتی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے بلکہ دہشت گردی اور عدم برداشت سمیت دور جدید کے مسائل کے حل کے لیے بھی خاطر خواہ معاونت مل سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔