پڑھائی کا بڑھتا ہوا دباؤ

نسرین اختر  پير 18 فروری 2013
متواتر اور سخت تعلیمی معمولات طلبا کو زچ کردیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

متواتر اور سخت تعلیمی معمولات طلبا کو زچ کردیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھائی میں اچھا ہو، بلکہ اپنی کلاس اور اپنے جاننے والے بچوں میں بھی سب سے بہتر ہو، گریڈ ون حاصل کرتا ہو اور خوب فر فر انگریزی بولتا ہو۔

اپنی اس خواہش کے حصول کے لیے والدین اپنے بچوں کو منہگے منہگے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں، جہاں بچوں پر کتابوں کا خوب بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور نصاب کے نام پر انگریزی میں موٹی موٹی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے ٹیوشن سینٹرز یا کوچنگ سینٹرز جانا پڑتا ہے۔ اسکول میں آدھا دن گزارنے کے بعد شام کو بچے پھر ٹیوشن سینٹر چلے جاتے ہیں، یوں ان پر تعلیم کا اچھا خاصا بوجھ پڑ جاتا ہے۔

والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور رشتے کے دیگر بہن بھائیوں میں سب سے نمایاں رہے، والدین کی خواہش کے پیش نظربچے بھی زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول کے لیے خوب کوششیں کرتے ہیں، جب کہ اس وقت وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے اور مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سیکھ رہے ہوتے ہیں، تاکہ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں، مگر اسکول میں ان پر کلاس ورک کا دباؤ ہوتا ہے تو گھر میں ہوم ورک تعاقب کرتا رہتا ہے، اگر کوچنگ یا ٹیوشن کا سلسلہ ہے تو صورت حال اور بھی گمبھیر ہوجاتی ہے۔

اس طرح بعض اوقات ان کا متواتر تعلیمی سلسلہ انہیں بہت زیادہ زچ کر دیتا ہے اور وہ پڑھائی میں مصروف ہو کر زندگی کی دوسری ضروری باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، مثلاً اپنے کھیل کود اور معلوماتی کتابیں اور بچوں کے رسالے پڑھنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ پڑھائی کے بوجھ تلے وہ کھیل کود اور دیگر مثبت سرگرمیوں سے دور ہو جاتے ہیں اور ہم عمر بچوں سے گھلنے ملنے سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ہم جولیوں سے دور رہنے کے باعث ان میں بہت سی معاشرتی اقدار کم زور رہ جاتی ہیں۔ اس طرح بچے اپنے معمولات میں بندھ کر باہر کی دنیا سے بھی روشناس نہیں ہو پاتے۔

پڑھائی کے دباؤ کے ساتھ ساتھ بچے روزانہ بھاری بھاری بستے اسکول لے کر جاتے ہیں، دیگر ممالک بچوں کے اس مسئلے کے حل کے لیے انہیں اسکول میں ہی لاکرز فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ بچے ان میں اپنی کتابیں وغیرہ رکھیں اور روزانہ گھر سے بھاری بستہ لانے کی زحمت سے بچ سکیں۔ وہ اپنے ساتھ صرف ہوم ورک والی کاپیاں اور ایک دو ضروری چیزیں ہی گھر لے کر جاتے ہیں، مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے ۔ اسکول میں لاکرز فراہم کرنا تو دور کی بات، کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ بھی کم کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی، حالاں کہ معیاری تعلیم کے لیے وزنی کتب کا ہونا ضروری نہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کو گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں سے بھی ٹھیک طرح سے لطف اندوز نہیں ہونے دیا جاتا اور چھٹیوں کے دوران بھی ان کو بہت سا ہوم ورک دے دیا جاتا ہے۔ بے شک ہوم ورک ضروری ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ بچے اسے اپنے لیے بہت بڑی مشکل سمجھنے لگیں۔

چھٹیوں کے دوران ہوم ورک کے ساتھ ساتھ بچوں کو دیگر باتوں کے لیے بھی وقت ملنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی چھٹیوں سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں۔ اگر ان پر عام دنوں کی طرح دباؤ برقرار رہے تو چھٹیوں کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔

بچوں پر سے پڑھائی کا دباؤ ختم یا کم کرنے کے لیے  ان کے ہوم ورک میں کمی کی جا سکتی ہے، ان کے پاس لکھنے کا جتنا بھی کام ہے وہ ان کو اسکول میں ہی پورا کرائیں، اس طرح بچوں کے پاس گھر میں صرف مطالعے کا کام رہ جائے گا اور ان کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ اپنی دل چسپیوں میں کچھ وقت گزار سکیں۔

جب ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا جائے گا تو بچہ زیادہ بہتر طریقے سے سیکھے گا اور اس طرح سیکھی گئی چیز اس کے حافظے میں زیادہ بہتر طریقے سے محفوظ رہ سکے گی، اس لیے بچوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ جو کچھ پڑھیں اسے ذہن نشین کریں، جو بات مشکل لگے اسے پوچھیں اور پھر اس کی مشق کریں۔ جیسے ہم ہمیشہ حساب کو سیکھتے ہیں اور اس کی مشق کرتے ہیں لہٰذا یہ ہمارے ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہتا ہے، ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے اس کا رٹّا نہیں لگایا بلکہ اس کے طریقۂ کار کو سیکھا اور سمجھا۔ بچے کسی بھی سبق کو رٹ کر یاد تو کر لیں گے مگر زیادہ دنوں تک ذہن میں نہیں رہے گا۔ بغیر سمجھے رٹنے سے بھی بچوں کے ذہنوں پر بوجھ پڑتا ہے، لہٰذا بچوں کو اسکول میں اور گھر میں یہ بات سمجھائی جائے کہ جو کچھ پڑھنا ہے اسے سمجھ کر پڑھنا اور یاد کرنا ہے۔

بچوں پر سے دباؤ جتنا کم ہوگا اتنا ہی ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں اجاگر ہوں گی۔ بچے پڑھائی بھی کریں، کھیلیں کودیں بھی اور دیگر سرگرمیوں میں بھی خود کو مصروف رکھیں تاکہ زیادہ بہتر سیکھ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔