قدیم اور جدید برلن

عارف محمود کسانہ  جمعـء 22 ستمبر 2017
 شہر کے میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہدِ ماضی کو اس انداز سے دکھا رہے ہیں کہ جیسے 
 ہم خود اُس دور کا حصہ ہوں۔ فوٹو: عارف محمود کسانہ

شہر کے میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہدِ ماضی کو اس انداز سے دکھا رہے ہیں کہ جیسے ہم خود اُس دور کا حصہ ہوں۔ فوٹو: عارف محمود کسانہ

برلن، جرمنی کا دارالحکومت اور پینتیس لاکھ آبادی والا سب سے بڑا شہر ہے جو قدیم و جدید دونوں انداز کے ساتھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس شہر کی سیاحت کےلئے ہم نے زمینی راستہ اختیار کیا اور سویڈن کے دارالحکومت سے تقریباً چودہ سو کلومیٹر کا سفر کرکے یہاں پہنچے۔ کار کے ذریعے زمینی سفر کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے جس سے راستہ میں گزرتے ہوئے پورے خطّے کی سیاحت ہوجاتی ہے۔ کوپن ہیگن پہنچنے کےلئے ہمیں ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان بحیرہ بالٹک پر سولہ کلومیٹر طویل پل بھی عبور کرنا پڑا جس کا چار کلومیٹر حصہ زیرِ آب یعنی سمندر کے اندر ایک سرنگ (ٹنل) کی صورت میں ہے۔ کوپن پیگن سے 170 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے ڈنمارک کے ساحلی قصبہ روڈ بائے ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ اگلے روز وہاں سے فیری لی تاکہ جرمنی کے ساحلی شہر پُٹ گارڈن پہنچ سکیں۔ اٹھارہ کلومیٹر فاصلہ کوئی پون گھٹہ میں طے ہوا اور دورانِ سفر فیری میں مسافروں کی تفریح اور خریداری کےلئے ہر طرح کی سہولتیں موجود تھیں۔

پٹ گارڈن سے ہمیں چارسو کلومیٹر سفر طے کرکے جرمنی کے شہر برلن پہنچنا تھا۔ جرمنی میں کشادہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہاں کی موٹر وے کو ’’آٹوبان‘‘ کہتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک جال کی طرح پھیلی ہوئی اِس موٹر وے کے بہت سے حصوں میں کوئی حدِ رفتار نہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلانے والے یہاں اپنا شوق جی بھر کر پورا کرتے ہیں۔ سویڈن میں موٹر وے پر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار پر گاڑی نہیں چلائی جاسکتی اس لئے میری اہلیہ نے جرمن آٹوبان پر تیز رفتار گاڑی چلانے کا شوق پورا کیا اور 190 کلومیٹر فی گھنٹہ تک گاڑی چلائی۔ میری درخواست پر انہوں نے اِس سے زیادہ رفتار نہ بڑھائی۔ برلن جاتے ہوئے لہلاتے کھیت بھی دیکھنے کو ملے جن میں پنجاب اور سندھ کی جھلک نظر آئی۔ ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کی ضروریات بھی زیادہ ہیں اور جرمنی جیسے صنعتی ملک میں اور بھی زیادہ توانائی چاہیے، اِس لئے جابجا ہمیں بجلی پیدا کرنے والی چکیاں نظر أئیں جو ماحول دوست بھی ہیں۔

دریائے اسپرے کے کنارے واقع برلن شہر جرمنی کی عظیم تاریخ اور ماضی کا گواہ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد فاتح چار ملکی اتحادی افواج یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سویت یونین نے اسے چار زونز (علاقوں) میں تقسیم کرکے بانٹ لیا۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل حصہ مغربی جرمنی (Federal Republic of Germany) جبکہ سویت یونین کے ماتحت حصہ مشرقی جرمنی (German Democratic Republic) کہلایا۔ اسی طرح برلن شہر کو بھی مغربی اور مشرقی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ مشرقی جرمنی اور مشرقی برلن سے بہت سے لوگ کیمونسٹ طرز حکومت کی سختی اور دیگر جبری قوانین سے بچنے کےلئے مغربی جرمنی اور مغربی برلن کی جانب نقل مکانی کرنے لگے۔

مشرقی جرمنی کی حکومت نے یہ سلسلہ روکنے کےلئے مغربی جرمنی کے ساتھ اپنی 1400 کلومیٹر طویل سرحد کو ناقابل عبور بنادیا۔ مشرقی برلن سے مغربی برلن سرحد پار کرنے کی کوششوں کو ختم کرنے کے لئے 1961ء میں مشرقی جرمنی کی پولیس نے 155 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کردی، جس کا 43 کلومیٹر حصہ مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان تھا۔ دیوار برلن میں 302 واچ ٹاور تھے، گیارہ ہزار مسلح سپاہی دن رات اِس کی نگرانی کرتے تھے اور بلا اجازت عبور کرنے والوں کےلئے سزائے موت مقرر کردی۔ اِس جبری بندش کو مشرقی برلن کے باشندوں نے قبول نہ کیا اور دس ہزار سے زائد لوگوں نے اسے عبور کرنے کی کوشش کی لیکن نصف تعداد ہی اُس میں کامیاب ہوسکی جبکہ دو سو سے زائد افراد جان سے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی جرمنی کے گارڈ جو اسے عبور کرنے والوں کو روکنے کےلئے تعینات تھے، اُن میں سے 6 سو کے قریب خود مغربی جرمنی فرار ہوگئے۔

یہ جبری بند اور جرمن عوام کو تقسیم کرنے والی دیوار 9 نومبر 1989ء میں عوامی ریلے کے آگے منہدم ہوگئی اور دونوں حصے آپس میں پھر سے مل گئے۔ یہ اِن غاصب قوتوں کےلئے بھی پیغام ہے جنہوں نے جموں و کشمیر اور دنیا کے کچھ اور علاقوں میں عوام کو دیوارِ برلن جیسی رکاوٹوں اور جبر کی دیواروں سے منقسم کر رکھا ہے؛ اور وہ پیغام یہ ہے کہ زیادہ عرصہ لوگوں کو غیر فطری طور پر ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی شہر میں اردو ادب کی ترویج و اشاعت کےلئے ربع صدی سے ایک تنظیم ’’بزم ادب قائم‘‘ ہے جس کے جنرل سیکریٹری سرور غزالی ہیں۔ وہ صاحب طرز ادیب اور منفرد اسلوب کے حامل افسانہ نگار بھی ہیں جن کی کتب ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیوار برلن کے انہدام والے دن سب جرمن باشندے گھروں سے نکلے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑا یا توڑنے والی کوئی چیز تھی۔ اس طرح عوامی ریلے کے آگے وہ دیوار زیادہ دیر نہیں ٹھہرسکی۔

اب دیوار برلن کا تھوڑا سا حصہ باقی رہنے دیا گیا ہے جسے ’’ایسٹ گیلری‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جس پر دنیا بھر کے مصوروں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ مصوروں نے بہت دلچسپ انداز میں اپنے فن کا اظہار کیا ہے اور دیوار پر نقوش ونگار بنا کر اسے ایک آرٹ گیلری میں تبدیل کردیا ہے۔ زیادہ تر مصوروں نے امن، بھائی چارے اور جبری تقسیم کے خلاف تصاویر بنائی ہیں۔ ایسٹ گیلری کا یہ علاقہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے اور ساتھ ہی دریا کے کنارے کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہتی ہے۔ برلن کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت بہت شاندار ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ منقسم برلن میں یہ ریلوے اسٹیشن سرحد کا کام دیتا تھا۔

برانڈنبرگ گیٹ اِس شہر کی پہچان ہے اور یہاں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ بابِ فتح اٹھارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ اسے شہر کے مرکزی دروازے کی حیثیت حاصل تھی۔ یونانی فن تعمیر کا یہ شاہکار تین محرابوں پر مشتمل گیٹ ہے جس پر فتح کی دیوی ایک ہاتھ میں چار ببر شیروں کی لگامیں تھامے کھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ میں صلیب کا نشان جس کے اوپر عقاب ایک شان سے بیٹھا ہوا ہے۔ نپولین نے جب برلن پر حملہ کیا تھا تو وہ اس مجسمے کو اٹھا کر لے گیا تھا لیکن بعد میں اسے دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کردیا گیا۔

منقسم جرمنی کے دور میں یہ علاقہ غیر تھا اور یہاں کسی کو پر مارنے کی بھی جرأت نہ تھی لیکن اب یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ جب دیوار برلن تعمیر ہوئی تو یہ گیٹ اُس کی ایک راہداری کا حصہ بن گیا لیکن اب یہ جرمنی کے اتحاد اور وقار کی علامت ہے۔ یہاں کی کشادہ سڑکیں اور وسیع علاقہ جرمنی کی قدیم و جدید تاریخ کا گواہ ہے۔ اِس دروازے کے ساتھ ہی بہت سی اور تاریخی عمارتیں بھی ہیں جو قابلِ دید اور فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔

دیوار برلن اور برانڈنبرگ گیٹ کے علاوہ یہاں ٹی وی ٹاور، آرٹ اکیڈمی، برلن کیتھیڈرل، ہٹلر کا آخری بنکر، پارلیمنٹ ہاؤس اور دوسری اہم تاریخی عمارتیں ہیں۔ جرمنی کی تاریخ خصوصاََ جنگ عظیم دوم کے دور میں ہونے والے اہم واقعات کی یاد میں شہر میں بہت سی یادگاریں اورمجسمے ہیں۔ برلن وکٹری کالم بھی شہر کی سیاحت کرنے والوں کا ایک اہم مرکز ہے۔ اہم سڑکوں کے درمیان ایک گول چکر کے اندر77 میٹر اونچے مینار پر وکٹوریا کا سنہری مجسمہ یہاں سے ہر گزرنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے۔ یہ مینار انیسویں صدی میں بریشیا (قدیم جرمنی) کی فرانس، آسٹریا اور ڈنمارک سے ہونے ہونے والی جنگوں میں فتح کی یاد میں بنایا گیا ہے اور دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے کوئی نقصان نہ پہنچا۔ ساتھ ہی سڑک کی ایک جانب اُس دور کے فیلڈ مارشل ہیلمتھ بیرن ہارڈ مولتکے کا مجسمہ ہے۔

اگر وقت ہو تو شہر کے میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہدِ ماضی کو اس انداز سے دکھا رہے ہیں کہ جیسے ہم خود اُس دور کا حصہ ہوں۔ کئی سیاح مادام تساؤ کے مومی مجسمہ گھر کا بھی رخ کرتے ہیں۔ (واضح رہے کہ مادام تساؤ کے مومی عجائب گھر کی شاخیں مختلف یورپی شہروں میں قائم ہیں۔) خواتین اور بچے ساتھ ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خریداری مرکز کا دورہ نہ کیا جائے۔ برلن کے نواح میں واقع آؤٹ لیٹ میں سب نے جی بھر کر خریداری کی، جہاں اشیاء کی قیمتیں بہت مناسب اور سویڈن سے خاصی کم تھیں۔ ان طویل مصروفیات کے بعد ہوٹل میں وہ نیند آئی کہ بمشکل ناشتے سے پہلے اٹھ سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔