پی ٹی سی ایل پنشنرز: جائیں تو جائیں کہاں؟

خرم علی راؤ  بدھ 1 نومبر 2017
بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات کے سامنے پی ٹی سی ایل پنشنرز کو صرف چند ارب روپے کی ادائیگی بہت معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات کے سامنے پی ٹی سی ایل پنشنرز کو صرف چند ارب روپے کی ادائیگی بہت معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وطنِ عزیز میں شعبوں کی دگرگوں صورتحال کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ حق کا نہ ملنا بھی ہے۔ اپنے حق کےلیے لڑنے اور جدوجہد کرنے کو جہاد کہا گیا ہے۔ آج کچھ بات پی ٹی سی ایل (PTCL) کے ان 40 ہزار سے زائد پنشنرز کی ہوجائے جو پچھلے کئی برسوں سے اپنے حق کےلیے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جسے وہ جیت جانے کے بعد بھی شکست خوردہ ہیں۔

اس قصے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب پی ٹی سی ایل کو نجی ملکیت میں دیا گیا تھا تو معاہدے کے مطابق حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پر وفاقی حکومت کے تمام سروس اینڈ پنشن قوانین کا منصفانہ اطلاق ہونا تھا۔ واضح رہے کہ پرائیویٹائزیشن کا عمل 1996 میں ہوا تھا۔ شروع میں معاملہ ٹھیک چلا اور ہر سال بجٹ میں اعلان کردہ پنشن میں اضافہ ان ریٹائرڈ ملازمین کو دیا جاتا رہا جو اس معاہدے کے تحت آتے تھے۔ پھر یکایک ہماری وزارتِ خزانہ میں بیٹھے بابوؤں کو بچت کا خیال آیا اور بجلی گری ان بیچارے ضعیف و ناتواں بزرگوں اور بیواؤں پر جن کےلیے پنشن ایک بہت بڑا سہارا ہوتی ہے۔ جب سے اب تک پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کو صرف 8 فیصد سالانہ اضافہ ملتا ہے جبکہ دیگر محکموں کے ملازمین کو حکومتی بجٹ میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دیا جاتا ہے۔

پنشنرز نے سارے پاکستان میں آپس میں رابطے کرکے ایک ’’پی ٹی سی ایل پنشنرز ایکشن کمیٹی‘‘ بنائی اور سو سو روپے کا چندہ جمع کیا۔ پھر ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا جس کا اختتام 2014 میں معزز عدالت عظمی کے فیصلے پر ہوا جس میں پی ٹی سی ایل کے اضافے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو اضافہ دینے اور گزشتہ برسوں کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ حکومت اپیل میں گئی اور فیصلہ برقرار رہا۔ دوسری نظرثانی اپیل بھی خارج کردی گئی۔

اب موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرکے عملی طور پر فیصلے پر عمل نہیں کررہی ہے۔ کبھی پیسے نہ ہونے کا بہانہ، کبھی جلد از جلد عمل کی طفل تسلی، کبھی کوئی اور نوکر شاہی تاخیری حربہ۔ لوگوں کو امید تھی کہ اگر واجبات اور بقایہ جات مل گئے تو ان کے بہت سے کام بن جائیں گے۔ کسی کو بچوں کی شادی کرنا ہے، کسی کو حجِ بیت اللہ کا ارمان ہے تو کوئی ذاتی گھر لینا چاہتا ہے جو ان سب کا حق بھی ہے۔ کئی لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے لواحقین منتظر ہیں کہ کب ان کا حق انہیں ملے گا؛ اور ملے گا بھی کہ نہیں!

وطنِ عزیز میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات اظہر من الشمس ہیں۔ کیا چند ارب روپے ان کےلیے نہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اس ملک اور محکمے کی خدمت میں صرف کیا اور جو اپنا ایسا حق مانگ رہے ہیں جسے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی تسلیم کر چکی ہے۔ کیا یہ بزرگ، یہ بیوائیں، یہ ناتواں افراد کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟ کیونکہ معاملہ زیادہ سنسنی خیز نہیں اور دیگر معاملات بہت اہم ہیں اس لئے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بھی کبھی کبھار برکت کےلیے ان چالیس ہزار لوگوں کے تسلیم شدہ حق کے بارے میں کوئی خبر لگا دیتا ہے۔ بس سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تھوڑی بہت ہلچل نظر آتی ہے۔

مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ ان ہزاروں لوگوں اور ان سے جڑی لاکھوں امیدوں کا خیال کریں ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ یاد رہے کہ ربِ جلیل فرماتا ہے کہ میں مظلوم کی فریاد ضرور سنتا ہوں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ تو بہتر یہی ہے کہ معاملہ جلد ہی نبٹا دیا جائے وگرنہ ربِ جلیل کا امر حرکت میں آگیا تو ذمہ داران کو جائے پناہ ملنا مشکل ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔