شریف خاندان کیخلاف تینوں نیب ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

ویب ڈیسک  منگل 7 نومبر 2017
تینوں کیسز کا دفاع اور گواہان ایک جیسے ہیں لہذا ٹرائل بھی ایک ہی ہونا چاہیے، وکیل ملزمان فوٹو: فائل

تینوں کیسز کا دفاع اور گواہان ایک جیسے ہیں لہذا ٹرائل بھی ایک ہی ہونا چاہیے، وکیل ملزمان فوٹو: فائل

 اسلام آباد: احتساب عدالت نے شریف خاندان کیخلاف تینوں نیب ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف، بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر مالی بدعنوانی سے متعلق نیب ریفرنسز کی سماعت کے لیے احتساب عدالت میں پیش ہوگئے۔  شریف خاندان کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ملزمان کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل  ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

دوران سماعت وقفہ ہوا تو عدالت نے نواز شریف کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے ریفرنسز یکجا کرنے سے متعلق اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ تینوں کیسز کا دفاع ایک جیسا ہے اور گواہان بھی ایک جیسے ہیں، لہذا تینوں ریفرنسز کو اکٹھا کرکے ایک ہی مقدمہ اور ایک ہی ٹرائل کیا جائے۔

شریف خاندان کی پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر موجود رہی۔

سابق وزیراعظم نے گزشتہ سماعت میں عزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں پچاس پچاس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرائے تھے۔ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تفصیلی فیصلہ نہ ملنے کے باعث سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی کر دی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں نیب ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق نوازشریف کی درخواست منظور کی ہے۔

اس خبرکو بھی پڑھیں: نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے لیے وطن واپسی

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما لیکس مقدمے میں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ نیب نے 8 ستمبر کو نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف لندن فلیٹس، آف شورکمپنیوں، عزیزیہ اسٹیل اور ہل میٹل کمپنی سے متعلق 3 مقدمات درج کیے۔

ان مقدمات میں نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے لگائی گئی ہے جو غیرقانونی رقوم اور تحائف کی ترسیل سے متعلق ہے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔