مرکے مٹی ہوجانے والے جانور پھر سے زندہ ہوں گے؟

نسیم کوثر  اتوار 6 جولائی 2014
فنا کے گھاٹ اترنے والی حیوانی نسلوں کی دنیا میں واپسی ہوئی تو وہ اس دنیا میں اپنے قدم جماسکیں گی؟۔ فوٹو: فائل

فنا کے گھاٹ اترنے والی حیوانی نسلوں کی دنیا میں واپسی ہوئی تو وہ اس دنیا میں اپنے قدم جماسکیں گی؟۔ فوٹو: فائل

جراسیک پارک (Jurassaic Park ) سیریز سے یقینا آپ واقف ہوں گے جس میں ہزاروں سال قبل معدوم ہوجانے والے ڈائنا سارز کی دوبارہ بحالی اور نسل کشی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

معدوم شدہ جانداروں کی بحالی اس فلم کی حد تک تو خواب ہی تھی تاہم اب اس خواب کوجلد ہی تعبیر ملنے والی ہے۔ جی ہاں! معدوم سپیشیز(حیوانی نسلوں) کو بحال کرنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ 30 جولائی 2003ء کو سپین اور فرانس کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے تاریخ کو اس وقت دہرایا جب انہوں نے معدوم ہوچکے ایک جانور کو نئی زندگی بخشی۔ بحال شدہ جانور بوکارڈو(Bucardo) نامی ایک جنگلی بکری تھی۔ اس کو سائنسی نام Pyrenaica،Pyrenaica،Capra دیاگیا۔ وہ ایک خوبصورت مخلوق تھی، اس کا وزن 220 پائونڈ کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا اورسر پر بل کھاتے لمبے سینگ۔

ہزاروں سالوں سے اس جانور کا مسکن جنوب مغربی یورپ کا پہاڑی سلسلہ کوہ پائرینیس(Pyrenees)تھا جو فرانس اور سپین کو جدا کرتاہے۔ یہاں یہ جانور سمندری ڈھلانوں پر چڑھائی کرتادکھائی دیاکرتاتھا۔ پودوں کی شاخیں اور پتے کترتاموسم سرما کی سختی برداشت کرتارہتاتھا۔ پھر بندوقیں ایجاد ہوگئیں اور شکاری کئی سالوں تک بوکارڈو کی آبادی کو بتدریج کم کرتے چلے گئے۔ 1989ء میں سپینی سائنس دانوں نے ایک جائزہ لیا، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ بوکارڈو کی تعداد صرف ایک درجن یا اس سے کم رہ گئی ہے۔ اگلے دس سال بعد پتہ چلا کہ اب صرف ایک بوکارڈو باقی بچا۔ یہ ایک مادہ تھی جسے سیلیا(Celia) کا نام دیا گیا۔

اسپین کے156.08مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے اورڈیسہ مونتے پرڈڈو نیشنل پارک کی ایک ٹیم نے جنگلی حیات کے ڈاکٹر البرٹو فرنانڈیز آریاز( Alberto Fernandez Arias ) کی سربراہی میں سیلیا کو پکڑا، اس کی گردن کے گرد ریڈیو کالر لگایا اور پھر دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیا۔ نو ماہ بعد ریڈیو کالر نے طویل سیٹی نماآواز کی شکل میں سگنل بھیجا کہ سیلیا مرچکی ہے۔ ڈاکٹر البرٹو فرنانڈیز آریاز اور ان کی ٹیم نے سیلیا کو ایک زمین بوس درخت کے نیچے کچلا پایا۔ اس کی موت کے بعد سرکاری طورپر اعلان کردیاگیا کہ بوکارڈو کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔

مگر سیلیا کے سیلز (خلیئے) جوکہ سپین کے شہروں ساراگوسا( Zaragoza) اور میڈرڈ( Madrid) کی لیباٹریوں میں محفوظ تھے، زندہ رہے۔ اگلے چند برسوں میں نظام تولید کے فزیالوجسٹس کی ایک ٹیم نےJose Folch کی سربراہی میں اپنے ڈی این اے سے محروم بکری کے انڈوں کے سیلز میں سیلیا کے سیلز کے نیوکلیئس میں داخل کیے پھر ان انڈوں کو سروگیٹ مدرز (ایسی مادہ جس کی بچہ دانی میں کسی دوسری مادہ کے بارآور کئے ہوئے بیضے کومنتقل کرکے بچہ پیداکیاجائے) کی بچہ دانیوں میں لگا دیا۔ ستاون ایسے انڈے رکھنے والی سروگیٹ مدرز میں سے صرف سات حاملہ ہوپائیں۔ ان میں سے بھی چھ اسقاط حمل سے دو چار ہوگئیں۔

صرف ایک مادہ جوکہ ہسپانوی Ibex اور Goat کی دوغلی نسل تھی، سیلیا کے کولون کے ساتھ صحیح سلامت رہی۔ فولک (Folch) اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سیزیرن آپریشن کے دوران 4.5 پائونڈز کے ایک کولون کی پیدائش ہوئی جیسے ہی ڈاکٹرفرنانڈیز نے اس نومولود جانور کو اپنی گود میں اٹھایا اسے محسوس ہوا کہ وہ سانس لینے میں مشکل محسوس کررہی ہے۔ اس کی زبان اس کے منہ سے باہر لٹک رہی تھی۔ اگرچہ اسے بچانے کی بہت کوشش کی گئی مگراپنی پیدائش کے صرف دس منٹ بعد سیلیا کی کولون مرچکی تھی۔ پوسٹ مارٹم کے دوران یہ بات سامنے آئی کے اس کے پھیپھڑوں میں سے ایک میں بڑی سی ا ضافی لوب پروان چڑھ گئی تھی جو جگر کے ٹکڑے جتنا مضبوط عضو تھی۔اب کوئی کچھ نہ کرسکتا تھا۔

معدوم سپیشیز کو دوبارہ زندگی بخشنے والا یہ انوکھا خیال جسے بعض اوقات De-extinction بھی کہا جاتا ہے دو عشروں تک حقیقت اور سائنسی فکشن کی لکیر کے درمیان جھولتا رہا۔حتی کہ ناول نگار مائکل کرکٹن کی کتاب ڈائناسارز آف جوریسک پارک منظر عام پر آنے تک معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کا خوش نما سائنسی تصور ممکنات کی حدوں کے اُس پار گم رہا مگر سیلیا کے کولون کی پیدائش معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے اجراء کی مضبوط دلیل کے طور پر سامنے آئی۔

سیلیا کولون کی چند منٹوں پر محیط زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ڈاکٹر البرٹو فرنان ڈیز جو اب سپین سے ملحق ایک خودمختار ریاست اراغون کے ہنٹنگ فشنگ اینڈ ویٹ لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن چکے ہیں، اس لمحے کے انتظار میں ہیں جب اس سائنسی خواب کی حقیقی تعبیرسامنے ٓئے گی یعنی انسان معدوم حیوانی نسلوں کی بحالی کے قابل ہوجائے گا ۔ حضرت انسان کو نہیں بھولنا چاہئے کہ وہی ان جانوروں کی نسل کی معدومی کا سبب بنا۔ ڈاکٹرفرنانڈیز کو پورا یقین ہے کہ وہ ان معدوم نسلوں کو واپس دنیا میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے تیقن سے کہتے ہیں ’’ہم اپنے خواب کی تعبیرپانے والے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’ سائنس دان اس معاملے میں بہت پر جوش ہیں اور وہ سب اس بات پر متفق دکھائی دے رہے ہیں کہ معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک اب قابل حصول شے ہے‘‘۔

جراسک پارک میں ڈائنا سارز محض تفریحی نقطہ نظر کے تحت دوبارہ وجود میں آتے دکھائے گئے۔ اس کے تباہ کن نتائج نے معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے خیال کو ماند کردیا لیکن لوگ یہ بھول گئے کہ جراسک پارک صرف ایک تصور تھا۔ حقیقت میں صرف وہی سپیشیز بحال کی جاسکتی ہیں جو چند ہزار سال پہلے معدوم ہوئی ہیں اور کم از کم کچھ سیلزکسی نہ کسی صورت میں محفوظ چھوڑ گئیں تاکہ ان کے ڈی این اے کو نئی مخلوق کے جینوم (کسی نامی جسم کا تولیدی مادہ جسے انگریزی زبان میںGenome کہاجاتاہے) کی تیاری میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکے۔

سڑنے کے قدرتی عمل کی وجہ سے ہم یہ امید کبھی نہیں کرسکتے کہ جراسک پارک کے 65 ملین سال پہلے معدوم ہونے والے ڈائناسارزکے جینوم کو دوبارہ تیار کیا جاسکتا ہے۔نیویارک میں واقع امریکن میوزیم آف نیشنل ہسٹری میں شعبہ ممالوجی کے سربراہ میک فی(MacPhee) کہتے ہیں:’’اگر ہم ان سپیشیز کی بات کریں جن کے معدوم ہونے کے موجب ہم ہیں، تو میرا خیال ہے کہ ان کی بحالی کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ یونیورسٹی آف نارتھ سائوتھ والز کے پیلینٹولوجسٹ مائیکل آرکر کہتے ہیں:’’ کچھ لوگ یہ واویلا کرتے ہیں کہ معدوم سپیشیز کی بحالی خدا سے کھیلنے کے مترادف ہے‘‘۔ مائیکل آرکر یہ بات کہہ کر خوب ہنسے اور پھر کہا:’’میرا خیال ہے ہم خدا کے ساتھ تب کھیلے تھے جب ہم نے ان جانوروں کا قلع قمع کیا تھا‘‘۔

معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے نظریے کی حمایت کرنے والے ہمارے سائنس دان یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس کے ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔ بائیولوجیکل ڈائیورسٹی قدرتی ایجادات اور تخلیق کے لیے سٹور ہائوس کا کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر فارما سوئٹیکل ادویات کسی حادثے میں نہیں بنی تھیں بلکہ یہ جنگلی پودوں میں پائے جانے والے قدرتی مرکبات سے حاصل کی گئیں۔ یہ پودے بھی اب معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

دوسری طرف کچھ معدوم شدہ جانوروں نے اپنے ایکو سسٹم میں نہایت اہم کردار ادا کیے جن کو اب دوبارہ حاصل کرنا مقصود ہے۔ مثال کے طور پر سائبیریا 12000 سال پہلے جُسام(خاصے طویل اور خم دار دانتوں والے ہاتھی انگریزی زبان میںMammoths کہاجاتاہے) سمیت دیگر بڑے میملز کا مسکن تھا۔ جُسام اور دیگر چرنے والے جانوروں نے اپنے فضلات کے ذریعے اور مٹی کی توڑ پھوڑ کے ذریعے اس چراگاہ کو برقرار رکھا مگر جب وہ معدوم ہوگئے توموسیز نے چراگاہ پر قبضہ جمانا شروع کردیا اور جلد ہی چراگاہ آہستہ آہستہ کم پیداواری ٹنڈرا (Tundra) میں تبدیل ہوگیا۔

اگرچہ حالیہ سالوں میں ٹنڈرا پر پرانا وقت لانے کے لیے کوشش کی گئی ہے۔ گھوڑے، مشکی بیل (Muskoxen) اور دیگر بڑے ممالیہ کو لاکر بسایا گیا مگراونی کھال والے جُسام کی دوبارہ آمد تک یہ کام مشکل معلوم ہوتا یے۔تاہم اس کے لیے بڑا وقت درکار ہے شاید ہمارے پوتے، پڑپوتے ہی دیکھ سکیں گے کیونکہ چوہے کا تولیدی عمل خاصا تیز ہوتا ہے لیکن بوکارڈو بہت سست رفتاری سے تولید کرتے ہیں۔ اس لئے انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ڈاکٹر البرٹو فرنانڈیز کی بوکارڈو کو واپس لانے کی یہ کوشش ڈولی کی پیدائش کے محض سات سال بعد کا واقعہ ہے ، اس واقعے کو بیتے ہوئے بھی تقریباً دس سال گزر چکے ہیں۔ ان دس سالوں میں سائنس دان کلوننگ ٹیکنالوجی سے حساس سائنسی پروجیکٹ اور پر خطر سائنس کو کاروباری فعل کے طور پر متعارف کراکے جانوروں کی کلوننگ میں بہتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ریسرچرز جانور کے پختہ سیلز کو ایمبریونما حالت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ایمبریو کی حالت میں تبدیل ہونے والے یہ سیلز، سپرمز یا انڈے میں سے کسی میں بھی نمو پانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ انڈوں میں تبدیل ہونے کی صورت میں یہ سیلز مزید نشوونما پاکر ایک مکمل جاندارکے ایمبریو میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کی فنی مہارتوں کے ذریعے معدوم سپیشز کو زندگی بخشنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔

سائنس دان اور سیاح عشروں تک جُسام کو واپس لانے کی باتیں کرتے رہے۔ سائبیرین ٹینڈرا میں محفوظ شدہ جُسام کا حصول ان کی پہلی اور اب تک کی اکلوتی کامیابی ہے۔ لہٰذا اب جدید کلوننگ ٹیکنالوجیز سے لیس ریسرچرز جن کا تعلق سیول (جنوبی کوریا) میں قائم سوام بائیوٹیک ریسرچ فائونڈیشن سے ہے، سائبیرین سٹی کی نارتھ ایسٹرن فیڈرل یونی ورسٹی کے جُسام ماہرین کے ساتھ گروپ بناچکے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں انہوں نے روس میں واقعی دریائے یاناکے ساتھ علاقے کا سفر کیا، دریا کے ساتھ ساتھ برفانی ڈھلانوں میں سرنگیں کھودیں۔ ان سرنگوں میں سے ایک میں انہیں جُسام کے ٹشوز کے ٹکڑے ملے جن میں بال، جلد، بون میرو اور فیٹس بھی شامل تھے۔

یہ ٹشوز اب سیول میں موجود ہیں، جہاں سائنس دان ان کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ دریائے یانا کی مہم کے منتظم انسنگ ہوانگ کہتے ہیں۔ اگر ہم اس کے بارے میں کچھ امید رکھیں تو کسی زندہ سیل کا ملنا بہترین چیز ہوگا۔ اگر سوام کے ریسرچرز ایسا سیل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے مزید ملینزآف سیلز تیار کیے جاسکیں گے۔ حتیٰ کہ ان سیلز کو مزید ری پروگرامنگ کے ذریعے ایمبریوز میں تبدیل کیا جاسکے گا۔ جس کے بعد ان ایمبریوز کو ہتھنیوں، جو جُسام کی قریبی زندہ رشتے دار ہیں، میں ایم پلانٹ کیا جاسکے گا۔

زیادہ تر سائنس دانوں کو اس بات پر شبہ ہے کہ کوئی سیل کھلے یخ اور برفیلے ٹینڈرا میں زندہ رہ پایا ہوگا لیکن ہوانگ اور اس کے ساتھیوں کے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔ جُسام کا ایک صحیح سلامت نیوکلیس نکالو جس کے محفوظ ہونے کے امکانات سیل سے زیادہ ہیں۔ محض نیوکلیس سے جُسام کی کلوننگ قدرے زیادہ مشکل کام ہے۔ سوام کے ریسرچرز کو مزید مشکل سے گزرنا پڑے گا۔ انہیں اس نیوکلیس کو ہاتھی کے سیل میں منتقل کرنا ہوگا جس کا اپنا نیوکلیس نکالا جاچکا ہو۔ اس سب کے لیے ضروری ہوگا کہ مادہ ہاتھی سے انڈے نکالے جائیں۔ یہ کام کسی کرتب سے کم نہیں، ایسا کرتب جسے ابھی تک کوئی نہیں دکھا سکا۔

اگر جُسام کے نیوکلیس کا ڈی این اے اس قدرمحفوظ ہوا کہ وہ ہاتھی کے انڈے کا کنٹرول سنبھال سکے تو یہ جُسام کے ایمبریو میں تقسیم ہونا شروع کرسکے گا۔ اس سب سے بڑھ کر وہ خوفناک مرحلہ عبور کرنا باقی ہوگا جس میں تمام تر مشکلات کو عبور کرتے ہوئے اس ایمبریو کو مادہ ہاتھی کے رحم میں ٹرانسپلانٹ کیا جاسکے۔ مزید احتیاطی تدبیر کے طور پر انہیں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر یہ سب ٹھیک چلتا رہا تو بھی ہاتھی کو جُسام کے صحت مند بچے پیدا کرنے میں دو سال لگ جائیں گے۔ مگر ہوانگ ایک بات اورکہتے ہیں :

’’میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ کوشش نہیں کریں گے تو آپ یہ کیسے جان سکیں گے کہ یہ ناممکنات میں سے ہے‘‘

معدوم سپیشیز کو دوبارہ زندگی دینے کے متعلق کلوننگ کے نت نئے طریقوں اور تجربات کو زیر غور لایا جاتا رہا ہے۔ ان ہی میں شمالی امریکہ کے معدوم شدہ جنگلی کبوتر(Ectopistes Migratorious)کی نسل کے احیاء کی کوشش بھی شامل ہے۔ کسی زمانے میں یہ کبوترلوئیس ویلی(Louisville) کے دریائے اوہیو(Ohio River) کے کنارے پر غول در غول ہوائوں میں غوطے کھاتے تھے۔ 1813ء کے آخر تک ان کی نسل معدوم ہو گئی۔ ریکارڈز کے مطابق 1900 میں اس نسل کا آخری جنگلی پرندہ ایک لڑکے نے بی بی گن سے مار گرایاتھا۔ اس کے چودہ سال بعد باقی ماندہ ایک قیدی مادہ مگر جنگلی کبوتر،جس کا نام مارتھا (Martha) تھا, سینسیناٹی( Cincinnati) کے چڑیاگھرمیں موت کی وادی میں جا اتری۔

ہارورڈ کے ماہر حیاتیات جارج چرج جو ڈی این اے کے استعمال (Manipulation) کا ماہر تھے، نے اس سپیشیز کو دوبارہ زندگی دینے کا فیصلہ کیا۔ جارج جانتا تھا کہ کلوننگ کے رسمی طریقے اس کام میں مدد گار ثابت نہیں ہوں گے کیونکہ پرندے کا ایمبریو انڈے کے سخت خول کے اندر نمو پاتا ہے اور اس بات کے امکانات بھی کم تھے کہ کسی میوزیم میں اس پرندے کامکمل صحیح سلامت اور فعال جینوم موجود ہوگا۔ لہٰذا اس نے پرندے کی دوبارہ تخلیق کے لیے ایک مختلف طریقہ اپنانے کا سوچا۔

ڈی این اے کے ٹکڑے محفوظ شدہ نمونوں میں موجود ہوتے ہیں، ان ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر سائنس دان جنگلی کبوتر کے جینوم کے کم از کم ایک بلین لیٹرز پڑھ سکتے ہیں۔ اگرچہ جارج ابھی تک ڈی این اے کی ان باقیات سے مکمل جاندار کا جینوم تیار نہیں کرسکا لیکن اس نے ایسی تکنیک ایجاد کرلی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی کی ترتیب سے ڈی این اے کا بڑا ساٹکڑا تیار کرسکتا ہے۔ تصوراتی طور پر وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگلی کبوتر کی خصوصیات کی جینز تیار کرسکتا ہے مثال کے طور پر اس کی لمبی دم کی جین اور پھر اس جین کو عام پہاڑی کبوتر ( Rock Pigeon) کے سٹیم سیل کے جینوم میں جوڑنا بھی ممکن ہے۔

پہاڑی کبوتر کے سٹیم سیلز جن میں ڈاکٹر کا تیار کردہ جنوم موجود ہو کو جنوم سیلز میں منتقل کیا جاسکتا ہے جو آگے جاکر انڈہ یا سپرم بناتے ہیں۔ ان متوقع سپرمز کومادہ پہاڑی کبوتر کے انڈوں میں سرنج کے ذریعے منتقل کیا جاسکتا ہے جہاں وہ ایمبریو کے جنسی اعضا میں نقل مکانی کرسکتے ہیں۔ ان انڈوں سے جو بچے نکلیں گے وہ بظاہر عام پہاڑی کبوتروں کی طرح کے دکھائی دیں گے مگر ان کے انڈے یا سپرمز میں ڈاکٹر کا داخل کردہ ڈی این اے بھرا ہوگا۔

جب یہ بچے بالغ ہوں گے اور عمل تولید سے گزریں گے تو ان کے انڈوں سے وہ بچے نکلیں گے جن میں جنگلی کبوتر کی مخصوص خصوصیات موجود ہوں گے، ان پرندوں کی بار بار افزائش نسل کروانے کے لیے اور ہر دفعہ افزائش نسل کے لیے سائنس دان ان پرندوں کا انتخاب کریں گے جن کی خصوصیات زیادہ سے زیادہ معدوم شدہ پرندوں سے ملتی ہوں جارج کاجینوم ری ٹولنگ کا یہ طریقہ مجازی طور پر ایسی سپیشیز کے لیے بھی کارآمد ہوسکتا ہے جس کے قریبی رشتے دار زندہ ہوں اور جس کا جینوم دوبارہ قابل تعمیر ہو۔

لہٰذا اگر سوام کی ٹیم جُسام کا کوئی صحیح سلامت نیوکلیس حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تب بھی اس سپیشیز کی بحالی کے امکانات باقی ہیں۔ جُسام کی تخلیق کے لیے مطلوبہ جینز کی تیاری کے لیے سائنس دانوں کے پاس ٹیکنالوجی پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان جینز کو ہاتھی کے لیے سٹیم سیلز میں منتقل کیاجاسکتا ہے۔ مزید تجربات کے لیے درکار خام مال کے سائبیریا کے فارما فروسٹ سے حصول میں کوئی دقت نہیں ہے۔ جُسام کے ڈی این اے کے ماہر ہینڈرک پوئنر کہتے ہیں:’’ اگر جُسام کی بحالی ممکن ہوئی تو اس کے ساتھ ہی درجنوں اور جانداروں کی بحالی بھی ممکن ہوگی، پھر تو صرف مالی معاملات کی بات رہ جائے گی‘‘۔

اگرچہ جُسام یا جنگلی کبوترکی بحالی اب خواب نہیں رہی مگر اس کی تعبیر اب بھی کئی سالوں کی دوری پر ہے۔ مگر ایک جاندار ایسا ہے جس کی بحالی شاید اس بہت جلد بلکہ دنوں میں ممکن ہوجائے۔ اس جانور کی بحالی کا خبط آسٹریلوی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کے سر پر سوار ہے، اس کی سربراہی مائیکل آرچر کررہے ہیں جو اپنے اس خبط کو Lazarus Project کا نام دیتے ہیں۔ پراجیکٹ شروع کرتے ہوئے آرچر اور اس کے ساتھیوں نے اعلان کیا کہ وہ آسٹریلین مینڈکوں کی دو ملتی جلتی سپیشیز کی بحالی کی کوششوں میں میں مصروف ہیں۔

یہ جانور 1980ء کے قریب معدوم ہوئے۔ ان سپیشیز کی مشترک خاصیت ان کا حیران کن اور انوکھا طریقہ تولید تھا۔ مادہ مینڈک انڈوں کا ایک جھنڈ خارج کرتی جسے نرفرٹیلائز کرتے جس کے بعد مادہ ان تمام انڈوں کو ثابت نگل لیتی۔ مادہ کا معدہ رحم کی صورت اختیار کرلیتا جس کے لیے انڈوں میں موجود ایک ہارمون معدے میں تیزاب کی پیداوار روک دیتا۔ کچھ ہفتوں بعد مادہ منہ کھولتی اور اپنے مکمل نمو شدہ بچوں کو باہر اگل دیتی۔

یہ معجزہ نما تولیدی کرتب ان کے عام ناموں کا سبب بنا جو نارتھ اینڈ سائوتھرن یسٹر بروسلنگ فراگ (yestre broclig frog Northern and Southern)  دس مینڈکوں کو واپس لانے کے لیے پراجیکٹ کے سائنس دان کلوننگ کا روایتی طریقہ استعمال کررہے ہیں جس میںGastre Brocling Frog کے نیوکلیس کو زندہ آسٹریلین Marsb مینڈکوں کے ان انڈوں میں رکھنا مقصد ہے جن کے اپنے نیوکلیس نکال لیے گئے ہیں۔

یہ مرحلہ سست رفتاری سے جاری ہے کیونکہ مینڈک کے انڈے چند گھنٹوں بعد ہی اپنیPotencyکھودیتے ہیں اور منجمد کرنے کے بعد بحالی کے قابل نہیں رہتے۔ اس لیے سائنس دانوں کو اس کام کے لیے تازہ انڈوں کی ضرورت رہتی ہے جوکہ مینڈک سال میں ایک دفعہ اپنے تولیدی موسم کے دوران ہی دیتے ہیں۔ آرچر کہتے ہیں:’’ ہمارے پاس اصل میں اس معدوم جانور کے ایمبریو ہیں، ہم اس راستے پر اپنی منزل کے قریب ترہیں۔ Lasarus Project کے سائنس دان پر اعتماد ہیں کہ انہیں آگے بڑھنے کے لیے اب صرف اعلیٰ کوالٹی کے انڈے درکار ہیں۔ اس مرحلے پر تو صرف چند ہندسوںکا کھیل باقی رہ گیا ہے۔

گیسٹرک بروڈنگ مینڈکوں کا بے مثال انوکھا طریقہ تولید ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کسی بھی سپیشیز کو کھونے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں انھیں واپس لانا چاہئے؟ ملبورن یونی ورسٹی میںماہر کلوننگ اینڈریو فرنچ اس کی دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں اس کے ٹھوس فوائد ہوں گے۔ مثا ل کے طور پر مینڈکوں کے اس طرز تولید کے ادراک کے ذریعے کسی دن ان خواتین کا علاج ممکن ہو سکے گا جنھیں تکمیل حمل کے دوران مسائل پیش آتے ہیں لیکن بہت سے سائنس دانوں کے لئے معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک جانداروں کی بڑھتی ہوئی معدومیت کی روک تھام کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات سے انحراف کے مترادف ہے۔

نیویارک کی سٹونی بروک یونی ورسٹی کے ماہر حیاتی ارتقا جون وینیز (John wiens )کہتے ہیں:’’ یہ واضح ہے کہ معدومی کے خطرات سے دوچارنسلوں اوران کے مسکن کا تحفظ بے حد ضروری ہے۔ جہاں تک میری فراست کام کرتی ہے، میرا خیال ہے کہ معدوم جانداروں کو واپس لانا غیر اہم ہے۔ مٹھی بھر مردہ سپیشرزکو واپس لانے کے لئے کروڑوں ڈالرز کیوں خرچ کیے جائیں جبکہ جانداروں کی کروڑوں اقسام ابھی تک دریافت ہونا اور محفوظ ہونا باقی ہیں۔ معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے حامی اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے لئے ایجاد کردہ کلوننگ اور جینوم کی ٹیکنالوجیز ان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچارسپیشیز کے تحفظ کے لئے بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں خاص طور پر ان سپیشیز کے لئے جو قید میں آسانی سے تولید نہیں کرتیں۔

ڈیوک یونی ورسٹی کے کنزرویشن بائیولوجسٹ سٹیورٹ پم (Pimm Stuart ) کاخیال ہے:’’معدوم جانداروں کی بحالی کی تاریخ مشکلات سے بھری پڑی ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں جانداروں کی بحالی کے لئے جو بھی کوشش کی گئی، بے کار گئی کیونکہ جب ان جانداروں کودوبارہ مسکن میں چھوڑا گیا تو وہ معدوم ہو گئے کیونکہ وہ مسکن اب انھیںقبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ ان سے مطابقت کھو بیٹھے تھے۔ اسی طرح اگر آسٹریلین بائیو لوجیٹس کسی دن گیسٹرک بروڈنگ فروگس کو پرانی پہاڑی ندیوں میں چھوڑنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو وہ جلد ہی دوبارہ معدوم ہو جائیں گے۔

لہٰذا ان معدوم جانداروں سے مطابقت رکھنے والے ماحول کی فراہمی کے بغیر معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کی یہ تمام مشق بے کار ہے اور بڑے پیمانے پرپیسے کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں حتی کہ اگر معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک منطقی طور پر کامیاب ہو بھی گئی تو بھی ایسے سولات ختم نہ ہوں گے کہ جنگلی کبوتر کو شمالی امریکہ کے نئے جنگلات میں خوش آمدید کہا جائے گا؟ حقیقت میں یہ جانور جنیاتی طور پر تیار شدہ اور تبدیل شدہ ہوں گے۔ کیا وہ ان جنگلات میں اپنی بقا کی جنگ لڑ سکیں گے؟

مزید یہ کہ شکاگو نیویارک اور واشنگٹن کے رہائشی اپنے علاقے میں آنے والی اس نئی قسم کے پرندوں کے بار ے میں کیسا محسوس کریں گے جو ان کے آسمان کو سیاہ کر رہی ہوں گے؟ ان کی گلیوں کو غلاظت کی بارش سے ڈھانپ دیں گے۔ معدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے حامی ان سب سوالات پر غور کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترکاخیال ہے کہ کسی بھی بڑے پراجیکٹ پر کام آ گے بڑھانے سے پہلے ان مسائل اور خدشات کا حل نکالنا ضروری ہے۔ لہٰذامعدوم ہوجانے والی نسلوں کے احیاء کی تحریک کے اخلاقی اور قانونی پہلووں کا مکمل ادراک نہایت ضروری ہے۔

جُسام (Mammoth)

ُجسام قبل از تاریخ ناپید ہوجانے والے ہاتھی کو کہا جاتا ہے۔ ان ہاتھیوں کے سامنے کے دانت خاصے طویل اور خمدار ہوا کرتے تھے۔ ان کا عرصہ 48 لاکھ سال قبل تا 4500 سال قبل تک کا بتایا جاتا ہے۔ بال دار جسام اس نسل کی آخری قسم تھا۔ بال دار جسام کی زیادہ تر آبادی شمالی امریکہ اور یوریشیا میں برفانی دور کے آخری زمانے میں ہلاکت کا شکار ہوگئی۔ ان کی آبادی کا کچھ حصہ سینٹ پال جزیرہ (الاسکا) پر بچا لیکن وہ بھی چھ ہزار سال قبلِ مسیح تک ختم ہوگئی۔ چھوٹے جسام بھی جزیرہ رینگل سے دوہزار سال قبلِ مسیح معدوم ہوگئے۔ تقریباً بارہ ہزار سال قبل جب گرم اور نم موسم نے اس کرہء ارض پر ڈیرے جمانے شروع کئے، دریاؤں کی بڑھتی ہوئی سطح نے ساحلی علاقوں کو تباہ کردیا۔

جنگلات اور چراگاہیں موسمی تغیرات کی تاب نہ لاسکے۔ جنگل کی بستیوں کے باسی غائب ہوگئے۔ جنگلی بیل اور جسام بھی اسی دوران غائب ہوئے۔ جسام کی ہلاکت موسمی تغیرات کی بدولت ہوئی یا اْس وقت کے لوگوں کے ہاتھوں شکار ہوکر، یہ بات اب تک متنازعہ ہے۔روس کے جزیرئہ رینگل پر بچ جانے والے پست قامت جسام بھی محض اس وجہ سے بچ سکے کہ وہ جزیرہ انتہائی دور دراز و غیر آباد تھا۔ درحقیقت یہ جزیرہ سن 1820تک جدید تہذیب سے چھپا رہا، 1820ء میں امریکی مچھیروں نے اسے دریافت کیا تھا۔ اسی طرح کا پستہ قامت جسام جزیرہ نماء چینل کیلیفورنیا کے مضافات میں بھی پائے گئے تھے لیکن ابتدائی دور کے۔ ان جانوروں کو لگتا ہے کہ مقامی امریکی باشندوں نے قتل کیا تھا اور ان کی بستیوں کی تباہی دویاؤں کی بڑھتی ہوئی سطح کی سبب ہوئی۔

یقینا اب تک پائے جانے والے جسام میں سب سے قدآور کیلیفورنیا کے شاہی جسام ہیں، جن کی لمبائی تقریباً پانچ میٹر (16 فٹ) تک تھی اور ان کا وزن عموماً 6 سے8 ٹن تک ہوتا ہوگا جوکہ کسی نر جسام کے بہت زیادہ قوی الجثہ اور قدآور ہونے کی صورت میں یہ وزن زیادہ سے زیادہ 12 ٹن تک ہوسکتاہے۔ 2005ء میں لینکولن،الینوس کے شمال میں ایک 3۔3(11 فٹ) لمبا جسام کے ہاتھی دانت (انواب) دریافت ہوئے تھے۔جسام کی زیادہ تر اقسام کی زیادہ سے زیادہ جسامت آج کے دور کے ایشیائی ہاتھی سے زیادہ نہیں تھی۔ جسام کے حمل کا دورانیہ ممکنہ طور پر 22 ماہ کا تھا اور یہ ایک وقت میں ایک ہی بچے کو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کا سماجی ڈھانچہ ممکنہ طور پر ایسا ہی تھا جیساکہ افریقی یا ایشیائی ہاتھیوں کا ہوتاہے۔ مادائیں گلے کی شکل میں بڑی عمر کی مادہ کی نگرانی میں رہتی تھیں اور نر الگ گروہ میں رہا کرتے تھے۔

مسافر کبوتر یا جنگلی کبوتر

شمالی امریکہ کا ایک پرندہ تھا، کوئی وقت تھا، جب اس کا دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے پرندوں میں شمار ہوتاتھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت شمالی امریکہ میں پائے جانے والے پرندوں میں ایک چوتھائی صرف اس خاص نسل کے جنگلی کبوتر کی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق جب یورپی شمالی امریکہ میں آئے ، تب اس پرندے کی آبادی 30 لاکھ سے50لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ بیسویں صدی تک یہاں کے امریکیوں نے اس کی ساری نسل کو ختم کرڈالا۔ وہ اسے اپنے غلاموں کے لئے ایک سستی خوراک کے طورپر پکایاکرتے تھے یا پھر شکارکا شوق پورا کیاکرتے تھے۔اس نسل کی آخری نشانی مارتھا یکم ستمبر 1914ء کو ایک چڑیاگھر میں فنا کے گھاٹ اترگئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔