افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات

ویب ڈیسک  منگل 7 جولائی 2015
مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گذشتہ دنوں منعقد ہونے والے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا دور کہا جا سکتا ہے،افغان طالبان فوٹو فائل

مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گذشتہ دنوں منعقد ہونے والے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا دور کہا جا سکتا ہے،افغان طالبان فوٹو فائل

 اسلام آباد: افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات وفاقی دارالحکومت میں ہورہے ہیں جب کہ ان مذاکرات کو پاکستان اوراقوام متحدہ سمیت چین کی حمایت حاصل ہے۔ 

سرکاری ذرائع کے مطابق مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے نامزد نمائندے شریک ہیں جب کہ ان مذاکرات کو پاکستان اور اقوام متحدہ سمیت چین کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہے تاکہ افغانستان میں دیر پا امن کے قیام کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔ افغان طالبان ذرائع  نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے حاجی دین محمد، ملا خلیل، فرہاد اللہ اور ملا عباس افغانستان اور قطر سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں جب کہ ان مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گذشتہ دنوں منعقد ہونے والے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا دور کہا جا سکتا ہے،ملا جلیل طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں جب کہ حاجی دین محمد ننگرہارسے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ارومچی میں ہونے والے رابطے میں بھی شامل تھے۔افغان صدارتی ترجمان کے مطابق ان کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے گاجب کہ وفد میں صدر اشرف غنی ، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغان کونسل کے 6 نمائندے شریک ہیں۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نےان مذاکرات کے بارے میں تفصیل بتانے سے انکار کردیا تاہم انہوں نے مذاکرات کی تردید نہیں کی۔

اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے رواں سال فروری میں کابل کے دورے میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان رابطوں کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن کافی تاخیر کے بعد چین میں گذشتہ دنوں یہ پہلا رابطہ ہوا تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے پچھلے ہفتے میڈیا بریفنگ میں بھی کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل میں مدد کر رہا ہے۔

یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب گذشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان میں سرحدی کشیدگی اور قندہار میں ایک اہلکار کی حراست کے بعد تلخی میں اضافہ ہوا تھا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیر طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔