’’کشمیر پر غیر منظم قبائلی یلغار کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں‘‘

فرحان احمد خان  اتوار 18 دسمبر 2016
سری نگر سے نکلتے وقت یہ خیال تک نہ تھا کہ اب کبھی واپسی نہ ہوگی، فاطمہ جناح نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ فوٹو : فائل

سری نگر سے نکلتے وقت یہ خیال تک نہ تھا کہ اب کبھی واپسی نہ ہوگی، فاطمہ جناح نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ فوٹو : فائل

جن لوگوں سے اپنی شعوری عمر میں ملاقات نہ ہونے کا شدید قلق ہے ان میں سے ایک بیرسٹرخورشید حسن خورشید بھی ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری اور پھر آزادکشمیر کے صدر بننے والے کے ایچ خورشید کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستان اور کشمیر دونوںکی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ جستجو بہت تھی اس لیے پرانی دستاویزات میں خورشید کو تلاشا۔چند کتابیں،کچھ اخباری تراشے اور بکھرے ہوئے چند مضامین میسر آئے۔ اُس زمانے کی دو ایک ویڈیوز بھی ہاتھ لگیں۔ذہن میں ان کے سراپے کا عجیب دلکش سا عکس مرتسم ہو گیا۔

ایسا شخص کہ جب بولے تو کانوں میں رس گھولتا جائے۔خوش لباس ،روشن کھلتا ہوا چہرہ ،آنکھوں میں اعتماد کی چمک ، آدمی دیکھے تو دیکھتا چلا جائے۔کوئی بھی شخص تاریخ کے اہم ترین ادوار کا منفرد حوالہ تنہا نہیں بن سکتا ۔اسے ہر لمحہ ہمدرد رفقاء کی ضرورت ہوتی ہے ۔کے ایچ خورشید کی رفیقۂ حیات بیگم ثریا خورشید نے اس ساتھ کو نہایت سلیقے سے نبھایا۔خواہش تھی کہ اُن سے ملاقات ہو جائے اور کچھ اُن کی اور اُن کے دیس کی بات ہو جائے۔ پہلے پتہ چلا کہ ایک چوٹ کے گہرے صدمے کی وجہ سے علیل ہیں اس لیے توقف مناسب سمجھا۔چند ماہ انتظار کے بعد رابطہ کیا اورکشمیر سے آئے ہوئے ایک صحافی دوست کے ہمراہ بیگم ثریا خورشید سے ملاقات ممکن ہوئی ۔

اس خوشگوار ملاقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرویو کے لیے وقت مانگ لیا۔شہرت سے بھاگنے والا انسان کہاں جلدی تیار ہوتا ہے۔انہوں نے ذرا سا تردد کیا مگر پھرمان گئیں۔اگلے دو روز بعد علی الصبح ان کے گھر حاضر ہوا۔’خورشید ملت‘ کی اہلیہ اقبال پارک (والٹن)لاہور میں واقع ایک نہایت سادہ سے گھر میں رہتی ہیں۔مرکزی دروازے کے ساتھ لگی تختی پر سیاہ جلی حروف میں لکھا’’خورشید حسن خورشید بار ایٹ لاء‘‘ کشمیر کے عظیم سپوت کی یاد دلاتا ہے۔ڈرائنگ روم میں بیٹھے تو بات ستر برس پرانے سری نگر اور جموں سے شروع ہوئی ۔ تقسیم اوراس کے نتیجے میں ہوئی خونریزی کا آنکھوں دیکھا احوال سنا تو دل بھر آیا۔ فلیگ ہاؤس کراچی کے سہانے ایام کی یادیں تازہ ہوئیں۔

ثریا خورشید نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ گزرے روزو شب کا ذکر کیا۔آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے نصف صدی قبل کے دو کمروں پر مشتمل ایوان صدر کی باتیں ہوئیں۔ کے ایچ خورشید کی سادگی اور قناعت کے قصے سن کر حیرانی ہوئی۔ ایک ایسا اُجلا شخص جس سے بہت کم کسی کو شکوہ ہوگا۔ثریا خورشید کی کشمیر کے ساتھ محبت توان کی ہربات سے جھلکتی تھی ۔ان کی نشست کے قریب میز پر محمد دین فوق کی ’’تاریخ کشمیر‘‘ رکھی ہوئی تھی۔قریب ڈیڑھ گھنٹے کی اس ملاقات میں بے شمار باتیں ہوئیں مگر تشنگی تھی کہ کم نہ ہوتی تھی۔ اس خیال کے ساتھ اُٹھ آیا کہ اس پیرانہ سالی میں بزرگوں کی شفقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اذیت میں ڈالنا مناسب نہیں۔ اس گفتگو کا مختصر احوال انہی کی زبانی پیش خدمت ہے۔

’’ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ اب واپسی کبھی نہیں ہو گی‘‘
جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو میرے والد ڈائریکٹر میڈیکل سروسز تھے۔اس زمانے میں سرکاری ملازم چھ ماہ جموں اور چھ ماہ سری نگر رہتے تھے۔جموں سرمائی دارالحکومت تھا۔سری نگر کے اسکول اورگورنمنٹ اسکول جموں کا نصاب یکساں تھا۔مہاراجہ کی سردیوں میں جموں آمد پر اس کے ساتھ سارا عملہ بھی آتا تھا۔جب پاکستان بنا تو میں میٹرک کی طالبہ تھی۔ امتحان میں نے پاکستان میں آ کر دیا تھا۔

تقسیم کے وقت ہم سری نگر میں تھے ۔ہم چونکہ بہت چھوٹے تھے اس لیے باہر کے حالات کا زیادہ علم نہیں تھا ۔ایک صبح ہم اٹھے توگھر کے بڑوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جلدی سے تیار ہو جاؤ ، ہم نے یہاں سے جانا ہے۔ہم بغیر کچھ پوچھے تیاری کرنے لگے ۔بچے اس زمانے میں زیادہ سوال نہیں کرتے تھے۔ہم جس بس میں سری نگر سے جموں کے لیے نکلے وہ آخری بس تھی۔ابا کا ایک دوست راولپنڈی کا کمشنر تھا ۔اس نے ابا کو بتایا تھاکہ حالات بہت خراب ہونے والے ہیں اس لیے آپ کسی طرح یہاں سے نکلیں۔میرے ابا نے وہ بس کرائے پر لی تھی جس میں تین خاندان سفر کر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ابا کے دوست سردار آفندی صاحب اور میجر عابد صاحب کا خاندان تھا۔

مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب ہم رخصت ہو رہے تھے تو ہمارا نوکر زار وقطار رو رہا تھا۔ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کچھ دن تک ہم واپس آ جائیں گے۔ہمیں اس اچانک کوچ کی وجہ سے پریشانی ضرور تھی لیکن یہ تو سوچا بھی نہ تھا کہ اب جا کر ہمیں واپس کبھی نہیں آنا۔اگر وہ آخری بس نہ نکلتی تو ہم بھی وہیں پھنس کر رہ جاتے۔

فوجی نے دھاڑتے ہوئے کہا: ’’بھارت کی چیز پاکستان کیوں لے جارہی ہو‘‘
جب ہم یہاں بارڈر کے قریب پہنچے تو ہمیں ایک ڈوگرہ سپاہی نے روکا۔ میرے ہاتھ میں اس وقت اُون بننے کی سلائیاں تھیں، شاید گڑیا کی سویٹر بنا رہی تھی ۔اس فوجی نے زور سے میرے ہاتھ سے وہ سلائیاں چھینیں اورساتھ بہتے دریائے جہلم میں پھینک دیں۔میں نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔فوجی نے کرخت لہجے میں کہا کہ بھارت کی چیز پاکستان کیوں لے جارہی ہو؟میرے ابا نے فوجی سے کہا کہ بڑے ظالم آدمی ہو ،تم نے میری بچی کو رُلا دیا۔جو تھوڑا بہت سامان ساتھ تھا وہ بھی انہوں نے وہیں روک لیاتھا ۔نہایت خستہ حالی اور کسمپرسی کے عالم میں ہم یہاں پہنچے۔ اِدھرابا جی کے کچھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے شروع کے تین چار روز ہم سرکٹ ہاؤس میں ٹھہرے۔اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کپڑے اور نہ ہی پیسے وغیرہ۔

مجھے یاد ہے اس وقت ہم نے سنا کہ کشمیر سے آخری ٹرین آ رہی ہے ۔لوگ گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کا استقبال کرنے اسٹیشن جارہے تھے۔ اس وقت کہا گیا کہ بچوں کو ساتھ لے کر نہیں جانا۔ لوگ آنے والوں کو وصول کرنے کے لیے اسٹیشن پرکھڑے تھے ۔جب ٹرین رکی تو دیرتک ٹرین سے کوئی باہر نہ نکلا ۔پھر پتہ چلا کہ اندر کوئی بھی مسافر زندہ نہیں بچا، سب لاشیں تھیں۔یہ دلدوز منظر تھا۔ان فسادات میں صرف جموں میں اڑھائی لاکھ مسلمان قتل کیے گئے، اس قربانی کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔

’’بہت سال بعد جموں گئی تو دل کی عجیب کیفیت تھی‘‘
بہت سال پہلے مجھے ایک بار پھر کشمیر جانے کا موقع ملا ۔ میری ’’کتاب بانہال کے اُس پار‘‘ میں اس سفر کی رُوداد رقم ہے۔ میں اس وقت کشمیر کے حالات دیکھ کر رو کر آئی تھی۔ہم پہلے سری نگر گئے تھے اور پھر جموں میں کچھ وقت گزارا تھا۔ میں وہاں اپنے پرانے گھر گئی تو میرا دل عجیب سی کیفیت کا شکار تھا ۔ ہم نے گھنٹی بجائی توایک نوجوان لڑکا باہر نکلا۔میں نے اسے بتایا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں ، تقسیم سے پہلے یہ گھر ہمارا تھا، ہم ذرا اپنے گھر کو ایک نظر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ میرے والدین کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔میں نے کہا ہم صرف دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس نے اجازت دے دی ۔اس لڑکے نے بتایا کہ اس کاوالد ڈاکٹر ہے اور یہ گھر انہوں نے کرائے پر لے رکھا ہے۔

’’سکھ ہمسائیوں نے خط میں لکھا کہ ہمارا پالتو کتا بھی جدائی کے غم میں مر گیا‘‘
تقسیم سے قبل وہاں ہمارے ہمسائے سِکھ تھے ۔ وہ بہت اچھے لوگ تھے اور ان کے لڑکے ہمارے بھائیوں کے دوست تھے جبکہ ان کی لڑکی میرے ساتھ گھومتی پھرتی تھی ۔ سب کچھ بہت اچھا تھا۔ تقسیم کے وقت جب ہم ہجرت کرنے لگے تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ،ہم آپ کے گھر بار کی دیکھ بھال کریں گے۔

اس وقت ابھی خط کتابت بند نہیں ہوئی تھی ۔ کچھ عرصے بعد انہی ہمسائیوں نے ہمیں خط لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ جموں میں بہت لوٹ مار ہو گئی ہے ۔انہوں نے لکھا کہ گھر میں صرف الماریاں اور فرنیچر بکھرا پڑا ہے، باقی سب کچھ لُوٹ لیا گیا ہے۔مجھے یاد ہے ہم نے اس وقت گھر میں ایک کُتاپال رکھا تھا۔ ہمسائیوں نے خط میں لکھاکہ ہم جب آپ کے گھر میں گئے تووہ کتا وہیں بیٹھا ہوا تھا ۔ ہم نے کتے کو کھانا کھلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں کھاتا تھا۔ان کے بچے اسے کہتے کہ ’جیکی کھانا کھاؤ‘ تو وہ اُجڑے گھر کے درودویوار تکنے لگتا تھا مگر کھاتا بالکل بھی نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ وہ کتا اسی طرح بھوک کی حالت میں مر گیا۔

’’ہماری اس وقت ہندو سِکھ سہیلیاں تھیں ہمارے بیچ نفرت کا شائبہ تک نہیں تھا‘‘
اس وقت سری نگر میں ہماری کشمیری لڑکیاں زیادہ پڑھتی نہیں تھیں ۔ تھوڑی بہت تعلیم کے بعد ان کی شادیاں ہو جاتی تھیں۔ میٹرک تک کوئی مسلمان لڑکی شاذو نادر پہنچتی تھی۔ہماری اس وقت ہندو سکھ سہلیاں تھیں۔ ہمارے وہم وگمان میں بھی کوئی نفرت کا شائبہ نہیں تھا۔ میں یہ کبھی نہیں کہوں گی کہ خاص طور پر ہندو یاسِکھ بُرے تھے ۔ لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کا یہ تصور نہیں تھا جو فسادات کی صورت میں ظاہر ہوا۔لوگوں کے اپنے گھر بار چھوڑنے کی کوئی بات نہیں تھی۔

’’47ء کے غیر منظم قبائلی حملے کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں‘‘
سینتالیس میں یہاں سے قبائلیوں کی کشمیر پر یلغار کا ذکر ہوا تو کہنے لگیں کہ وہ ایک انتہائی غیر منظم حملہ تھا۔قائداعظم نے بیماری کی حالت میں جب اس بارے میں سنا تو انہیں بہت برا لگا۔ یہ میجرخورشید انور کا منصوبہ تھا ۔قبائلی جب آئے تو سری نگر خالی پڑا تھا ، وہ بارہمولہ میں بیٹھ گئے اور وہیں رک کر دنبے ذبح کر کے کھانے لگے ۔انہوں نے وہاں بڑی لوٹ مار کی۔جب بھارتی آئے تو انہوں نے پہلے سری نگر ائیر پورٹ کا پتہ کیا جو بالکل خالی تھا ۔ تب وہ سری نگر میں اترے۔اگر اس وقت قبائلی سری نگر پر قبضہ کر لیتے تو حالات مختلف ہوتے۔ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے کسی سے پوچھا تک نہیں تھا۔ قائداعظم علیل تھے اور لیاقت علی خان سے کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ اس غیر منظم حملے کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اس کے بعد بھی جو مسلح مزاحمت ہوئی وہ منظم نہ ہونے کی وجہ سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

’’فلیگ ہاؤس جانے لگی تو ابا نے کہا وہاں زیادہ بولنا نہیں،صرف محترمہ کو سننا‘‘
فلیگ ہاؤس کراچی میں فاطمہ جناح کے ساتھ گزرے شب وروز کا ذکر چلا تو کہنے لگیں کہ وہ ایک خوبصورت تجربہ تھا۔میں کافی خوفزدہ تھی ۔اس سے پہلے گھر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ خوب بحث مباحثہ کرنے کی عادی تھی ، شادی کے بعد جب فلیگ ہاؤس جانے لگی تو میرے ابا نے کہا وہاں زیادہ بولنا نہیں بلکہ محترمہ کی باتیں سننی ہیں۔

خورشید صاحب نے بھی کہا کہ محتاط رہنا ، محترمہ فاطمہ جناح ویسے بڑی محبت کرنے والی خاتون ہیں لیکن تم خود بولنے کی بجائے ان کی باتیں سننا۔ مجھے یاد ہے جب میں وہاں پہنچی تو محترمہ کو سلام کیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا ۔میں اور سہم سی گئی۔ وہ شاید مجھے پرکھ رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے دوچار دن دیکھا اور پھر خود ہی کہنے لگیں کہ تم میرے پاس آجانا، ہم ساتھ بیٹھا کریںگے۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ میں اجنبیوں کے ساتھ زیادہ بے تکلف نہیں ہوتی اس لئے صرف تمہارا مشاہدہ کر رہی تھی۔وہ ایک اچھی خاتون تھیں۔ میں سمجھتی ہوں جن لوگوں نے پاکستان بنایا وہ غیر معمولی لوگ تھے۔ ہمارا فلیگ ہاؤس کراچی میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ قیام بڑا ہی زبردست تھا۔

’’محترمہ نے کہا: کشمیر تمہارا ملک ہے،چلے جاؤ شاید تمہارے لوگوں کا بھلا ہوجائے‘‘
جب خورشید صاحب کو آزادکشمیر کی صدارت کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے یہ عہدہ محترمہ کی مرضی سے قبول کیا ۔ویسے تو محترمہ فاطمہ جناح کو ہمارا فیلگ ہاؤس سے جانا کبھی پسند نہ تھا۔ وہ اکثر خورشید صاحب سے کہتی تھیں کہ جب تک تمہارا وکالت کاکام چل نہیں پڑتا اس وقت تک یہیں رہو ۔ تمہاری وجہ سے میرے لیے یہاں کافی رونق کا سامان ہے۔ ہم نے کراچی میں گھر بنانے کے ارادے سے محترمہ کو آگاہ کیا تو کہنے لگیں نہیں یہاں تمہاری وجہ سے رونق ہے اس لیے Keep the money اور یہیں رہو۔میں صبح دس بجے ان کے پاس بیٹھنے چلی جاتی تھی ۔ان کا سیکریڑی سندھی تھا جس کی اُردو بڑی کمزور تھی ۔میں انہیں اخبار پڑھ کے سناتی تھی ۔ ان دنوں دارالحکومت کراچی میں ہوتا تھا ۔ ہر روز ایوب خان کی طرف سے دو سرکاری آدمی آ جاتے اور خورشید صاحب کو آزادکشمیر کی صدارت قبول کرنے کا کہتے تھے۔

خورشید صاحب کی ایسی کوئی تمنا نہیں تھی۔وہ اپنے کام میں کافی مصروف ہو گئے تھے ۔ انہی دنوںخورشید صاحب نے محترمہ سے رات کھانے کے دوران اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گی اور کل تمہیں بتاؤں گی۔ اگلے دن محترمہ نے کہا کہ میں نے اس بارے میں بہت غور کیا،ایوب خان دراصل آپ کو یہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ تم میرے پاس رہو لیکن وہ(کشمیر) تمہارا ملک ہے ،تمہارے لوگ ہیں ، تم نوجوان ہو اور تمہارا جذبہ بھی ہے ،اس لیے تم جاؤ اور Do accept it، اس سے تمہارے ملک کے لوگوں کا کچھ بھلا ہو جائے گا۔ سو محترمہ کے کہنے پر خورشید صاحب نے آزادکشمیر کی صدارت قبول کی تھی۔

’’قائداعظم کو گمان بھی نہیں تھا کہ تقسیم کے نتیجے میں اس قدر خون بہے گا‘‘
پاکستان بننے کے بعد کے حالات دیکھ کر محترمہ بہت رنجیدہ ہوتی تھیں۔کہتی تھیں کہ پاکستان اس لیے تو نہیں بنا تھا۔ ان کو تو چھوٹی چھوٹی بات بہت کَھلتی تھی۔ انہوں نے قائد کے ساتھ سارا وقت گزارا تھا اس لیے حُب الوطنی کا جذبہ ان میں بہت زیادہ تھا۔جب پاکستان بنا تو یہ خواب ہر گز نہیں تھا کہ یہاں یہ ہوگا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔محترمہ فاطمہ جناح سنایا کرتی تھیںکہ میں نے ایک دن قائداعظم سے پوچھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے کہ لوگ تقسیم کی وجہ سے اِدھر اُدھر جانے پر مجبور ہو گئے ہیں تو قائداعظم نے جواب دیا:یہ لوگوں کی مرضی ہے کہ اگر وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں تو آئیں اور اگر اپنے ہی علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ان کا اختیار ہے۔ قائداعظم کو بھی علم نہیں تھا کہ اس تقسیم کے نتیجے میں اس قدر خون بہے گا۔

’’ محترمہ نے کہا : اگر خورشید پاکستانی نہیں تو کوئی بھی پاکستانی نہیں‘‘
خورشید صاحب ایوب خان کے خلاف الیکشن میں محترمہ کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔محترمہ کا الیکشن کے لیے کھڑا ہونا کوئی سازش نہیں تھی بلکہ وہ جینوئن طریقے سے آئی تھیں۔ وہ تقریباً جیت چکی تھیں لیکن حکومتی مشینری نے اپنا کام دکھا دیا۔اس وقت خورشید صاحب کے ایک دوست شیخ خورشید تھے۔ وہ ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ اس وقت کسی نے کہا کہ خورشید کیسے محترمہ کا چیف پولنگ ایجنٹ ہو سکتا ہے یہ تو کشمیری ہے ، پاکستانی نہیں ہے تو محترمہ نے جواب دیا کہ اگر خورشید پاکستانی نہیں ہے تو یہاں کوئی بھی پاکستانی نہیں ہے۔ یہ بات محترمہ کو بہت بُری لگی تھی جو انہوں نے بعد میں خود مجھے بتائی تھی۔اس زمانے میں خورشید صاحب محترمہ کے ساتھ مشرقی پاکستان بھی گئے تھے اورمجھے یاد ہے محترمہ کے ساتھ وہ ایک بار سیالکوٹ بھی آئے تھے۔

’’خورشید صاحب کے دور صدارت میں ایوان صدر دو کمروں کا ایک چھوٹا سا گھر تھا‘‘
جب خورشید صاحب صدر بنے تو میں نے کہا کہ کشمیر تو میرا ملک ہے ۔اپنا ملک تو مجھے بہت عزیز ہے ۔ان کی صدارت کے دور میں وہاں کوئی ایسی ٹھاٹھ باٹھ نہ تھی ۔مظفرآباد میں ایوان صدرجلال آباد گارڈن کے سامنے واقع صرف دو کمرے کا ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس کے اردگرد کافی وسیع جگہ تھی۔مجھے یاد ہے کہ وہاں ساگ بہت لگتا تھا۔

اس وقت مظفرآباد ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ وہاں زیادہ دکانیں تھیں نہ ہی کوئی اچھی بیکری تھی ۔سہولیات کا بہت فقدان تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے ویسے بھی پہاڑ ہمیشہ اچھے لگتے ہیں اس لیے میں وہاں قیام سے خوش تھی۔ہمارے گھر کا سودا سلف اس وقت یا تو راولپنڈی یا مری سے یا پھر ایبٹ آباد سے آتا تھا۔ مجھے پہاڑوں پر رہنے ،وہاں چہل قدمی کرنے اور پڑھنے لکھنے کا شوق تھااس لیے کراچی سے جا کر مجھے وہاںایسی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

جب میں مظفرآباد میں تھی تو محترمہ فاطمہ جناح ایک بار مظفرآباد آئیں تھیں۔انہوں نے نیلم ویلی کے لیے کافی مالی امداد بھی دی تھی ۔ سی ایم ایچ میں آنکھوں کے علاج کے شعبے کا افتتاح بھی کیا تھا۔

کچھ سال پہلے مقبوضہ کشمیر سے کچھ خواتین آئیں تھیں تو مجھے آزادکشمیر بلایا گیا۔ میں وہاں ایوان صدر میں ایک کھانے پر مدعو تھی ۔ وہاں کی موجودہ شان وشوکت دیکھ کر مجھے اپنا زمانہ یاد آیا جب ہم نے نہایت سادگی سے دوکمروں کے گھر میں وقت گزارہ تھا۔ وہاں ایک بیرا بھی مجھے ملا جو ہمارے دور سے وہیں کام کرتا تھا ۔اب تو وہاں کا منظر کچھ اور ہی تھا۔

’’کچھ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ خورشید صاحب جیسا دیانتدار شخص سامنے آئے‘‘
خورشید صاحب کو 1964ء میں صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اس بارے میں بیگم ثریا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہی نہیں تھے کہ کوئی ایسا ایماندار شخص آئے۔اس وقت شیخ عبداللہ آئے اور انہوں نے کہا کہ میں پاکستان سے پہلے اپنے ملک (آزادکشمیر) جاؤں گا ۔جونہی وہ مظفرآباد پہنچے تو پتہ چلا کہ بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو چل بسے ہیں۔اس وقت شیخ عبداللہ کو جلدی واپس جانا پڑ گیا۔ان کا واپس جانا تھا کہ حالات بدل گئے اور خورشید صاحب کو صدارت سے ہٹا دیا گیا۔کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ خورشید صاحب ایسا مخلص اور دیانت دار آدمی آئے۔

’’خورشید صاحب کے ساتھ دشمنی ان کے اپنے ہم وطنوں نے کی ہے‘‘
خورشید صاحب جو بھی بات کرتے تھے اس میں ان کے لوگوں کی بہتری ہوتی تھی ۔ وہ اپنے وطن کی محبت سے سرشار تھے۔ان کی لیاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قائداعظم نے اپنے دورۂ کشمیر کے وقت خود کہا تھا کہ اس وقت برصغیر کا ہر جوان آدمی میرا سیکریٹری بننا چاہتا ہے لیکن مجھے تم میں کچھ خاص نظر آیا ہے۔جب خورشید صاحب کو صدارت سے الگ ہونا پڑا تو یہاں لوگ کہا کرتے تھے کہ خورشید صاحب کے ساتھ دشمنی ان کے اپنے ہم وطنوں نے کی ہے۔ وہ ایسے مخلص آدمی کو نہیں چاہتے تھے۔ عام لوگ توان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن سیاسی لوگ نہیں چاہتے۔مجھے اس بات کا بہت رنج ہے کہ ان کے خلاف اپنے ہی لوگوں نے محاذ کھولے۔ اس وقت وزارت امور کشمیر ریاستی حکومت کے سر پر سوار تھی اوریہی عملاً وہاں حکومت کرتی تھی۔

’’خورشید صاحب برابر کہتے رہے کہ گلگت بلتستان ہمارے ملک کا حصہ ہے، اسے ہم سے الگ نہ کیا جائے‘‘
خورشید صاحب کی صدارت کے زمانے میں پاکستانی وزیر خارجہ منظور قادر نے ایک آئیڈیا پیش کیا تھا کہ اگر منقسم ریاست جموں و کشمیر کی سبھی اکائیوں کو یکجا کر دیا جائے تو کتنے ملک اسے تسلیم کر لیں گے۔کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین سمیت کئی ملک اس کے لیے تیار تھے لیکن حکومت پاکستان نے یہ بات نہیں مانی۔جب ہم نے ریاست کشمیر کی ایک اکائی گلگت بلتستان کے بارے میں سوال کیا تو بیگم ثریا خورشید کا کہنا تھا:’گلگت بلتستان کے بارے خورشید صاحب مسلسل کہتے رہے کہ گلگت بلتستان ہمارے ملک کا حصہ ہے، اسے ہم سے الگ نہ کیا جائے۔ درست فیصلہ وہی تھا جو خورشید صاحب کی سوچ تھی لیکن ان کو اس پر عمل درآمدکرنے نہیں دیا گیا۔انہیں اللہ تعالیٰ نے بہت ذہانت دی تھی۔وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ میری سوچ دیواروں سے باہر جاتی ہے لیکن افسوس کہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔‘

’’خورشید صاحب چکار میں گھر بنانا چاہتے تھے‘‘
خورشید صاحب نے صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کی ۔ بیگم ثریا کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آزادکشمیر کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ کراچی بہت دور تھا اور محترمہ فاطمہ جناح بھی گزر چکی تھیں اس لیے وہاں رہنے کا فیصلہ نہ کیا۔ خورشید صاحب کو سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے لیے اکثر آزادکشمیر جانا پڑتا تھا۔اسی لیے کبھی کبھار وہ اسلام آباد منتقل ہوجانے کا ارادہ بھی ظاہر کرتے تھے۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ بچے تعلیم سے فارغ ہو رہے ہیں ۔اب ہم مظفرآباد کے نواح میں واقع وادی چکار میں اپنا گھر بنائیں گے۔میں بتا چکی کہ پہاڑ اور باغات مجھے بہت بھاتے ہیں ،اس لیے میں تو تیار تھی لیکن قدرت نے انہیں اس کا موقع نہ دیا۔

’’سردار عبدالرب نشتر نے گھر الاٹ کیا جس پر امرتسر سے آئے کچھ لوگ قابض ہو گئے‘‘
ایک بار خورشید صاحب یہاں لاہور میں سردار عبدالرب نشتر صاحب کو ملنے گئے تو انہوں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو۔ خورشید صاحب نے بتایاکہ مال روڈ پر ایک کرائے کے فلیٹ میں رہ رہا ہوں ۔ نواب صاحب حیرت سے بولے ہم نے پاکستان بنایا اور تم فلیٹ میں رہ رہے ہو ؟ انہوں نے اسی وقت سکریٹری کو بلا کر مکان الاٹ کرنے کا حکم دیا ۔ایک ہفتے کے اندر اندر کوئینز روڈ پر ایک گھر الاٹ کر دیا گیا ۔

اس کے بعد جب خورشید صاحب امریکا پڑھنے کے لیے گئے توان کے دو بھائی رحمان صاحب اور شوکت صاحب اس گھر میںایک نوکر کے ساتھ رہتے تھے۔وہ ایم ایس سی کر رہے تھے۔ خورشید صاحب کو محترمہ نے امریکا سے واپس آنے سے منع کیا اور لنکنز اِن میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کی ۔اس دوران کسی کو پتا چلا کہ یہ خورشید صاحب کا گھر ہے ، وہ امرتسر کے کچھ لوگ تھے ۔ایک دن رحمان اور شوکت صاحب یونیورسٹی میں تھے توان لوگوں نے پیچھے اس گھر پر قبضہ کر لیا ۔ بعد میں ایک بار میں نے خورشید صاحب کو الاٹمنٹ واپس لینے کو کہا مگر انہوں نے ’’ہاں ہاں کروں گا ‘‘کہہ کر ٹال دیا۔

’’میں نے کہا:اچھا ٹھیک ہے تو چلیں نواب قزلباش کے گھر میں رہتے ہیں‘‘
بیگم ثریاآج کل جس گھر میں مقیم ہیں یہ کے ایچ خورشید کی وفات کے بعد بنا ۔ وہ اپنی زندگی میں مالی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اپناگھر نہ بنا سکے ۔بیگم ثریا کے بقول جب میں نے اس جانب ان کی توجہ دلاتی تو کہتے کہ سارا پاکستان ہی تو ہمارا گھر ہے ۔ میں از راہ مذاق جواب دیتی کہ چلیں پھر ٹھیک ہے ،میں نے نواب قزلباش کے گھر میں رہنا ہے۔ہم وہاں کھانے وغیرہ پر جاتے رہتے تھے ۔

مجھے وہ گھر بہت اچھا لگتا تھا۔خورشید جیسا دیانت دار شخص میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ان کے پاس بے شمار مواقع تھے مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس پر انگلی اٹھائی جا سکے۔ انہیں ہمیشہ گھر کی طرف سے بھرپور سپورٹ ملی ۔ مزاج کے اعتبار سے بہت نرم خو تھے لیکن ان کی حس مزاح خوب تھی۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم عزت کی زندگی گزار رہے ہیں اورہمارے بچے اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

’’ان کا ذریعۂ معاش وکالت تھی مگر توجہ آزادکشمیر کی جانب تھی‘‘
خورشید صاحب نے صدارت سے الگ ہونے کے بعد جموںوکشمیر لبریشن لیگ کے نام سے آزادکشمیر میں ایک سیاسی جماعت بنائی تھی ۔ اس جماعت کے جلسوں اور میٹنگز کے سلسلے میں انہیں بار بار آزادکشمیر جانا پڑتا تھا ۔ مسلسل سفر میں رہنے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ میں ان کی وکالت پر کافی اثر پڑا۔ بیگم ثریا خورشید نے بتایا کہ ان کا منشی اکثر گھر آتا اور کہتا کہ صاحب کے کیس کی سماعت تھی مگر ان کے آزادکشمیر چلے جانے کی وجہ سے مؤخر ہو گئی۔اسی طرح خورشیدصاحب کے ایک جج صاحب دوست ہوتے تھے ۔

وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جب بھی خورشید صاحب کو ئی کیس لیتے ہیں توتاریخیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔جب میں پوچھتا ہوں کہ وہ کدھر ہیں توجواب ملتا ہے کہ وہ آزادکشمیر گئے ہوئے ہیں۔بیگم خورشید کے بقول وہ وکالت پر توجہ پوری طرح مرتکز کر ہی نہیں سکے ۔ان کاذریعۂ معاش یہی تھا مگر زیادہ توجہ آزادکشمیر کی جانب تھی۔

’’کشمیری خوبصورت ملک کے رہنے والے رومانوی لوگ ہیں‘‘
پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے ۔اگر یہ شغل نہ ہو تواکیلی رہنا آسان نہیں۔ ادب ، سیاست، فکشن اور تاریخ ہر طرح کی کتابیں پڑھتی ہوں ۔ محترمہ فاطمہ جناح میری آئیڈیل ہیں ۔ان سے بہت کچھ سیکھا۔یونیورسٹی کے زمانے کی فلم’’محل‘‘ بہت پسند آئی ۔اب عرصہ ہواکوئی فلم نہیں دیکھی۔ موسیقی تو کشمیریوں کے خون میں شامل ہے ۔مجھے یاد ہے کشمیر میں رات کو دُور کہیںسے بانسری کی آواز آیا کرتی تھی۔پسندیدہ گلوکاروں میں لتامنگیشکر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان جیسا بھلاکون ہو سکتا ہے ،وہ تو ہمیشہ چھائی رہیں ۔

کشمیری کلاسیکی موسیقی کی علامت حبہ خاتون کو یاد کرتی ہیں ۔اچھا کھانا پینا تو کشمیریوں کے ذوق کا حصہ ہے۔اپنے لیے زیادہ تردد نہیں کرتی لیکن کوئی خاص مہمان ہو تو کشمیری کھانوں سے تواضع کرتی ہوں۔اب صحت کی خرابی کی وجہ سے یہ بھی نہیں ہو پاتا۔کشمیری خوبصورت ملک کے رہنے والے رومانوی لوگ ہیں اور ہمیں اپنے ملک اور اپنے لوگوں سے تو بہت پیار ہے ۔پھر قدرے سرد اورمغموم لہجے میں کہا اب پتہ نہیں ہماری زندگیوں میں اس (کشمیر)کا کیا ہو گا یا کچھ بھی نہیں!

’’بیٹی سیاست میں آنا چاہتی تھی مگر منع کر دیا‘‘
اولاد میں ایک بیٹا خرم اور بیٹی یاسمین ہیں۔خرم نے انگریزی ادب کے علاوہ قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر وہ کینیڈا چلے گئے اور آج کل اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہیں مقیم ہیں۔ بیٹی یاسمین کا سیاست سے شغف تھا لیکن میں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اب دیانتدار لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔یاسمین نے پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کی ہے اور وہ اب پی آئی اے میں اچھے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔

خود بیگم خورشید آج کل اپنی ایک دوست کے اسکول میں رضاکارانہ طور پر ان کی مدد کرتی ہیں اور مختلف تقاریب وغیرہ میں بھی آنا جانا رہتا ہے۔ چھ کتابیں فاطمہ جناح کے شب وروز (جو بعد میں یادوں کی کہکشاں کے نام سے چھپی)، بانہال کے اس پار (سفرنامہ کشمیر)، املتاس کے پیڑ،تاریخی مشاہدات وواقعات (کے ایچ خورشید کی یادداشتوں سے اقتباس)، چناروں کے سائے اور تاریخ کے جھروکے شائع ہو چکی ہیں اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔

’’خالد حسن خاندان کا ہیرا تھا‘‘
میرے چار بھائی تھے اور ایک سے بڑھ ایک اچھا تھا۔اپنے بھائی معروف صحافی اور مصنف خالد حسن کا ذکر کرتے ہوئے مغموم ہو جاتی ہیں ۔ کہتی ہیں خالد تو بہت پائے کا صحافی تھا۔وہ امریکا میں رہتا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے وہ لاہور ہی میںہے ۔ مجھے روزصبح اس کا فون آتا تھا۔خالد حسن ہمارے خاندان کا ہیرا تھا۔ بہت پیارا بھائی اور قابل ترین انسان تھا۔

جب وہ یہاں تھا تو مجھے اس کی وجہ سے بہت آسرا تھا۔وہ اپنے دفترپہنچ کر سب سے پہلے مجھے فون کرتا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ خالد حسن نے اس دور میں سی ایس ایس ٹاپ کیا تھا ۔وہ نتیجے والے دن کامیاب امیدواروں میں اپنا نام تلاش کر رہا تھا تو کسی دوست نے بتایا کہ سب سے اوپر دیکھو ، تمہارا نام تو پہلے نمبر پر ہے۔ خالد حسن کاانتخاب انکم ٹیکس کے محکمے کے لیے ہوا لیکن وہ اس شعبے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔اس کا رجحان پڑھنے لکھنے کی طرف تھا۔بعد میں ابا کے سمجھانے پر مان گیا۔ دوسرے بھائی مسعود حسن بھی اچھا لکھتے تھے اور ان کے مضامین اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔

بڑے بھائی ریٹائر بریگیڈئر بشیر احمد بھی اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے تھے۔ہمارا پورا خاندان پڑھا لکھا تھا ۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے شعبے میں بہت دیانت دار تھے۔خالد حسن امریکا سے بہت ساری کتابیں بھیجتے اور کہتے کہ انہیں خورشید نیشنل لائبریری مظفرآباد بھجوا دیں۔یہاں بھی بہت سی کتابیں خریدکر پڑھتا تھا، جب واپس امریکا جانے لگتا تو کہتا کہ یہ سب خورشید نیشنل لائبریری کو بھجوا دیں۔خیال رہے کہ خالد حسن کا شمار پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں ہوتا ہے ۔وہ ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکریٹری بھی رہے۔

’’جنرل ضیاء دینا جناح سے قائداعظم کی بابت من چاہی باتوں کی تائید چاہتے تھے اسی لیے وہ پاکستان نہیں آئیں‘‘
قائداعظم کی صاحبزادی دیناجناح مشرف کے دور میں پاکستان آئی تھیں لیکن مجھ سے ملاقات نہیں ہوئی۔خورشید صاحب نے بتایا تھا کہ اپنے امریکاکے آخری سفر میں وہ دینا جناح کے پاس گئے تھے۔

وہ نیویارک کے قریب کسی چھوٹے ٹاؤن میں رہتی ہیں۔وہ انہیں بڑی اچھی طرح ملیں۔خورشید صاحب نے پوچھا کہ آپ کے والد نے ایک ملک بنایا ،آپ وہاںکیوں نہیں آتیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان آنا چاہتی تھی ۔اس وقت ضیاء الحق کی حکومت تھی۔انہوں نے مجھے ایک میمورنڈم بھیج دیا کہ آپ اس پر تائیدی دستخظ کریں کہ قائداعظم فلاں فلاں بات چاہتے تھے ۔دینا نے کہا کہ میں صحیح طرح سے نہیں جا نتی کہ وہ کیا چاہتے تھے ، اس لیے دستخط کر کے میں اپنے والد کی نیک شہرت کے نقصان کا باعث نہیں بن سکتی۔

’’آزادکشمیر کے وزیر اعظم ملاقات کے دوران احتراماً زمین پر بیٹھے رہے‘‘
آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید بیگم ثریا کا بہت احترام کرتے ہیں۔ بیگم ثریا نے بتایا کہ ایک دفعہ مجھے آزادکشمیر کی حکومت نے بلایا ۔وہاں مقبوضہ کشمیر سے خواتین کا کوئی وفد آیا ہوا تھا۔ہم وہاں پرل کانٹی نینٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ایک صبح وزیراعظم ہاؤس سے چوہدری صاحب نے گاڑی بھجوائی اور ملاقات کی درخواست کی ، میں وہاں پہنچی تو چوہدری صاحب کوئی آدھ گھنٹے بعد آئے اور آتے ہی قالین پر بیٹھ گئے۔

میں نے کہا چوہدری صاحب!پلیز اوپر بیٹھیں۔انہوں نے کہا نہیں میں آپ کے برابر نہیں بیٹھ سکتا۔میں آپ کو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں ۔میں نے کہا کہ مائیں تو ناراض ہو جاتی ہیں اگر بیٹے تکلیف میں بیٹھیں ، اس لیے مجھے اچھا نہیں لگتا لیکن وہ اس پوری ملاقات کے دوران نیچے فرش پر ہی بیٹھے رہے۔راقم کو ایک صحافی ملک عبدالحکیم کشمیری نے بتایا کہ چوہدری عبدالمجید کبھی کسی پریس کانفرنس میں کے ۔ایچ خورشید کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے ۔حکیم کے بقول وہ دل سے خورشید صاحب کا احترام کرتے ہیں۔

’’گھر کی فریج خورشید صاحب نے ہسپتال بھجوا دی ، انتقال کے وقت جیب سے 35روپے نکلے‘‘
جب ہم مظفرآباد میں تھے تو ایوان صدر(دو کمروں کے گھر) میں ایک بڑی فریج آئی ۔میں بہت خوش ہوئی کہ چلو اچھا ہوا کہ اب کھانے پینے کی چیزیں محفوظ رکھی جا سکیں گی۔ پھر ایک دن اچانک میں کچن میں گئی تو دیکھا فریج غائب ہے۔ باورچی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو خورشید صاحب نے سی ایم ایچ بھجوا دی ہے ۔ہوا یہ تھا کہ خورشید صاحب سی ایم ایچ k’ دورے پر گئے تو انہیں پتہ چلا کہ مریضوں کے لیے انجیکشن قریب کسی ڈاکٹر کے گھر فریج میں رکھے جاتے ہیںاور بوقت ضرورت وہاں سے لائے جاتے ہیں۔انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کسی کو ہدایت کی کہ جاؤ میرے گھر سے فریج اٹھا آؤ۔

اس دن جب خورشید صاحب گھر آئے تو میں روٹھی ہوئی باہر بیٹھی تھی۔انہوں نے پوچھا کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ میں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہوں مگر آپ نے فریج کیوں بھیج دی، اب کھانے پینے کی چیزیں کہاں رکھیں گے۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں یہاں اتنا تازہ ساگ جو لگا ہوا ہے۔اس وقت وہاں ہمارے گھر کے سامنے بہت ساگ اُگتا تھا۔

میری ہنسی چھوٹ گئی اور کہا اب کیا دو سال کے بچے کو بھی ساگ کھلائیں اور خود بھی صبح شام ساگ کھائیں؟اسی طرح جب وہ لاہور یا راولپنڈی جانے لگتے تو میں انہیں کہتی کہ کچھ جیب خرچ وغیرہ دیتے جائیں تو اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیتے ارے اتنا ساگ جو لگا ہوا ہے ۔میںکہتی کہ بچوں کے لیے دودھ وغیرہ لینا پڑتا ہے تو ’’اچھا بھئی ! ہو جائے گا کہیں سے بندوبست‘‘ کہہ کرٹال دیتے تھے۔جب خورشید صاحب حادثے کا شکار ہوئے تو ان کی جیب سے 35روپے نکلے۔ شاید انہوں نے 65روپے کی ٹکٹ خریدی اور جو پیسے بچ رہے وہ ان کی جیب میں تھے۔ خیال رہے کہ قائداعظم کا سیکریٹری اور ایک ریاست کا صدر رہنے والا یہ شخص جب ٹریفک حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہوا تو وہ ایک عام بس میں میرپور سے گوجرانوالہ جا رہا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔