دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

رضاالحق صدیقی  بدھ 21 دسمبر 2016
امریکہ کی اچھائیوں اور انسانی حقوق اور وہاں مساوات پر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ مساوات کا جو درس ہماری میراث تھا اب غیر اس پر عمل پیرا ہیں۔

امریکہ کی اچھائیوں اور انسانی حقوق اور وہاں مساوات پر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ مساوات کا جو درس ہماری میراث تھا اب غیر اس پر عمل پیرا ہیں۔

قدرتی لینڈ مارک ۔ لیورے کیونز

امریکہ میں ابتدائی ایام تو رمضان المبارک کی وجہ سے زیادہ نکلنا نہیں ہوا، لیکن پھر چل سو چل۔ یہ ملک ایک عجائبات کا گڑھ ہے، میں کم سے کم وقت میں یہاں چہار سو پھیلی حیرتوں کو دیکھ کر خود میں سمیٹ لینا چاہتا تھا۔ عدیل نے ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان حیرتوں کو دکھانے کا پروگرام مرتب کر رکھا تھا اور ان حیرتوں میں سے ایک حیرت لیورے کیونز (Luray Caverns) ہے۔

لیورے کیونز امریکہ کی ریاست ورجینیا میں شینن ڈوا ویلی کے شہر لیورے میں سکائی لائن ڈرائیو اور نیشنل پارک کے نزدیک واقع ہیں۔لیورے کیون دیکھ کر اللہ کی قدرت کا احساس بڑی شدت سے ہوتا ہے۔ 64 ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ کیونز سن 1878ء میں دریافت ہوئے۔ ان بڑے غاروں کی ارضیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ زیرِ زمین دریاؤں اور تیزاب ملے پانی، چونے کے پتھروں اور مٹی کی تہوں میں چالیس لاکھ سالہ رساؤ کے عمل نے ان غاروں کی تشکیل میں مدد دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کی تہیں صاف ہوتی چلی گئیں اور صرف چونے اور پتھروں کے شیل (چھلکے) باقی رہ گئے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

کیورن بننے اور چونے کے پانی کے گرنے سے دھاتی ٹکڑوں کی تشکیل و ترقی کے عمل کی مدت کے بعد یہ کیون (بڑے غار) برفانی مٹی سے بھر گئے۔ تیزاب کی آمیزش والی مٹی نے ان کو چھجوں میں کاٹ کر ان کی وضع قطع میں تبدیلی کردی، پھر جب بہتے پانی نے مٹی کو بہادیا تو تراش خراش اور مختلف تبدیلیوں نے ایک معدنی شے سے بن جانے والے ستونوں اور قلموں کو نئی شکلوں میں نمایاں کردیا۔ یہ کیون 30 سے 140 فٹ اونچے چیمبروں کے ایک گروپ پر مشتمل ہے جو بلاواسطہ لائیٹس سے منور کئے گئے ہیں۔ ان تمام چیمبروں کو کوریڈورز، سیڑھیوں اور پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے۔

ہمارا پانچ رکنی وفد جب وہاں پہنچا تو ہمارے آگے ہمارے جیسے وفود کی ایک لمبی قطار تھی، ہمیں ٹکٹ لینے اور غار میں اترنے والی سیڑھیوں تک پہنچنے میں تقریباََِ ایک گھنٹہ لگ گیا۔ کیون (بڑے غار) کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غار میں اترنے کیلئے ہمیں 178 سیڑھیاں اترنا پڑیں۔ لیورے کیون میں سیڑھیاں اترتے ہی غار کی ہموار سطح پر انتظامیہ کا ایک فرد کیون کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ ہمیں کسی جگہ بھی گھٹن کا احساس نہیں ہوا۔ ہوا کس سمت سے اندر آرہی تھی اس کا کوئی اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ کیون کے اندر درجہ حرارت خاصا کم تھا، بعض جگہ تو ٹھنڈک کا احساس بھی ہورہا تھا۔ ان کیون میں ایک پورا چکر تقریباََ ایک گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے، درمیان میں واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

ارضیاتی تغیر نے ان غاروں میں نوک دار ماربل کرسٹلز سے بے شمار شکلیں بنا دی ہیں۔ پاکستان میں کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کی سیر کرنے والا یہاں کے تحیر کا معمولی سا اندازہ لگا سکتا ہے، ہم نے تو کھیوڑہ کی کانیں بھی نہیں دیکھی تھیں اس لئے ہمارے لئے تو یہ بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ تحیر اور خوف کی ملی جلی کیفیت ہم پر طاری تھی، تحیر کا عالم کہتا تھا کہ،

’’تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘

خوف اِس امر کا کہ جگہ جگہ سے پانی ٹپک رہا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارا اسٹرکچر اب گرا کے تب گرا۔ ان کیونز کی خوبصورتی محسوس کی جاسکتی ہے، الفاظ میں بیان کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس کی اندرونی خوبصورتی کو محفوظ کرنے میں ہمارا ویڈیو کیمرا بھی ناکام ہوتا محسوس ہورہا تھا۔

انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قدیم تہذیبوں کی ابتداء میں انسان غاروں کو اپنی بود وباش کے لئے استعمال کیا کرتا تھا، تاریخ دان کہتے ہیں کہ انسان کا قدیم ترین ڈھانچہ جنوبی افریقہ کے غاروں کی کھدائی کے دوران برآمد ہوا۔ تہذیب و تمدن میں غاروں کا بہت عمل دخل ہے۔زمانہ قدیم میں جب انسان غاروں میں قیام پذیر تھا تو نوکیلے پتھروں سے شکار کرتا تھا، اسی دوران پتھروں کے آپس میں رگڑ کھانے سے جو شعلہ برآمد ہوا اس نے جہاں آگ کا تصور دلایا اور انسان کچے گوشت سے خوراک کو بھون کر کھانے لگا، وہیں آگ کو دیوتا قرار دے دیا گیا اور زرتشت مذہب نے جنم لیا۔

اسلام میں غاروں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رب نے انسانیت کا پہلا درس ایک غار میں ہی دیا۔

مکہ سے چار کلو میٹر جنوب میں واقع جبل نور کی چوٹی پر واقع غار حرا میں ایک شخصیت عبادت میں مصروف ہے اچانک غار میں ایک آواز گونجی:

اقراء یعنی پڑھ

یہ مکالمہ تھا خدا کے پیام رساں اور محسن انسانیت کے درمیان، عرش اور فرش کے اس رابطے کے دوران خالق کائنات نے عبد کو معبود سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا۔

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

اللہ کی جانب سے وحی کا آغاز ایک غار سے ہی ہوا۔ حرا، کوئی کیون نہیں ہے بلکہ ایک چھوٹا سا غار ہے لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے یہ غار بڑے سے بڑے کیون سے بڑا ہے۔ کائنات کی سب سے بڑی تہذیب کا آغاز اسی غار سے ہوا۔

لیورے کیون میں میرے ذہن میں یہی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اسی سوچ اور تصور نے میرے دل سے خوف کا عنصر محو کردیا۔ میرے دماغ میں ایک ندا گونجی کہ میرے آقا سرور کائنات  صلی اللہ علیہ وآل وسلم بھی تو ایک غار میں ہی تھے جب اللہ ان سے ہم کلام ہوا۔ جب وہ بلا کسی خوف کے وہاں موجود تھے تو ایک امتی کی حیثیت میں مجھے بھی بلا خوف کیون کی سیر کرنی چاہیئے کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس ذہنی کشمکش نے مجھے خوف سے آزاد کردیا اور میں اللہ کی قدرت کو ایک نئے انداز میں دیکھنے لگا۔

لاکھوں سال کے قدرتی تخلیقی عمل نے ان کیونز کو اللہ کی قدرت کا شاہکار بنا دیا ہے۔ ماہرین اس قدرتی عمل کو 40 لاکھ سال پر محیط قرار دیتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کا یہ شاہکار اب سے 129 سال پہلے اس وقت دریافت ہوا جب ایک مقامی شخص اپنی بھتیجی اور چند اور افراد کے ساتھ اس مقام سے گزر رہا تھا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کسی جانب سے آتے محسوس ہوئے انہوں نے کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ پہاڑ کی ایک کھوہ سے یہ ہوا آرہی ہے، جس کی کھدائی پر یہ غار دریافت ہوئے۔

دنیا بھر میں اب تک بے شمار کیونز دریافت ہوچکے ہیں۔ صرف امریکہ میں 1104 بڑے اور چھوٹے غار دریافت ہوچکے ہیں، جن میں وسعت کے اعتبار سے مامتھ غاروں کا سلسلہ سب سے بڑا ہے۔ یہ سلسلہ 400 میل پر پھیلا ہوا ہے، جبکہ گہرائی کے لحاظ سے 1623 فٹ گہرے ہیں۔ اِس کے باوجود ان کیونز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ اپنی خوبصورتی اور مسخر کردینے والی خصوصیات کی بناء پر شاندار قدرتی عجائبات میں سے ایک ہیں اور ایک جادوانی عظمت کا نشان ہیں۔ نیشنل جیو گرافک نے ان کیونز کو فیری لینڈ آف اسٹون قرار دیا ہے۔

ہم سب نے اس سارے وقت، ایسا محسوس کیا جیسے پتھروں کے ان عجائبات نے ہمیں اپنا اسیر کرلیا ہو۔

امریکی پاک ٹی ہاؤس

ہمیں شینن ڈوا سے واپس آئے تین چار روز ہوگئے تھے۔ اب اگلا پروگرام نیویارک جانے کا تھا۔ اس پروگرام پر عملدرآمد میں ابھی آٹھ دس دن باقی تھے۔ اگرچہ امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے لیکن اس کا دل نیویارک ہے۔ وہ کہاوت پاکستان میں مشہور ہے ناں، ’’جنے لہور نئی دیکھیا او جمیا ای نئیں‘‘ یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ نیویارک دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہوگیا تھا کہ جو امریکہ آئے اور نیویارک نہ جائے وہ سیاح ہی نہیں، نیویارک میں دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

نیویارک جانے سے پہلے اب ہمارا زیادہ تر وقت ڈاؤن ٹاؤن کی گلیوں کی گرد چھانتے گزر رہی تھی، گرد چھاننا تو محاورہ کے طور پر لکھا گیا ورنہ گرد کا تو وہاں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ڈاؤن ٹاؤن میں چھوٹے بڑے اسٹورز ایسے ہی تھے جیسے لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں لنک روڈ پر ہیں۔ کھانے پینے کی دکانیں ہیں، فلم دیکھنا ہو تو سنیما بھی موجود ہے، معیار کے اعتبار سے اچھے اسٹورز بھی ہیں اور ون ڈالر شاپ بھی ہیں۔ ایک روز گزرتے ہوئے میری نظر ایک شاپ پر پڑی، میں نے دیکھا کہ شاپ کے اندر اور باہر بچھی ہوئی میز کرسیوں پر براجمان خواتین و حضرات نہایت یکسوئی سے یا تو کچھ لکھ پڑھ رہے تھے یا ان کے آگے لیپ ٹاپ کھلے ہوئے تھے جن پر یہ لوگ کام کر رہے تھے۔ چلتے چلتے میں نے رابعہ سے پوچھا،

یہ کوئی دفتر ہے کیا؟

نہیں ابو، یہ دفتر نہیں ہے۔ یہ ایک مشہور کافی شاپ کی ایک چین ہے۔ ایسے کافی شاپ ہر جگہ ہیں، یہاں انٹرنیٹ وائی فائی کی سہولت دستیاب ہے۔ آپ کافی کا ایک کپ خریدیں اور پھر بے شک سارا دن یہاں کے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر پڑھیں، لکھیں، لیپ ٹاپ استعمال کریں۔ کوئی بھی شخص ان سے نہیں پوچھتا کہ آپ آٹھ دس گھنٹے سے ایک کپ کافی خرید کر یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ بلکہ کافی شاپ کے مالکان خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کافی شاپ پڑھے لکھے افراد کا گڑھ ہے۔

مجھے بے ساختہ برسوں پہلے کا پاک ٹی ہاوس یاد آگیا، جس کی ہر ٹیبل پر کوئی نہ کوئی نامور ادیب، نوواردانِ ادب کو لئے بیٹھا نظر آتا تھا۔ ایک میز پر اسرار زیدی مرحوم بیٹھے نظر آتے تھے۔ دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تنہا کرسی پر زاہد حسین ہمیشہ کتاب پڑھتے نظر آتے تھے۔ بخش الہی وقفے وقفے سے یا کسی نئے آنے والے کی تواضع کے لئے چائے مہیا کر رہا ہوتا تھا۔ پاک ٹی ہاؤس کا روزانہ کا منظرنامہ کچھ ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہاں بھی کوئی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ میاں گھنٹوں سے یہاں کس سلسلے میں بیٹھے ہو؟ خالد احمد مرحوم سے ہماری پہلی ملاقات یہیں پر ہوئی تھی، جب وہ ایک تقریب کے لئے ہم ادیبوں کو ساہیوال میں ایک تقریب کے لئے مدعو کرنے آئے تھے، بعد میں تو خالد احمد سے روزانہ ملاقات ہونے لگی کیوںکہ وہ واپڈا کے شعبہ تعلقاتِ عامہ میں ملازم تھے اور ہماری بھی وہیں تعیناتی ہوئی تھی۔ پاک ٹی ہاوس کی ٹیبل، چائے کا ایک ہاف سیٹ اور بیٹھنے کا وقت مقرر نہیں۔ کچھ یہی حال کیفے ڈی روز ساہیوال کا تھا۔

عدیل کے فلیٹ سے سڑک کی دوسری جانب واقع پارکنگ لاٹ کے ساتھ بنے ہوئے ہال سے ہفتہ اور اتوار کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اتنا ہنگامہ ہوتا تھا کہ سونا حرام ہوجاتا تھا، ہفتے کی دوپہر سے ہی یہاں لڑکے لڑکیوں کی لائینیں لگ جاتی تھیں اور یہ لائینیں حد نظر تک نظر آرہی ہوتی تھیں۔ یہاں موسیقی کا خاصا کریز ہے، چھٹی کا دن ہو اور پسندیدہ فنکار کا کنسرٹ بھی، تو لائینوں میں لگنا بنتا ہی ہے۔

اس روز بھی ہفتہ کا روز ہی تھا، لائنیں بھی ویسے ہی لگی ہوئیں تھیں، میں فلیٹ کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ آج لائنیں کچھ زیادہ ہی بڑی تھیں شاید کوئی بڑا فنکار آرہا تھا، ان لائینوں میں ستواں سی ناک والی وہ امریکی لڑکی جو اپنے خدوخال سے امریکی نہیں لگتی تھی، آنکھوں میں خمار لئے تنگ سی شارٹ اور شرٹ میں اپنے آپ کو چھلکاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور ساتھ کھڑے لڑکوں پر گری گری پڑ رہی تھی۔

وہی امریکن لڑکی آج ڈاؤن ٹاؤن کے اس کافی ہاؤس کے باہر لگی ہوئی ایک کرسی میز پر اپنا لیپ ٹاپ ٹکائے اپنے کام میں ایسی مصروف تھی کہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔ سنجیدگی اس کے چہرے پر طاری تھی۔ لیپ ٹاپ کے ساتھ کتابوں کا ڈھیر تھا اور ایک کافی کا مگ بھی نظر آرہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کتابوں میں دفن ہوگئی ہو۔

ہم وہاں سے گزرتے چلے گئے، کیمونٹی ہال اور آئی میکس (سنیما) کی درمیانی سڑک سے دائیں ہاتھ مڑ کر ہم ہول مارٹ چلے گئے۔ رابعہ نے کچھ پھل، سبزی لینا تھی۔ وہ وہاں ضرورت کی چیزیں دیکھنے لگی، عنایہ دادی کے ساتھ ہر چیز کے اسٹال پر رکتی ہوئی آگے جا رہی تھی۔ وہاں جو چیز مجھے پسند آئی وہ وہاں لگی ہوئی فریش اورنج جوس کی مشین تھی جس کے اوپر والے حصے میں اورنج بھرے ہوئے تھے. اس مشین کے نیچے کی جانب نوزل لگی ہوئی تھی، ساتھ میں مختلف اوزان کی خالی پلاسٹک کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں جن پر اس میں جتنا جوس آسکتا تھا اس کے مطابق قیمت درج تھی۔ نوزل کے اوپر لگے بٹن کو دبائیں تو بوتل تازہ پانی کی ملاوٹ سے پاک خالص جوس سے بھر جاتی ہے۔ اورنج چھیلنے کی زحمت، نہ جراثیم لگنے کا خوف اور نہ ہیپاٹیٹس پھیلنے کا خطرہ، ایکدم حفظانِ صحت کے مطابق خالص جوس۔ مجھے تو اس کا ایسا چسکا پڑا کہ ہر روز سیر کے لئے ڈاؤن ٹاؤن چلے جاتے تھے اور واپسی پر جوس کی لارج سائز بوتل ہمارے ساتھ ہوتی تھی۔

لکڑی کے دیوار و در

ایک روز ہم گھر پر ہی موجود تھے، رابعہ کہنے لگی، ابو آپ کو معلوم ہے ہمارا یہ فلیٹ، اس کی دیواریں، فرش اور چھتیں سب کچھ لکڑی کا بنا ہوا ہے۔

میں بڑا حیران ہوا، میں نے کہا! وڈ فلورنگ تو میں نے دیکھی ہے، اگرچہ یہاں تمہارے سارے فلیٹ میں موٹا سا قالین بچھا ہوا ہے لیکن بعض جگہ ٹھک کی سی آواز آتی ہے جیسے لکڑی کا فرش ہو، لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دس، گیارہ منزلہ عمارت ہو اور تمام کی تمام لکڑی کی بنی ہوئی ہو۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔

آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے ناں، عدیل سے پوچھ لیں، جب شام کو وہ آئیں گے۔ رابعہ نے کہا۔

ٹھیک ہے۔ اس سے بھی پوچھ لیں گے، ویسے یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ کم از کم بنیادیں ہی کنکریٹ کی کہہ دیتیں، بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی۔ میں نے بے یقینی کے سے انداز میں جواب دیا۔

رابعہ کو عنایہ نے بلالیا اور وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ شام کو جب عدیل آیا تو چائے کا دور چلا۔ عدیل پھر اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اس کا کام ہی ایسا ہے، میں صوفے پر نیم دراز تھا۔ اتنے میں رابعہ کچن میں چائے کے برتن رکھ کر آگئی۔ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی، ابو، اب عدیل سے پوچھ لیں میری بات پر تو آپ کو یقین نہیں تھا۔

عدیل نے میری اور رابعہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، کیا ہوگیا؟ آپ نے رابعہ کی کس بات کا بقین نہیں کیا؟

ارے یار کوئی خاص بات نہیں ہے، رابعہ کہہ رہی تھی امریکہ میں یہ جو کئی کئی منزلہ عمارتیں ہیں سب لکڑی کی بنی ہوئی ہیں جبکہ میں کہہ رہا تھا کہ ایک یا دو منزلہ تو لکڑی کی ہوسکتی ہیں لیکن یہ کئی کئی منزلہ نہیں ہو سکتیں۔ بس اتنی سی بات تھی میں نے کہا۔

ہم دونوں کی گفتگو سن کرعدیل کہنے لگا، آپ دونوں ہی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ دراصل امریکہ میں سارے گھر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ بیسمنٹ کی دیواریں اور عمارتوں کی ایک دو منزلوں کی چاروں دیواریں پتھر بھر کر مضبوط کی جاتی ہیں، باقی ساری عمارتیں، اندرونی دیواریں، چھت، سیڑھیاں اور فرش لکڑی کے ہوتے ہیں۔ دیواروں کی موٹائی دونوں طرف کی لکڑی کی شیٹوں میں فوم بھر کر کی جاتی ہے۔ یہ بنی بنائی بھی مل جاتی ہیں، آپ نے ہر وقت یہاں فائر بریگیڈ کی آوازیں سنی ہیں۔ لکڑی کی عمارتوں میں آگ لگنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، یہاں عمارتوں میں اسموک الارم لگے ہوتے ہیں۔ آگ نہ بھی لگے اور عمارت میں صرف زیادہ دھواں بھر جائے تب بھی یہ الارم بج اٹھتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ فائر بریگیڈ چند منٹوں میں جائے وقوع پر پہنچ جاتی ہے۔

میرے لئے یہ حیرت کی بات اور اطلاع تھی کہ سارے کا سارا مکان ہی لکڑی کا بنا ہوتا ہے لیکن کسی جانب سے لکڑی کا نہیں لگتا۔ میرے لئے یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ امریکہ میں باؤنڈری وال یا آہنی گیٹ لگانے کا کوئی تصور نہیں ہے، نہ ہی گرل یا جالی لگائی جاتی ہے۔کھڑکیاں چوڑی اور شیشے کی ہوتی ہیں، خطرے کا الارم بڑے گھروں میں ہوتا ہے، ہر گھر میں نہیں ہوتا۔ سنگل یا ڈبل بیڈ روم اپارٹمنٹس کی کھڑکیوں پر صرف شیشہ لگا ہوتا ہے۔ یہاں چوری کا خطرہ نہیں ہوتا، نہ کسی دہشت گرد کے گھس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

لوگ پُرامن فضاء میں جیتے ہیں۔ چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی ہوں گی لیکن ہمارے ہاں کی طرح نہیں۔ یہاں ہمارے ہاں کی طرح اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوئے نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ گرل اور آہنی جالی کے اندر ہمارے پنجرہ گھروں میں بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ گرل کاٹ لینا، گھر کے اندر گھس آنا، منٹوں میں گھر میں مزاحمت کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دینا، مال و متاع لوٹ کر کھلےعام نکل جانا ہمارے ہاں معمول کی باتیں ہیں۔ ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں کہ انتظامیہ ہمارا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔

ہم انسان سے حیوان کیوں بنتے جارہے ہیں؟ تحفظ کی خاطر گھروں کی موٹی موٹی گرلوں اور جالیوں سے پنجرے بنا کر بھی ہم غیر محفوظ ہی رہتے ہیں۔ میں امریکہ میں جہاں بھی گیا، بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکیاں دیکھیں۔ ان گھروں کے مکینوں کو ان خالی شیشوں کی وجہ سے پریشان ہوتے نہیں دیکھا۔ وہاں لوگ پُرسکون اور محفوظ ہیں، انہیں اِس بات کا ڈر نہیں ہے کہ شیشے کی کھڑکی توڑ کر کوئی اندر آجائے گا، گلہ گھونٹ دے گا اور لوٹ مار کرے گا۔ وہاں بھی جرائم ہوتے ہیں لیکن ہماری طرح کے نہیں۔ وہاں یا تو نفسیاتی مجرم ہوتے ہیں یا زیادہ تر کالے پسے ہوئے لوگ، یا پھر کچھ بگڑے ہوئے نشہ باز نوجوان گورے۔

عام آدمی وہاں ہر طرح سے محفوظ ہے، امن و امان سے رہ رہا ہے۔ زندگی کی آسائشوں اور ممکنہ سہولتوں سے بغیر کسی دھڑکے اور خدشے کے لطف اندوز ہورہا ہے۔ عدیل نے بتایا کہ دو سال پہلے ڈسکوری چینل میں ایک نفسیاتی مریض نے اندر داخل ہو کر عملے کو یرغمال بنالیا تھا۔ پولیس 36 گھنٹوں تک اُسے سمجھاتی رہی، اُس سے مذاکرات کرتی رہی لیکن وہ باز نہیں آیا بلکہ یرغمالیوں کو مارنے کا ارادہ ظاہر کیا، جس پر پولیس نے سامنے والی بلڈنگ پر موجود اسنائپر کو اشارہ کیا اور عملے کے تحفظ کے لئے اسے گولی مار دی۔ یہ رویہ بعض کی نظر میں بے رحمانہ ہوسکتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو وہاں کا نظام زندگی ان کے ایسے ہی اقدامات کی بناء پر پُرسکون ہے۔

ہم اپنے ہاں خلفائے راشدین کے عہد کی مثالیں دیتے ہیں کہ شیر بکری ان کے دور میں ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے، امن وامان تھا، جرائم کا تصور بھی نہ تھا، ایسا نظر تو پاکستان میں آنا چاہیئے تھا لیکن اس کی عملی شکل ہم نے امریکہ میں دیکھی۔ ہماری بیگم کی ایک اسکول کے زمانے کی دوست تھیں جب وہ کراچی میں رہتی تھیں۔ اس بار ہم امریکہ آئے تو ہماری بیگم نے 42 سال بعد انہیں تلاش کرلیا۔ ہم ان کے گھر گئے، اُن کا گھر کوئی چار ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا، ہماری بیگم کی اپنی سہیلی کے ساتھ باتیں تھیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی تھیں، دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، وہ ان کے پاس چار چار ماہ کے لئے چلی جاتی ہیں۔ پیچھے گھر خالی ہوتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ گھر کو لاک کرکے نہیں جاتیں۔ جبکہ ان کے گھر کی کوئی چار دیواری نہیں ہے، کوئی گیٹ نہیں ہے، سڑک سے ڈرائیو وے ان کے گھر کے مرکزی دروازے تک جاتا ہے۔ کس قدر فرق ہے ہمارے اور امریکی معاشرے میں۔

جب بھی میں پاکستانی اور امریکی معاشرے میں رویوں کے فرق کودیکھتا ہوں، وہاں کی اچھائیوں اور انسانی حقوق اور وہاں مساوات پر نظر ڈالتا ہوں تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ مساوات کا جو درس ہماری میراث تھا اب غیر اُس پر عمل پیرا ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔