دھرنا ختم نہ کرانے پر آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس

ویب ڈیسک  پير 20 نومبر 2017
سب کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جا ری کروں گا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ فوٹو: فائل

سب کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جا ری کروں گا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے دھرنا ختم کرانے میں ناکامی پر آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنے کے خلاف  دائر درخواستوں کی سماعت کی جس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ  یہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرانے پر سب کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کردوں گا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومتی قیادت دھرنا قائدین سے مذاکرات کر رہی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 8 لاکھ آبادی کے حقوق کو ہائیکورٹ نظر انداز نہیں کر سکتی، یہاں تاجروں، طلباء اور مریضوں کا کیا قصور ہے، یہ سارا معاملہ اسلام آباد انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت سے ہوا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ کا مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کا حکم 

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کچھ باتیں کھلی عدالت میں نہیں بتا سکتے۔ جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں، آپ نے تو یہی کہنا ہوگا کہ ان کے پاس ہتھیارہیں۔ ہائی کورٹ نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر وزیر داخلہ احسن اقبال اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا جو عدالت میں پیش ہوگئے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم عدولی کے بعد وقت نہیں مانگا جاتا، کیا آپ لاچار ہیں، سیکڑوں افراد گرفتار کریں یا درجنوں ایف آئی آر کاٹیں، بس دھرنا ختم کرائیں اور یہ کام عدالت پر نہ ڈالیں بلکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے جسے پورا کریں، اگر مسئلے کے حل کے لیے مشائخ، علماء ،اسکالر یا ٹی وی اینکرز کو بٹھائیں گے تو عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : سازشی چاہتے ہیں ملک میں لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ ہو

جسٹس شوکت عزیز نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ احسن صاحب ابھی تک کورٹ کا آرڈر پورا کیوں نہیں ہوا جس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مختلف مذہبی جماعتوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے، جسٹس شوکت نے کہا کہ جب ایک جگہ کی نشاندہی کی ہوئی ہے تو ان کو وہاں بیٹھنے کا کیوں نہیں کہا گیا جس پر وزیر داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ لوگ لاہور سے نکلے تو یقین دلایاکہ احتجاج ریکارڈ کراکے واپس آ جائیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ احسن صاحب عدالت نے آپ کو ذمہ داری یاد دلائی ہے، لاک ڈاؤن کی دھمکی پر حکم نامے میں پیرا میٹرز واضح کیے تھے،  بڑی محنت سے پیرا میٹرز سیٹ کیے، لیکن ان پر عمل نہیں ہو رہا، انتظامیہ فیض آباد کو کلیئر کرے، یہ ان کی ذمہ داری ہے جب کہ یہ صرف مذہبی نہیں سیاسی جماعت ہے، الیکشن میں بھی حصہ لیا۔

وزیرداخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے کی قیادت کرنے والی جماعت تحریک لبیک نے این اے 120 اور این اے 4 میں حصہ لیا، ہمیں خدشہ ہے کہ یہ دھرنا آئندہ انتخابات کے لیے ہے جب کہ عدالتی احکامات دھرنے والوں کو بتا دیے ہیں، جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس میں کہا کہ آپ بطور وزیر داخلہ حکم دیں۔

جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے میں عدالت کا احترام نہیں کیا گیا، ہم نے کوئی انہونی بات نہیں کی، دھرنا ختم کرنے کا حکم برقرار ہے عمل درآمد نہ کرنے پر آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے، آپ قانون میں رہ کر کارروائی کریں، عدالت قانون سے ہٹ کر کوئی حکم نہیں دیتی، عدالت مذہبی گروپ ہے نہ سیاسی، ہمیں شہریوں کے حقوق کو تحفظ دینے سے غرض ہے، ریاست کی رٹ قائم کرنا ہوگی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کی ڈیڈ لائن ختم

عدالت نے آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردیے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد نہ کرنے پر کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے جب کہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے دھرنا ختم کرانے کے احکامات پر عمل درآمد کے لیے عدالت سے مزید مہلت مانگ لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔