علامہ اقبال نوجوانوں سے کیا چاہتے تھے؟

پلوشہ اقبال  پير 20 نومبر 2017
علامہ اقبال نوجوان نسل میں ایک شاہین کی صفات کے حامل مرد مومن کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں  فوٹو:فائل

علامہ اقبال نوجوان نسل میں ایک شاہین کی صفات کے حامل مرد مومن کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں فوٹو:فائل

اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر رحم کرتا ہے تو اسے مدبر انسانوں سے نوازتا ہے۔ جب کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اس میں سے بڑے لوگوں کو اٹھالیتاہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں جب تحرک و فعالیت ختم ہو چکی تھی، وہ بے عمل ہو گئے تھے، جمود کا شکار ہوگئے تھے، بس! ہاتھ پر ہاتھ دھرے اچھے دنوںکا انتظار کر رہے تھے، ان کی مثال ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند ہو چکی تھی تو ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اسے’اقبال‘ عطا فرمایا۔ اس بڑے آدمی نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک تلاطم پیدا کردیا جس کے نتیجے میں مسلمان قوم عمل پر کمربستہ ہوگئی۔

1876ء میں شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اپنی حکمت و تاثیر سے بھرپور کلام کے نتیجے میں شاعر مشرق اور حکیم الامت، دانائے راز قرارپایا اور مفکر پاکستان، مصورِ پاکستان، شمسِ آفاق بلاغت، کاشفِ رمز ہدایت، ترجمان خودی بے خودی، ترجمان اسلام، محرم اسرارِ حیات، محرم اسرارِ فطرت کے طور پر ماناگیا،وہ عظیم فلسفی، عظیم مدبر، شاعر فردا، رعنائیوں کا گلدستہ، لامحدود خوبیوں کا مرقع بنا۔

علامہ اقبال اپنی شاعرانہ فکر اور اظہار کے قرینے کے اعتبار سے سمندر تھے، ایسا سمندر جس کے خشک ہونے کا تصور ممکن ہی نہیں۔ اقبال کا فن وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور جس کا صرف ساحل سے نظارہ کافی نہیں۔ انھوںنے عام شاعروں کی طرح پھول اور بلبل کی محبت کی کہانیوں کے گرد گھومنے والی شاعری نہیںکی بلکہ ان کی شاعری فکر، سوچ، تخیل اور عقل و شعور کا خزانہ ہے۔

انھیں ’شاعر فردا‘ بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی نظر حال سے زیادہ مستقبل پر رکھی۔ علامہ اقبال کو نوجوانوں سے خاص لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوانوں سے ہم کلام ہونے میں خاص کشش محسوس کرتے تھے، دراصل نوجوانوں میں کسی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ اس کے مطابق زندگی کو تعمیر کرنے کا جذبہ اور عزم بھی ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں کسی قوم کی ترقی اور عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا وجود ہے جو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک ہوں۔

قوم را سرمایہ ای صاحب نظر
نیست از نقد و قماش و سیم و زر
مال او فرزند ھای تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست

یعنی اے صاحب نظر قوم کا سرمایہ روپیہ پیسہ، لباس، چاندی اور سونا نہیں ہوتا بلکہ قوم کی اصل دولت تندرست، ذہین، محنتی، چاق چوبند نوجوان ہوتے ہیں۔ اس کا عملی ثبوت ہم نے1965ء کی جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا کر پیش کیا تھا۔ تاریخ ساز جنگ جس میں اسلحے کی کمی ضرور تھی لیکن جوش جذبے کی کمی نہ تھی۔علامہ اقبال اچھے دنوں کے لیے پرامید تھے۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اقبال جگانے کے لیے آئے تھے، وہ چلے گئے تو ہم پھر سوگئے۔ ہماری قوم میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف ایک ’دیدہ ور‘ کی، اچھے رہنما کی۔ آج ہمیں پھر اقبال کی ضرورت ہے جو اس سوئی ہوئی قوم کو پھر سے جگا دے۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ نوجوان ان کا پیغام سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ صاحب کردار بنیں اور صاحب فکر و نظر بھی۔ اگر ہمیں عروج حاصل کرنا ہے تو یہ نعمت مغربی تہذیب کو اختیار کرنے سے نہیں مل سکتی۔ ہمیں بے نیازی کی صفت اختیار کرنا ہوگی جو اقبال کے ’مرد مومن‘ کی صفت ہے۔

جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے سوا کسی کا محتاج بننا پسند نہیں کرتا۔ یہی چیز اس کی قوت و طاقت کا باعث ہے۔ اس کے برعکس تہذیب مغرب نے نوجوانوں کو حریص بنا دیا ہے۔ اس تہذیب کی پیروی نے نوجوانوں کی روحانی اور اخلاقی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی نادانی ہے کہ وہ اس ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہو گئے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں ورنہ

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

علامہ اقبال نوجوان نسل میں ایک شاہین کی صفات کے حامل مرد مومن کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونا ہے، خیالوں میں بلندی پیدا کرنی ہے اور اڑان بھی اونچی رکھنی ہے، خود اعتمادی کو اپنا ہتھیار بنانا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال کر ستاروں سے بھی آگے جہانوں کی جستجو کرنی ہے کیونکہ:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

تن آسانی کو ترک کرکے محنت اور جفاکشی کی ایسی روش اپنانی ہے جس کی بار بار اقبال نے تلقین کی۔ یہی اقبال کا پیغام ہے اور اقبال کی آرزو بھی۔ شاعرمشرق کا پیغام کسی ناصح کا پیغام نہیں جس کی صدا محض زباں سے نکل کر ہوا کی سطح میں تموج تو پیدا کرے مگر د لوں میں طوفان برپا نہ کرسکے۔ کان اسے سنیں مگر دل اس کے آگے سر بہ سجدہ نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔