دھرنا ختم نہ کرانے پر وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

ویب ڈیسک  جمعـء 24 نومبر 2017
حساس ادارے تاثر ختم کریں کہ دھرنے کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو: فائل

حساس ادارے تاثر ختم کریں کہ دھرنے کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے دھرنا ختم نہ کرانے پر وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دھرنا کیس کی سماعت ہوئی جس میں چیف کمشنر ذوالفقار حیدر اور سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا پیش ہوئے۔ عدالت نے دھرنا ختم نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کرلیا، جب کہ کیس کی سماعت 27 نومبر پیر تک ملتوی کردی گئی۔

جسٹس شوکت صدیقی نے چیف کمشنر ذوالفقار حیدر کو حکم دیا کہ اگلے تین دن میں دھرنے کی جگہ خالی کرائیں، جب کہ سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا کو ہدایت کی کہ ختم نبوت ترمیم کی تحقیقات کرنے والی ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے ڈی جی آئی بی اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ حساس اداروں کی ذمہ داری ہے تاثر ختم کریں کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے ایجنسیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دھرنا مظاہرین وزیر قانون کے فوری استعفے کے مطالبے سے دستبردار

چیف کمشنر نے کہا کہ آپ عدالتی حکم میں طاقت کے استعمال کی ہدایت کر دیں۔ تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت یہ لائسنس نہیں دے سکتی کہ آپ مظاہرین پر سیدھی فائرنگ شروع کر دیں اور دھرنا ختم کرانے کے لیے گولی چلانے کی اجازت نہیں ہو گی،  آدھے سے زیادہ لوگ تو آنسو گیس کے شیلز سے ہی منتشر ہوجائیں گے، ختم نبوت صرف چند لوگوں کی نہیں پوری امت کی میراث ہے، ختم نبوت پر قربانی کا وقت آئے تو مولوی کم اور عام لوگ زیادہ ہونگے، ریاست کی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں، دھرنے اور احتجاج کیلئے متعین میرٹس کو یقینی بنایا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی، جبکہ حساس اداروں کی ذمہ داری ہے تاثر ختم کریں کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے ایجنسیاں ہیں۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ضروری نہیں فائر ہماری طرف سے ہو، بلکہ مظاہرین کی جانب سے بھی ہو سکتا ہے، ہم فساد سے بچنا چاہ رہے ہیں، جہاں ضرورت ہو گی وہاں ریاست طاقت کا استعمال کرے گی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف کمشنر سے پوچھا کہ عدالتی احکامات کے باوجود اب تک دھرنا کیوں ختم نہیں کرایا گیا، صاف صاف بتائیں کہ کس نے عدالتی حکم پر عملدرآمد سے روکا ہے اور نہ تو خود اپنے لیے الجھنیں پیدا کریں نہ ہمارے لیے۔ چیف کمشنر نے بتایا کہ ہمیں حکومت نے اقدام اٹھانے سے روکا ہوا ہے اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے خود یہ بات عدالت میں بھی کہی ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو کارروائی سے روک رکھا ہے، ہم مذاکرات کے زریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ نے خود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کیا، پھر آپ سب لوگ جیل جائیں گے، کوئی وفاقی وزیر یہاں تک کہ وزیراعظم بھی کیسے عدالت کی حکم عدولی کرسکتا ہے، یہ تو عدالت کے حکم کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے، وزیر داخلہ نے عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ کو کس اتھارٹی کے تحت دھرنا دینے والوں کے خلاف کارروائی سے روکا اور تاحال کوئی اقدام بھی نہیں کیا گیا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ وزیر داخلہ کے خلاف شو کاز نوٹس واپس لے لیں۔ اس پر عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل دے کہا کہ آپ وزیر کے ملازم ہیں یا وفاق کے؟۔

عدالت نے چیف کمشنر سے سوال کیا کہ فرض کریں دھرنا ختم کرانے کا عدالت کا حکم نہ ہوتا بلکہ سیکرٹری یا وزیر کا ہوتا تو پھر کیا کرتے آپ؟۔ چیف کمشنر ذوالفقار حیدر نے جواب دیا کہ یہ کمشنر کی صوابدید ہے کہ مذاکرات یا طاقت کا استعمال کرے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ کی صوابدید تب تک ہے جب تک عدالت کا حکم نہ ہو۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی معاملہ کے حوالے سے کام کر رہی ہے، جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ کمیٹی جدہ جائے یا بغداد، ہم سے ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہے۔ عدالت نے ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ ابھی پبلک نہ کریں اور جن لوگوں کے نام ہیں وہ باہر نہیں جائیں گے۔

چیف کمشنر نے بتایا کہ کارروائی سے روکنے کا مقصد مذاکرات جاری رکھنا ہے۔ سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ اگر ہم ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کریں گے تو بہت زیادہ خون بہے گا، تاہم جہاں ضرورت پیش آئی وہاں ریاست پوری طاقت استعمال کرے گی، ہم ریاست کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سب کچھ کر رہے ہیں، کچھ چیزیں یہاں نہیں بتا سکتا، چیمبر میں بلائیں تو تحریری طور پر بتا دوں گا۔

بعدازں تحریری حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ دھرنے کی قیادت بظاہر دہشت گردی کے عمل میں ملوث ہے، یہ آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ ریاست مخالف سرگرمی ہے، تمام ریاستی ادارے متحد ہو کر ان کے خلاف کارروائی کریں، دھرنے کو تین ہفتے مکمل ہونے کو ہیں، جڑواں شہروں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، مریض اسپتالوں تک رسائی کے لیے مر رہے ہیں، تاجر کاروباری سرگرمیاں بند ہونے کا رونا رو رہے ہیں،  اعلی عدلیہ کے معزز جج صاحبان سمیت دیگر افراد کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال ناقابل برداشت ہے۔

دھرنا ختم کرانے کی درخواست دائر کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب دو سو افراد سڑک پر ٹینٹ لگا رہے تھے تو اس وقت انہیں کیوں نہیں روکا گیا، اب تک ختم نبوت کے لیے قربانیاں عام افراد نے دیں ، پٹیشن میں اس فرد کا نمبر دے رکھا ہے جس نے اسٹریٹجک اینٹری پوائنٹ پر کنٹرول کر رکھا ہے ، کیا اس کے موبائل کا ڈیٹا نکلوا یا گیا ہے کہ وہ کس سے رابطے میں ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔