اسلام آباد دھرنا؛ قیام امن کے لیے فوج طلب

ویب ڈیسک  ہفتہ 25 نومبر 2017

 اسلام آباد: فیض آباد انٹر چینج پر پولیس اور ایف سی کے ہزاروں اہلکار دن بھر کی کوششوں کے باوجود علاقہ کلیئر نہیں کرا سکے جس کے بعد حکومت نے قیام امن کے لیے فوج کو طلب کرلیا ہے۔ 

نشریات براہ راست دیکھئے؛ https://www.youtube.com/watch?v=ZntopWITxYg 

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں امن و امان کے قیام کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں ، اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے نوٹی فکیشن جاری کردیا جس کے تحت فوج کو غیر معینہ مدت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن کے مطابق فوج کی طلبی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی ہے تاہم فوجی اہلکاروں کی نفری کا فیصلہ ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کریں گے۔

ہفتے کی صبح فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا ختم کرنے کی آخری ڈیڈلائن گزرنے کے بعد پولیس اور ایف سی اہلکاروں کی بھاری نفری نے علاقے کو کلیئر کرنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں مظاہرین اور اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ شام 4 بجے سے فیض آباد انٹر چینج سے پولیس اہلکار غائب ہیں جب کہ مظاہرین کے جتھے ایک مرتبہ پھر علاقے میں پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :اسلام آباد آپریشن کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور دھرنے

فیض آباد میں دھرنے کے مقام پر مظاہرین نے ہفتے کی صبح سے پولیس کی 12 گاڑیوں اور کئی موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کردیا جبکہ کئی سڑکیں بھی بند کردی گئی ہیں۔ پمز ہسپتال میں لائے گئے زخمیوں کی تعداد 150 ہوگئی ہے جن میں 45 پولیس اہلکار، 28 ایف سی اہلکار اور 44 عام شہری شامل ہیں۔ مظاہرین نے درختوں اور سامان کو بھی آگ لگادی ہے۔ پتھراؤ سے راولپنڈی کے پولیس چیف اسرار عباسی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیپٹن شعیب اور مجسٹریٹ عبدالہادی بھی زخمی ہوگئے اور کیپٹن شعیب کی گاڑی کو بھی مظاہرین نے نذرآتش کردیا۔

ابتدا میں سیکیورٹی فورسز دھرنے کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے وسیع علاقے کو کلیئر کرانے میں کامیاب ہوگئیں تاہم مرکزی خیمہ بدستور قائم رہا اور وہاں پر مظاہرین اور ان کی قیادت موجود ہے جن کا سیکیورٹی اہلکاروں نے محاصرہ کیا ہوا ہے۔ خیمے سے اعلانات ہورہے ہیں ۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کی آبائی حویلی پر مظاہرین کا دھاوا

ایس ایس پی آپریشنز کارروائی کی قیادت جب کہ چیف کمشنر اور آئی جی پولیس مانیٹرنگ کررہے ہیں۔ دھرنے کے اسٹیج پر مرکزی رہنما خادم حسین رضوی اور افضل قادری موجود ہیں اور پولیس کو مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے باعث شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ جب کہ گرد و نواح کے علاقوں اور گلیوں میں بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جس کے نتیجے میں جڑواں شہروں میں صورت حال شدید کشیدہ ہے۔

آپریشن کا سن کر راولپنڈی سے مظاہرین کی بڑی ریلی فیض آباد کے لئے روانہ ہوئی تاہم پولیس نے ڈنڈا بردار مظاہرین کو شمس آباد میں روک لیا اور ان پر شیلنگ کی۔ مظاہرین نے سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے بیریئر توڑ دئیے اور پولیس پر پتھراؤ کیا جب کہ مری روڈ کو بھی مکمل طور پر بلاک کردیا گیا ہے۔

جڑواں شہروں کے اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ تمام تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف مقامات پر مذہبی جماعت کے کارکنوں نے سڑکیں بلاک کردی ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : مظاہرین کے تشدد سے ن لیگی رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف زخمی

آج صبح سویرے سیکیورٹی اہلکاروں نے فیض آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے پیش قدمی کی تو مظاہرین نے سامنے سے پتھراؤ شروع کردیا۔ تاہم پولیس کی پیش قدمی جاری رہی اور انہوں نے مظاہرین کے قریب پہنچ کر ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

اس دوران سیکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے جن میں مظاہرین اور اہلکار دونوں شامل ہیں۔ پولیس کے لاٹھی چارج کے جواب میں مظاہرین نے بھی اہلکاروں پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا۔

پولیس نے بڑی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔ اب تک 50 سے زائد افراد کو حراست میں لے کر مختلف تھانوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ آپریشن کے آغاز میں پولیس کو فوری کامیابی حاصل ہوگئی اور انہوں نے 80 فیصد علاقے کو کلیئر کرالیا تاہم پھر مظاہرین کے قدم سنبھل گئے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :راولپنڈی میں چوہدری نثار کے گھر پر حملہ

قریبی مساجد سے دھرنا دوبارہ دینے کے اعلانات بھی کیے گئے جس کے نتیجے میں مظاہرین بڑی تعداد میں واپس آگئے اور پولیس کے ساتھ ان کا دو بدو تصادم ہوا۔ شدید شیلنگ کی وجہ سے علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ دھویں کے گہرے بادل چھا گئے اور ہر طرف پتھر بکھرے پڑے ہیں۔ اب تک فیض آباد کے وسیع علاقے کو کلیئر کرایا جاچکا ہے تاہم کہیں کہیں مظاہرین کی ٹولیوں اور پولیس میں تصادم جاری رہا۔

ایکسپریس ہائی وے اور راول ڈیم پر بھی مظاہرین اور پولیس میں تصادم جاری رہا۔ بہت سے مظاہرین راول پنڈی کی طرف بھی فرار ہوگئے ہیں۔ دھرنے کے مرکزی مقام پر بنائے گئے اسٹیج پر مظاہرین اور ان کی قیادت موجود ہے جب کہ پولیس نے ان کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔

دوسری جانب آپریشن کے خلاف تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں نے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کردیں اور ٹائر نذر آتش کیے۔

مظاہرین کی بڑی تعداد سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کے گھر پر بھی حملہ کیا اور ان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا اور گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی تاہم پولیس اورگارڈز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مظاہرین کو پیچھے دھکیل دیا۔

سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کی آبائی حویلی پر بھی مظاہرین نے دھاوا بول دیا اور حویلی کے اندر گھس کر کھڑکیاں، دروازے اور فرنیچر کونقصان پہنچایا۔ حویلی میں موجود پولیس اہلکاروں نے مزاحمت کی تاہم مظاہرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حالات کو قابو نہیں کیا جاسکا جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری کو طلب کرکے حویلی میں تعینات کردیا گیا ہے۔

ادھر مظاہرین سے مذاکرات کے لیے حکمران جماعت کے ایم این اے جاوید لطیف بتی چوک پر پہنچے تو مشتعل افراد نے ان پر حملہ کردیا جس سے وہ اور ان کے ساتھی زخمی ہوگئے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں 20 روز سے مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری تھا اور مظاہرین  الیکشن کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ نے مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کے لیے آج صبح 7 بجے تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جو ختم ہونے پر آپریشن کیا گیا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعدد بار دھرنا ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم احتجاج ختم نہیں کیا گیا۔ دھرنا ختم کرنے کے لیے حکومت نے اس سے پہلے دو بار ڈیڈلائن دی تھی لیکن دھرنا ختم نہیں کیا گیا جس پر انتظامیہ نے آج صبح 7 بجے تک کی تیسری اور آخری وارننگ دی تھی جو گزرنے پر آپریشن شروع کردیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔