نیشنل ہائی وے پرجعفرآباد سے کوئٹہ تک سفر (تیسرا حصہ)

ببرک کارمل جمالی  اتوار 28 جنوری 2018
بلوچستان کا سفر، منزل بہ منزل، مچھ سے دشت تک کا احوالِ واقعی۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بلوچستان کا سفر، منزل بہ منزل، مچھ سے دشت تک کا احوالِ واقعی۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

بلوچستان کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ آج بھی اپنی بے بسی پر روتا ہے کہ اس کے بچے تعلیم سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہیں۔ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی اِس صوبے کی حالت نہیں بدلی حالانکہ یہ سر زمین تو سونے اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ حتیٰ کہ یہاں پہاڑوں کو تراش کر نیشنل ہائی وے بھی بنائی گئی مگر پھر بھی سماجی و معاشی مسائل جوں کے توں ہیں۔

اس سلسلے کا پہلا بلاگ یہاں پڑھیے: جعفر آباد سے نیشنل ہائی وے پر کوئٹہ تک سفر

کہنے کو تو یہ صوبہ سونے کی چڑیا ہے لیکن اس میں بسنے والے لوگوں کو ایسے آثار نظر نہیں آتے۔ بلوچستان اپنی رنگا رنگ اور منفرد ثقافت کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک خاص رعنائی اور کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ اور مہمان نواز ہیں۔ اگر بلوچستان میں رات کے وقت بلند پہاڑوں پر چڑھ کر شہروں کا نظارہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان کے سارے ستارے اور زمین پر آکر بچھ گئے ہیں۔ بلوچستان کے باسی مٹی کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان مٹی کے گھروں سے سچائی اورمحبت کا رشتہ ہوتا تھا اب تو پتھر کے گھروں میں جھوٹ اور فریب کا رشتہ ہوتا ہے۔

اس سلسلے کا دوسرا بلاگ یہاں پڑھیے: جعفر آباد سے نیشنل ہائی وے پر کوئٹہ تک سفر (دوسرا حصہ)

ہماری اگلی منزل مچھ ہے۔ ہم مچھ کی طرف چل پڑے جہاں ایک الگ دنیا بسی ہوئی تھی۔

 

مچھ

مچھ کو چاروں اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے اور درمیان میں مچھ شہر آباد ہے۔ مچھ شہر کو خزانوں کی سرزمین اور کاروباری حوالے سے چھوٹا دبئی بھی کہاجاتا ہے۔ اس کی وجہ مچھ میں موجود کوئلے کی کانیں ہیں۔ مچھ شہر جیل اور ریل کے حوالے سے پورے ملک میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ مچھ، بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک تحصیل ہے جو سطح سمندر سے ایک ہزار میٹر بلندی پر واقع ہے۔ کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کچھ ہندوؤں کی بھی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ انگریزی حکومت کی پسندیدہ جگہ مچھ تھی۔ وہ دنیا بھر کے بے مہار قیدیوں کو مچھ جیل میں ڈال دیتے تھے۔

مچھ جیل اور ریلوے ٹریک کی تعمیر مزدوروں نے کی تھی۔ قیدیوں نے اپنے لیے خود جیل بنائی تھی۔ مچھ جیل دیکھنے میں چھوٹی ضرور ہے مگر اس میں ہزاروں قیدی سما جاتے ہیں۔ یہاں ان گنت قیدیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے جنہیں کو جلاد اسلام آباد سے آکر پھانسی دیتے ہیں۔ وہ کیسے آتے ہیں اور کب آتے ہیں؟ یہ صرف موت کا فرشتہ اور جلاد جانتے ہیں۔

1929 میں انگریز حکومت نے مچھ جیل قائم کی جو اس زمانے میں ’’بلوچستان کا کالا پانی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔ اس جیل میں ملک کے معروف سیاست دان، دانش ور، صحافی برادری پابند سلاسل رہ چکے ہیں۔ اب بھی پورے ملک کے بے مہار قیدیوں کو مچھ جیل میں لایا جاتا ہے اور انہیں مہار کی کیل ڈالی جاتی ہے۔ پھر قیدی شیر سے بلی بن جاتے ہیں۔ مچھ جیل صوبے کی واحد جیل ہے جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

مچھ جیل میں ہائی پروفائل قیدیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ میں سیکیورٹی کے انتظامات بھی سخت کر دیئے جاتے ہیں۔ اس جیل میں ایک پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا مگر قیدیوں کے پاس قیمتی سامان پہنچ جاتا ہے۔ مچھ جیل کے اردگرد ایسی حفاطتی دیوار تعمیر کی گئی ہے جس میں جدید کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب کردیئے گئے ہیں۔ جیل کی حفاظت کےلیے جیل کے عملے کی بھی نئی بھرتیاں کی گئی ہیں۔

کسی زمانے میں مچھ جیل کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہاں اگرکسی بھی سیاسی قیدی کو ڈال دیا جاتا تھا تو پہلے تین سال تک تو اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا کہ جیل آئے ہی کیوں ہو۔ تین سال بعد اس سے خیر خیریت پوچھی جاتی کہ بھائی جان معاملہ کیا ہے اور کیوں جیل لائے گئے ہو۔ پھر تین سال بعد اسے عدالت روانہ کیا جاتا۔ مچھ جیل کے بارے میں ایک محاورہ بہت مشہور ہے جو سیاسی شخصیت اور صحافی زیادہ تنگ کرے، اسے مچھ جیل بھیج دو جہاں وہ بغیر عدالتی ٹرائل کے پڑا رہے گا۔

آج بھی مچھ جیل میں انگریزوں کے زمانے کا ایک عدد تحریری ضابطہِ کار موجود ہے۔ اس ضابطہ کار کی نہ تو عملہ خلاف ورزی کر سکتا ہے اور نہ کوئی قیدی۔ ہر روز ایک سلیٹ لگی ہوتی ہے جس پر ایک پاس ورڈ لکھا جاتا ہے جسے روز تبدیل کیا جاتا ہے جسے سپاہیوں کی فوج ظفر موج یاد رکھتی ہے۔ بھولنے پر سخت سزاؤں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

مچھ جیل میں مختلف سزائیں دی جاتی ہیں جن میں جیل قیدِ تنہائی، ہتھکڑی، بیڑی، ناقص غذا، تشدد، بیماری، نشے اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی عقوبت ناک سزائیں بہت مشہور ہیں جبکہ پولیس بھی جیب بھرنے کےلیے کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ جیل میں بنائے جانے والے سامان کے بیچنے کے پیسے بھی مچھ جیل میں شہرت رکھتے ہیں جبکہ مچھ جیل کے اندر لڑائیوں کا بھی رجحان عام ہے۔ حتٰی کہ اس دوران پولیس کو بھی مارا جاتا ہے۔

صولت مرزا کی ویڈیو نے مچھ جیل کو تھوڑا کمزور کیا تھا مگر تب سے اب تک جیل کے اندر موبائل فونز پر تھوڑی سختی کی گئی تاہم پھر بھی خطرناک آلات قیدیوں کے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ گزشتہ دنوں دوبارہ سرچ آپریشن کرکے ان بے مہار قیدیوں سے سامان انتظامیہ کی نگرانی میں فورسز نے چھین لیے تھے اور مقامی انتظامیہ کے حوالے کیے گئے تھے۔

مچھ جیل کی طرح مچھ کا کوئلہ بھی بہت مشہور ہے۔ بلوچستان کے لوگ اگر کسی کو بد دعائیں دیتے ہیں تو صرف ایک جملہ کہتے ہیں: خدا کرے کہ مچھ جیل کا پانی پیو۔ اس سے بڑی بددعا ان کے نزدیک کوئی نہیں۔

مچھ کو ہم الوداع کہہ کر پیر پنجا کی جانب بڑھنے لگے۔

 

پیر پنجا

پیر پنجا بلوچستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہزاروں لوگ روزانہ میلوں سفر طے کرکے پہنچتے ہیں اور وہاں کا پانی پینا اپنے لیے باعث شفا سمجھتے ہیں، لیکن اس جگہ کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جس پر کبھی کسی نے نہیں لکھا حتٰی کہ گوگل بھی اس جگہ کے بارے میں نہیں جانتا۔ نہ جانے یہ جگہ دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟

لیکن ہم نے آج بلوچستان میں ایسی جگہ ڈھونڈھ نکالی ہے جہاں آپ پانی کا ایک گلاس پی لیں اور چند منٹوں میں آپ کا کھانا ہضم ہو جائے گا۔ بلوچستان کے خوب صورت پہاڑوں کے قریب موجود، کوئٹہ سے جعفرآباد روڈ پر واقع یہ جگہ کول پور سے تقریباً تیس کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔

یہ اہم جگہ کسی عجوبے سے کم نہیں۔ خوب صورت آبشار کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی خوبصورت مٹکوں میں پینے کے بعد آپ کو جلد بھوک کا احساس ستانے لگے گا؛ اور آپ یہی پانی پی کر کئی طرح کی بیماریوں سے بھی نجات پاسکیں گے۔

اس مقام پر حضرت علی حیدر کرارؓ کے قدم مبارک کے نشان بھی موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق 23 ہجری کو حضرت علیؓ کفار سے لڑنے کےلیے بلوچستان آئے تھے اور اپنے قدموں کے نشانات یہاں چھوڑ گئے جو آنے والی نسلوں کےلیے باعث تسکین قلب بن گئے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں جب ٹرین سروس شروع کی گئی تو ٹرین یہاں آکر رک گئی تھی اور ایک فٹ بھی آگے نہ چل سکی، جس سے ریلوے ملازمین پریشان ہوگئے۔ پھر وہاں کے افسران نے کئی علما کو بلالیا اور پھر اس قدم گاہ کی نشاندہی کی گئی۔ علما کے کہنے پر وہاں کئی بکریوں کا صدقہ دیا گیا اور ساتھ کئی دیگیں بھی نیاز کے طور چڑھائی گئیں۔ اسکے بعد ہی ریل گاڑی کو یہاں سے آگے چلنا نصیب ہوا۔

بقول عنایت خان، اس قدم مبارک کے کئی ٹکڑے مقامی لوگ کاٹ کر لے گئے۔ یہ نشانات ایسے تھے جیسے سیمنٹ پر پاؤں کے نشان ثبت ہوں۔

اس زیارت گاہ پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ 1880 میں فقیر دین محمد کو اس نقش پا کی زیارت خواب میں کرائی گئی۔ اس جگہ بیٹھ کر خدمت کا حکم ہوا اور جب صبح کو اس مقام پر پہنچا تو اسے یقین نہ آیا۔ سوچا کہ یہ حضرت علیؓ کا نقش پا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ واپس ہوا تو چند قدم پر اندھیرا ہوگیا اور آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ تب اسے یقین آیا کہ یہی حضرت علیؓ کا نقشِ پا ہے۔ یہ یقین کرتے ہی اس کی بصارت بھی واپس آگئی، جس کے بعد اس نے سچے دل سے عہد کیا کہ اب یہاں قیام کرے گا اور خلق خدا کی خدمت کرے گا۔ اب بھی اس مقام کی خدمت گزاری ان ہی کی اولادیں کر رہی ہیں۔

یہاں انہوں نے سینکڑوں مٹکے رکھے ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو دن رات پانی پلاتے ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی کٹیا بھی بنا رکھی ہے جس میں وہ سردیوں اور گرمیوں میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقیدے کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ پانی پلا پلا کر یہ لوگ نہ تو تھکتے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے: ’’ہمارے باپ دادا اسی جگہ کی خدمت کرکے اس دنیا سے چلے گئے۔ اور یہ مقدس کام ہماری اگلی نسل بھی جاری رکھے گی۔‘‘

اب ہم پیر پنجا سے آگے بڑھے؛ اور ہماری اگلی منزل کول پور تھی۔

 

کول پور

کول پور بلوچستان کے خوبصورت شہروں میں ایک چھوٹا سا شہر ہے جو پہاڑوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔ چند سال پہلے کوئٹہ روڑ پر سب سے زیادہ ٹریفک جام اسی شہر میں ہوتا تھا جو کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتا تھا مگر آج کل اس شہر کو ایک بائی پاس دیا گیا ہے۔ اس بائی پاس کو بنانے میں تقریباً دس سال لگ گئے۔ لمبے لمبے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے اس بائی پاس کی وجہ سے اب اکثر ٹریفک سیدھا دشت میں جا کر نکلتا ہے۔ کوئٹہ روڑ پر کول پول شہر سے سخت ٹھنڈے موسم کا احساس شروع ہوتا ہے اور بندہ سردیوں میں قلفی بننے میں دیر نہیں کرتا۔ اس لیے کول پور پہنچتے ہی بندہ اپنی گرم جرسیاں پہننا شروع کردیتا ہے۔

برف باری کے موسم میں کول پور برف پوش وادی بن جاتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان قدرتی معدنیات اور وسائل سے مالامال ہے۔ لیکن کول پور میں قدرتی مناظر اور تفریحی مقامات کی کثرت نے سیاحت کے فروغ کےلیے بے پناہ مواقع فراہم کر رکھے ہیں۔ اس شہر کے لوگوں کی سب سے اہم چیز مویشی ہیں جو پہاڑوں پر بہت زیادہ اور کول پور میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور جو سیاحوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔

کول پور میں سیکڑوں سال پرانے مکانات اور دکانیں موجود ہیں جو آنے والے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کول پور جیسے خوبصورت مقامات میں سیاحت کے فروغ کےلیے اقدامات کرے اور ونٹر ٹورازم ڈیویلپمنٹ پالیسی کی منظوری بھی دے جس کے تحت بلوچستان میں سیاحت کو فروغ مل سکے جبکہ سیاحوں کی دلچسپی کےلیے ٹورازم اور کلچرل سینٹرز بھی بلوچستان کے ہر سیاحتی مقامات پر تعمیر کئے جائیں اور بلوچستان کے تاریخی مقامات کو گوگل میپ میں بھی شامل کیا جائے تاکہ دنیا کے سیاح ان علاقوں میں سیاحت کرنے آئیں تو خوب صورت بلوچستان کے خوبصورت نظارے دیکھ سکیں اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔

حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان کی ثقافت، تمدن اور تاریخ کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروائے تاکہ کول پور جیسے خوبصورت ہزاروں مقامات پوری دنیا کے سیاحوں کا مرکز بن جائیں۔

کول پور عبور کرتے ہی جب ہم کوئٹہ روڈ پر مزید آگے بڑھے تو ’’دشت‘‘ ہمارا منتظر تھا۔

 

دشت

دشت، ضلع مستونگ کی ایک تحصیل ہے جو نیشنل ہائی وے کوئٹہ روڑ سے ملتی ہے۔ دشت میں اکثر غریب لوگ آباد ہیں جن کا گزر بسر کوئٹہ سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ضلع غربت کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ یہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر دشت پر کسی نے توجہ نہ دی۔ اسی وجہ صوبے میں غربت کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔

دشت کے علاقے میں ستر سال سے کسی نے بھی غربت کے خاتمے اور غربت مٹانے کےلیے اقدامات نہیں کیے جو ایک افسوسناک امر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے صوبائی حکومت کے پاس اس کے حل کےلیے کوئی جامع منصوبہ بندی بھی نہیں۔

دشت میں غربت کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری اور تعلیم کی کمی ہے۔ سرکاری و نجی ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ بھی ہے حتی کہ اس ضلع میں روز بروز بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکومت کے پاس غربت کے خاتمے کےلیے دلاسوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دشت میں سردیوں کے آتے ہی خانہ بدوش باسی لکڑیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ سخت سردیوں سے بچا جاسکے۔ ویسے بھی سردیوں کے موسم میں آدھا بلوچستان، بلوچستان ہی سے نکلنے والی گیس سے محروم رہتا ہے۔

دشت مین روڑ کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ہوٹل اور ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو دشت کے باغات کو سیراب کرتے ہیں۔ دشت میں کئی باغات نیشنل ہائی وے کے ساتھ موجود ہیں جو اس ضلع کی غربت میں کچھ کمی کرتے ہیں۔

دشت کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے، وہاں جرائم جنم لیتے ہیں۔ صوبے کو بے امنی اور جرائم کی دلدل سے نکالنے کا واحد حل غربت کا خاتمہ ہے۔ دشت میں تقریباً تمام ہی غریب لوگ آباد ہیں۔

دشت کے بعد ہمارے سامنے کوئٹہ کی خوبصورت وادی تھی؛ اور کوئٹہ کے خوبصورت مقامات ہمارے منتظر تھے۔

سفر ابھی جاری ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔