تیل کی قیمت میں اضافہ اور مہنگائی

شکیل فاروقی  منگل 6 فروری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گراتے ہوئے جمہوریت کے حسن میں اضافہ کردیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سیدھا سا مطلب ہے مہنگائی سے پریشان عوام کے مصائب میں یک بارگی اضافہ۔ جب بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست نہ صرف کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں ہو ش ربا اضافے کی صورت میں پڑتا ہے بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں بار بار اضافہ غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔

بینک دولت پاکستان نے مانیٹری پالیسی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً پانچ فیصد کمی واقع ہوئی ہے جب کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل ہے۔ اس بنیاد پر خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر آیندہ مہینوں میں مہنگائی کے طوفان کی ایک نئی لہر آنے والی ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے مہنگائی میں بھی اسی کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے بعد اس میں بمشکل ہی کمی واقع ہوتی ہے۔ البتہ غذائی اجناس کا معاملہ قدرے مختلف ہے مثلاً یہ کہ فصل کی خرابی کی وجہ سے جب کسی جنس کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن بعد میں جب صورتحال معمول پر آجاتی ہے تو اس کی قیمت خود بہ خود کم ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر پیاز یا ٹماٹر کی قیمتوں میں ناقص زرعی منصوبہ بندی کے باعث جب بھی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے تو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے لیکن جب بقدر ضرورت ان کی فراہمی ہونے لگتی ہے تو نرخ خود بہ خود کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

لیکن اب جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کا تعلق پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور پٹرول کے نرخ میں اضافے کے ساتھ وابستہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے چند سال پہلے پٹرول کے عالمی نرخوں میں چالیس ڈالر فی بیرل تک کمی آگئی تھی جس کے نتیجے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی، لیکن وطن عزیز میں ایسا بالکل نہیں ہوا اور بے چارے عوام کو اس کا کوئی ریلیف نہیں ملا۔ جن چیزوں کی قیمتیں بڑھ چکی تھیں ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جب پٹرول کی عالمی قیمت 100 ڈالر فی بیرل تھی یا حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی جا رہی تھی تب اس کے باوجود تیل کے نرخ بڑھ رہے تھے اور ٹرانسپورٹروں نے اپنے کرایوں میں اضافہ کردیا تھا۔

اس کے بعد تیل کے عالمی نرخوں میں جب کمی کا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی جانب سے بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی گئی تب بھی ٹرانسپورٹرز نے عوام کے مطالبے کے باوجود اپنے کرایوں میں کوئی کمی نہیں کی اور عوام کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔

اب اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں فی بیرل اضافہ ہوتا ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے ہیں تو مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ مزید آگے بڑھے گا لہٰذا اس سلسلے میں حکومت کو عالمی منڈی میں تیل کے آیندہ نرخوں میں اضافے پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور اس معاملے میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی تاکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام پر مزید ناقابل برداشت بار نہ پڑنے پائے۔

عالمی منڈی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ماضی کی طرح تیل کے نرخوں کو گرنے سے روکا جائے۔ اب سے چند سال قبل یورپ میں معاشی کساد بازاری کے ساتھ دنیا بھر کی معاشی ترقی میں کمی محسوس کی جا رہی تھی لیکن اب عالمی اداروں کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں بھی معاشی ترقی کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

چند سال قبل پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2 سے 3 فیصد کے لگ بھگ ہوچکی تھی لیکن اب صورتحال میں کچھ بہتری محسوس کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں تیل کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ادھر تیل پیدا کرنے والے ممالک نے جب اپنی آمدن میں کمی واقع ہوتے ہوئے دیکھی تو انھوں نے بہت سی معاشی اصلاحات کر ڈالیں کیونکہ وہ اس بات کے متحمل نہیں تھے کہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ پہلے کی طرح گر جائیں اور ان کی آمدن میں کمی واقع ہو جائے۔ چنانچہ یہ توقع عبث ہے کہ تیل کے نرخ پہلے کی طرح گر جائیں گے۔ اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مہنگائی میں اضافے کے خدشات کو نہایت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زیر کاشت رقبے میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے گندم کی پیداوار ہدف سے کم رہنے کی توقعات ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت چوکنا رہے اور کوشش کرے کہ ذخیرہ اندوز اور دیگر سماج دشمن عناصر اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے گندم کی مصنوعی قلت نہ پیدا کردیں اور گندم کے دام بڑھ نہ جائیں۔ اگر حکومت نے اس سلسلے میں خاطر خواہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو آٹا مہنگا ہوجائے گا اور عوام کی غالب اکثریت جو پہلے ہی مسائل گرفتہ ہے شدید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔