حاتم طائی کا دوسرا خط

شکیل صدیقی  منگل 6 فروری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

عجیب سا شہر ہے، ہر شخص جلدی میں معلوم ہوتا ہے اور قدرے پریشان ۔ مالک میرا آپ کو مشورہ ہے کہ ادھر بھول کر بھی نہیں آئیے گا ۔ میں حسن بانوکی تلاش میں تندہی سے مصروف ہوں، مگر اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے کوئی اورکام نہیں ہے۔ میں نے ایک کے دو بنانے کے طریقے سیکھ لیے ہیں اور اس میں خوش ہوں ۔ میں نے ایک سوزوکی خرید لی ہے،اس میں ڈیڑھ سو بچوں کو اسکول پہنچاتا ہوں اور واپس ان کے گھروں پر چھوڑ دیتا ہوں ۔اتنے بچوں میں یہ یاد رکھنا بے حد دشوار ہوتا ہے کہ کون کس کا ہے۔

دوپہر کو مائیں اپنے بچوں کو آوازیں دے کر یا سوزوکی میں گھس کر خود ہی کھینچ لیتی ہیں۔ بچوں کو پڑھنے سے زیادہ شوروغل مچانے اورکرکٹ کھیلنے کاشوق ہے۔ ان کا بس چلے تو وہ اپنے مکان کے لان میں بھی کرکٹ کھیلنا شروع کردیں، میں نے محسوس کیا ہے کہ اس قوم کے خون میں کرکٹ شامل ہوگئی ہے۔

حقیقت یہ کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کیا کرنا چاہتا ہے؟کمپیوٹر چونکہ نئے زمانے کی ایجاد ہے، لہٰذا سب ہی اس پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں ۔ سونا، جاگنا اورکھیلنا کودنا کمپیوٹر ہے۔اسی سے نیٹ جوڑ لیاجاتا ہے تو پھرکسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ ساری دنیا آپ کی مٹھی میں آجاتی ہے۔ طبیعت گھبرانے لگے تو کوئی فلم چلا لی جاتی ہے، ڈراما دیکھ لیا جاتا ہے یا گانے سنے جاتے ہیں۔

یہ بیماری گھروں میں سرطان کی طرح سرایت کرچکی ہے ۔ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ گھرسے نکل کر بچوں کے ہاتھوں میں بھی پہنچ چکی ہے۔ واٹس ایپ نام ہے اس کا۔ موبائل سے نیٹ جڑ جاتا ہے اور چلتے پھرتے تماشا دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے ان دوستوں اور شناساؤں سے گفتگوکی جاسکتی ہے جو دور ازکار ملکوں میں بیٹھے ہیں ۔میرے پاس نہیں ہے۔سوچ رہا ہوں کہ ایک میں بھی لے لوں تاکہ آپ سے گفتگو کر سکوںاور دل کو شادکام کروں۔

میں حسن بانوکی تلاش میں ڈیلی رپورٹ دینا چاہتا ہوں۔ پھر یہ کہ آپ نے چلتے وقت جورقم میری مٹھی میں پکڑا دی تھی وہ کس مد میںخرچ ہوئی۔ میرا اونٹ جو انسانوں کی طرح گفتگو کرتا ہے اور جس کا نام کیقباد ہے۔اس کے ساتھ مجھے بھی حوالات میں بند کر دیا۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اونٹ پارکنگ اس شہر میں نہیں ہوسکتی۔ یہاں کاروں اورگاڑیوں کی پارکنگ کے لیے تو جگہ ہے نہیں ، تیرے اونٹ کے لیے جگہ کہاں سے لائیں؟ اسے جاکر جونا مارکیٹ میں چھوڑ دے۔ وہاں بار برداری کے کام آتا رہے گا، اگر یہ انسانوں کی طرح عالمانہ گفتگو کرتا ہے تو کیا ہوا یہاں تو گدھے بھی دانشور ہیں۔ ہم کیقباد کوکسی یونیورسٹی میں پروفیسر تو نہیں لگاسکتے۔ اس کی جو اوقات ہے وہ کرے۔ مالک ان حوصلہ شکن باتوں سے میں دل شکستہ سا ہوگیا۔

کئی بار خودکشی کے بارے میں سوچا اور نیٹی جیٹی بھی گیا، لیکن پانی ٹھنڈا ہونے کی بنا پر ارادہ ملتوی کرنا پڑا ۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کہاںکا ناتا کہاں جوڑ رہا ہوں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کیقباد کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ٹیکسی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ پہلے تو پیلی یا کالی پیلی سے کام چل جاتا تھا، لیکن اب ان کی جگہ اوبر نے لے لی ہے۔فون کرو تو دروازے پر حا ضر ہوجاتی ہیں اور اگر ان کا رجسٹریشن کارڈ ہو توکیاکہنے ،ایک سوروپے رعایت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کرایہ آٹو رکشہ کے برابر ہوجاتا ہے ۔کم ادائی میں پوبارہ۔

آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ میں کہاں کی ہانک رہا ہوں۔ معمولی سی عقل رکھنے والا پوچھے گا کہ جب سوزوکی ہے تو میں اس پر سفرکیوں نہیں کرتا؟آپ خود سوچیے کہ میرا بھی کوئی اسٹینڈرڈ ہونا چاہیے یا نہیں؟شہزادہ جان عالم کا خادم خاص اور اس طرح سے جوتیاں چٹخاتا پھرے؟مجھے لوگ جب کاک ٹیل پارٹیوں میں مدعوکرلیتے ہیں تو آپ کی عزت اوروقارکو بلند کرنے کے لیے مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔

دوسرے ملکوں میں تین اوربعض اوقات چار طبقے ہوتے ہیں، لیکن اس ملک میں صرف دو طبقے پائے جاتے ہیں۔اعلا اور اشرفیہ یا پھر نچلا۔(جس سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا اورجو خود کو متوسط کہلانا پسند کرتا ہے مگر کچھ نہیں بن پاتا ) یہ طبقہ دال روٹی کھاتا ہے(یعنی اناج کو اناج کے ساتھ کھاتا ہے اور اسی میں خوش ہے) جب کہ طبقہ اشرافیہ چکن پر ٹوٹی پڑرہی ہے، چکن روسٹ،چکن مسالا،چکن قورما ، چکن کڑھائی ، پھر یہ کہ برگرکھانے بیٹھتی ہے تو زنگر برگرکھاتی ہے جو سراسر چکن ہے۔ یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ وہ چکن کھا رہے ہیں (مری ہوئی مرغیوں کے بارے میں اردو اخبارات کے کالم نویس بہت کچھ لکھ چکے ہیں، لیکن یہ طبقہ اردو اخبارات ہی نہیں پڑھتا۔)ان کے طعام کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں نے اب گدھے کا گوشت پکانے کا اہتمام بھی کر ڈالا ہے، چٹپٹے مسالوں کے ساتھ ،جس سے گوشت کے ذائقے پر مسالے کا ذائقے کامسالا غالب آجاتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ مجھے غالب کا نام احترام کے ساتھ لینا چاہیے۔کیونکہ یہ بڑا شاعر ہے اور اس کی حیثیت مسلم ہے۔ آپ تحقیق کیجیے۔معلوم نہیں کس زبان کا شاعر تھا۔

پتا چلاہے کہ کسی زمانے میں یہاں شاعری بھی ہوتی تھی اور یار لوگوں کو ادبی رسائل اور شعری مجموعے نکالنے کا بھی شوق تھا۔ کاغذ مہنگا ہونے کی وجہ سے رسائل شایع ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا،لیکن شعری مجموعے اب بھی شایع ہو رہے ہیں، نعتیہ شاعری کے روپ میں۔ جن میں شاعری کم اور نعت زیادہ ہوتی ہے۔یہ مجموعے شاعر حضرات اپنے دوستوں اور رفیقوں میں تحفتہً تقسیم کر دیتے ہیں۔ پھر بھی بچ جاتے ہیں تو ٹھیلے والوں کو فروخت کردیتے ہیں۔

(اس کا کوئی جواب نہیں کہ مجموعے شایع کیوں کیے جاتے ہیں؟) جہاں سے علم وادب کے پیاسے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ ناولوں اور افسانوں کا زمانہ بیت گیا ۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ رضیہ بٹ اورآر اے خاتون کے ناول پڑھتا پھرے۔ ان پر عالمانہ گفتگو کرے یا ادبی محفلیں سجاتا پھرے۔ خود میں نے دیکھا ہے کہ ایسی ادبی محفلوں میں مقررین تو بہت ہوتے ہیں، لیکن سامعین کی تعداد برائے نام ۔سامعین کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب کھانے پینے کا کوئی معاملہ ہو۔

یہ قوم برائے نام عقل مند، وگرنہ عقل بند اور ازار بندکہلانے کی مستحق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔