روپے کی گرتی قدر ذمے دار کون

عام آدمی کو تو شاید احساس نہیں ہے کہ روپے کی اس بے قدری کے نتائج کیا ہوں گے۔


مزمل سہروردی March 29, 2018
[email protected]

SINGAPORE: پاکستانی روپے کی قدر جس تیزی سے گزشتہ دو ہفتوں میں گری ہے اس کی تو ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ روپے کی اتنی بے قدری ماضی میں کبھی نہ دیکھی گئی۔

ماضی میں بھی روپے کے ساتھ ظلم و استحصال ہوا ہے، اس کی قدر گرتی رہی ہے بلکہ ستر سال سے روپے کی قدر گر ہی رہی ہے لیکن یہ عمل ہمیشہ بتدریج رہا ہے۔ لیکن اس بار تو ایسے گرا ہے جیسے پہاڑ کی اونچائی سے پتھر کو نیچے دھکیل دیا جائے۔

عام آدمی کو تو شاید احساس نہیں ہے کہ روپے کی اس بے قدری کے نتائج کیا ہوں گے۔ افراط زر کا کیا ہوگا۔ قرضوں میں کتنا اضافہ ہو گا۔ یہ روپے کی بے قدری نہیں بلکہ پاکستان کی بے قدری ہے۔ اس بے قدری کی ایک ایک پائی کی قیمت میں نے اور آپ نے ادا کرنی ہے۔

مصیبت تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف روپے کی قدر روزانہ کی بنیاد پر تیزی سے گر رہی ہے دوسری طرف پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے گر رہے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر ایشیا میں سب سے تیزی سے گر رہے ہیں اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ جلد ہی ہمارے ذخائر کمبوڈیا سے بھی کم رہ جائیں گے۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کمبوڈیا کی معیشت کا حجم ہم سے دس گنا کم ہے۔ اس طرح ہم اپنے سے دس گنا کم اور چھوٹی معیشت سے بھی کمزور ہو جائیں گے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر فروری میں 13.5بلین ڈالر تھے جب کہ کمبوڈیا کے جنوری میں 11.3بلین ڈالر تھے۔

یہ کوئی میرے ذاتی اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ آئی ایم ایف کے اعدادو شمار ہیں۔یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ جون تک پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں 2.2بلین ڈالر کی مزید کمی ہو جائے گی۔ اس طرح ہم کمبوڈیا کے ساتھ آجائیں گے۔کیا کوئی حکمرانوں سے پوچھ سکتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ شاید نہ حکمرانوں کے پاس وقت ہے اور نہ ہی پوچھنے والوں کے پاس اتنا فضول ٹائم ہے کہ اس پر ضایع کریں۔ الیکشن کا بگل بج چکا ہے ایسے میں کون زرمبادلہ کے ذخائر کا رونا روئے۔ ایسے میں ملک دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔

ایک طرف معیشت کی یہ صورتحال افسوسناک ہے دوسری طرف نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ان کی نا اہلی کے فیصلہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسحاق ڈار نے بھی بیان داغ دیا ہے کہ یہ سب ان کو نکالنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ورنہ ان دونوں نے تو مل کر معیشت کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا۔

یہ کیا سیاست ہے کہ پی ایس ایل کراچی کے فائنل کا کریڈٹ لینے کے لیے تو نواز شریف بیان دے دیتے ہیں لیکن روپے کی قدر گرنے اور زر مبادلہ کے ذخائرگرنے کی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ کون بتائے کہ ابھی بھی انھیں کی حکومت ہے۔ اسی لیے وہ سیکیورٹی کے نام پر ملنے والے پروٹوکول میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں ورنہ باقی ملزم کیسے پیش ہوتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم ان کا اپنا ہے۔آج معیشت اور روپے کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے آپ اس سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ اسی طرح محترم اسحاق ڈار کو کون بتائے کہ آپ وزارت سے نکالے نہیں گئے،آپ چھٹی پر ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ آپ باہر سے بیٹھ کر سب کنٹرول کر رہے ہیں۔ آپ ابھی تک وزیر خزانہ ہیں ۔

اس لیے جو ہو رہا ہے آپ اس کے براہ راست ذمے دار ہیں۔ پاکستان کی معیشت آج جس صورتحال کا شکار ہے وہاں سے نکلنے کا ابھی کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ اگر ہم اڑھائی ارب ڈالر کا مزید قرضہ بھی لے لیں۔ تب بھی صورتحال کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔حکومت عالمی مارکیٹ میں بانڈ فروخت کرنا چاہتی تھی لیکن اس ماہ عالمی منڈی میں سود کی شرح اتنی زیادہ تھی کہ وہ بھی فروخت نہ کر سکی۔

ہم آج کہاں کھڑے ہیں دیکھ لیں ہم سے علیحدہ ہونے والے مشرقی پاکستان جو کہ اب بنگلہ دیش ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے دوگنا ہوچکے ہیں۔ روپے کی قدر میں اس قدر کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اتنی تیزی سے کمی ایک قومی بحران ہے۔

یہ ایک جنگی صورتحال ہے۔ ہمیں ایسا سمجھنا چاہیے جیسے ہم پر حملہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کی معاشی سرحدیں گر رہی ہیں۔ ایسے میں دوسری سرحدوں کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے گی۔ آج دنیا میں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی محاذ پر ہی جنگ لڑتے ہیں۔

آپ کی معیشت ہی آپ کی دفاع اور سالمیت کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت بھی سو رہی ہے، ادارے بھی سو رہے ہیں۔ کسی کو فکر ہی نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سب محو تماشہ ہیں۔ کون ان کو سمجھائے کہ یہ کسی ایک کی تباہی نہیں بلکہ ہم سب کی تباہی ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ اے پی ایس کی طرح ہمارے بچوں کا قتل ہے۔

دشمن نے ہمارے بچوں کو بھوکا مارنے کے لیے حملہ کر دیا ہے۔ کیا اب دوبارہ ایک معاشی نیشنل ایکشن پلان کا وقت نہیں آگیا ہے۔ آج ملک کی گرتی معیشت کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس سو موٹو میں نہ صرف اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے تمام اداروں کو ایک روڈ میپ بنا کر عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے کہیں بلکہ ذمے داروں کا تعین اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ایک جے آئی ٹی بھی بنائیں۔

یہ جے آئی ٹی پاناما کی جے آئی ٹی سے کم بااختیار نہیں ہونی چاہیے۔ باقاعدہ تحقیق کی جائے کہ کس نے گزشتہ پانچ سال میں پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے کب کیا جھوٹ بولا، کس نے قوم کو دھوکا دیا۔

عدلیہ کو ٹیکس کے مقدمات کو سات روز میں نمٹانے کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے۔ بیرون ملک سے لوٹی دولت واپس لانے کے لیے مقدمات کا بھی فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔شنید تو یہی ہے کہ موجودہ ن لیگ کی حکومت کو اس ساری صورتحال کا لمبے عرصے سے بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ روپے کی قدر میں یہ کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں یہ کمی نگران دور میں ہو گی۔ ان کی حکومت ختم ہو چکی ہو گی۔ وہ کہیں گے ہم تو ٹھیک چھوڑ کر گئے تھے۔ نگرانوں نے تباہی کر دی۔ لیکن گیم الٹ ہو گئی اور بحران دو ماہ پہلے ہی آگیا۔ اس لیے اس کی باقاعدہ تحقیق اور مجرموں کی سزا ہی پاکستان کو بچا سکتی ہے۔ یہی واحد حل ہے۔

مقبول خبریں