امریکا چین تجارتی جنگ؛ ایک دوسرے پر ’’محصولات کی گولہ باری‘‘

ویب ڈیسک  پير 2 اپريل 2018
چین اور امریکا کے درمیان ’تجارتی جنگ‘ کا آغاز گزشتہ ماہ کے اوائل سے ہوا۔ فوٹو : سوشل میڈیا

چین اور امریکا کے درمیان ’تجارتی جنگ‘ کا آغاز گزشتہ ماہ کے اوائل سے ہوا۔ فوٹو : سوشل میڈیا

بیجنگ: چین نے امریکا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد تک محصول ‏عائد کر دیا ہے۔

بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات اسٹیل اور المونیم پر ٹیکس لگانے کے جواب میں چین نے بھی امریکا سے درآمد شدہ 128 مصنوعات پر 25 فیصد محصول لگا دیا ہے جس کے باعث امریکا کی تین ارب ڈالر سے زائد درآمدات متاثر ہوں گی۔ چین ان محصولات کے علاوہ مزید ٹیکس بھی عائد کرنے کی منصبہ بندی کررہا ہے۔

چین نے موقف اختیار کیا ہے کہ محصولات میں اضافے کا فیصلہ چینی مفادات کے تحفظ کے تحت کیا گیا ہے جس کا مقصد امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کے جارحانہ فیصلے سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا بھی ہے۔ چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اگر تجارتی جنگ چھیڑی گئی تو چین اپنے مفادات سے متعلق راست اقدام اُٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور حالیہ اقدام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

مزید پڑھیے : عالمی تجارتی جنگ چھڑنے کا خدشہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو سپر پاورز کے درمیان معاشی تناؤ اور ایک دوسرے پر معاشی پابندیاں سخت کرنا خطے کے امن کے لیے درست نہیں۔ دونوں ممالک کو معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو کشیدگی کا سبب بنیں تاہم مستقبل بعید میں اس تناؤ میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی محاذ پر تناؤ کی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی صدر نے اپنی تجارتی پالیسی کو ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا عندیہ تھا جس کے بعد ٹرمپ کے مشیر تجارت نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ چین نے امریکی صدر کے اس بیان پر سخت ردعمل دیا تھا۔

مزید پڑھیے:  اسٹیل اور المونیم کی درآمد پر امریکی پابندی

واضح رہے امریکی صدر نے ’’ تجارتی جنگ ‘‘ کو پسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا چین سے درآمد کردہ اشیاء پر ٹیکس لگانا چاہتا ہے تاکہ چینی سرمایہ کاری کو محدود کر کے مقامی صنعت کو فروغ دیا جا سکے جس کے جواب میں چین نے کہا تھا کہ وہ تجارتی جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر ان کی معیشت متاثر ہوتی ہے تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔